شکریہ اہلیان کراچی

سلیم خالق  اتوار 17 مارچ 2019
کرکٹ کے ذریعے ہی ہم وطنوں کو تفریح کا بہترین موقع فراہم کیا جا سکتا ہے اور ہمیں ایسا کرنا بھی چاہیے۔ فوٹو: فائل

کرکٹ کے ذریعے ہی ہم وطنوں کو تفریح کا بہترین موقع فراہم کیا جا سکتا ہے اور ہمیں ایسا کرنا بھی چاہیے۔ فوٹو: فائل

وقت گذرنے کا واقعی احساس نہیں ہوتا کل ہی کی بات لگتی ہے جب میں دبئی اسٹیڈیم میں بیٹھا پی ایس ایل کی افتتاحی تقریب سے لطف اندوز ہو رہا تھا اب اتوار کو اختتامی تقریب ہونے والی ہے،انتظامی امور میں بعض خامیوں کے باوجود اگر مجموعی طور پر دیکھا جائے تو یہ ایونٹ بھی کامیابی سے ہمکنار ہوااور اس دوران شائقین کو مقابلے سے بھرپور بہترین کرکٹ دیکھنے کو ملی۔

ویسے ہمیں اہلیان کراچی کو بھی داد دینی چاہیے جنھوں نے ایونٹ کے دوران بہترین نظم و ضبط کا مظاہرہ کیا، گوکہ شہریوں خصوصاً اسٹیڈیم کے آس پاس رہنے والوں کو پریشانی تو ہوئی، کئی روز تک شہرکے کئی علاقے عملاً بند رہے، اس کے باوجود لوگوں نے کوئی شور نہیں مچایا، شکریہ اہلیان کراچی جو بخوبی جانتے ہیں کہ روشنیوں کے شہر کی روشنیاں واپس لانے کیلیے کچھ تو قربانی دینا ہی پڑے گی۔

آپ نیشنل اسٹیڈیم کی اونچائی سے لی گئی تصاویر دیکھیں یقین نہیں آئے گا یہ کسی پاکستانی کرکٹ گراؤنڈ کا منظر ہے، ظاہر ہے دنیا کے دیگر ممالک میں بھی لوگ میچز دیکھ رہے ہوں گے،اس سے بہت اچھا تاثر جائے گا، ایونٹ کے دوران سیکیورٹی بھی عالمی معیار کی رہی،اس کیلیے اہلکاروں نے دن رات ایک کیے، تمام فورسز داد و تحسین کی مستحق ہیں، بلاشبہ اب پاکستان دنیا کی کسی بھی ٹیم کی اپنے ہوم گراؤنڈز پر میزبانی کر سکتا ہے۔

آئی سی سی، آسٹریلیا اور بنگلہ دیش کے ماہرین بھی خود جائزہ لینے کے بعد یقینی طور پر اچھی رپورٹس ہی دیں گے، کھیل کے معیار کا مقابلہ بلاشبہ دنیا کی کسی بھی لیگ کے ساتھ کرنا ممکن ہے بلکہ پی ایس ایل میں بولرز کی پرفارمنس سب سے اچھی ہے،کراچی کی پچز بیٹنگ کیلیے زیادہ سازگار ثابت ہوئیں، بیشتر میچز میں خوب رنز بنے اور شائقین کو چوکوں، چھکوں کی برسات دیکھنے کا موقع ملا، ایونٹ کے نتائج البتہ گزشتہ ایڈیشنز سے مختلف نہیں رہے۔

لاہور قلندرز کی ٹیم مسلسل چوتھے برس آخری نمبر پر آئی،اس میں قسمت کا بھی بہت عمل ودخل لگتا ہے، جب آپ کے اہم پلیئرز انجرڈ ہو جائیں تو کیا کر سکتے ہیں،ملتان سلطانز نے دوسرے سال بھی مایوس کیا، نئے اونرز پرانی ٹیم سے بہتر نتائج سامنے نہیں لا سکے، اب اگلے برس کافی تبدیلیاں دیکھنے کو مل سکتی ہیں۔

رواں برس اسلام آباد یونائیٹڈ کی ٹیم ٹرافی کا دفاع نہیں کر سکی،ڈرافٹ کے بعد یہ باتیں ہو رہی تھیں کہ اس بار اسکواڈ زیادہ متوازن نہیں لگتا لہذا ٹائٹل نہیں جیت سکے گا مگر اسلام آباد نے بہتر کھیل پیش کیا،البتہ پشاور زلمی نے ایلیمنیٹر ٹو میں اسے آؤٹ کلاس کر دیا، یہ ٹیم واقعی یونائیٹڈ ہے اس کا ثبوت آصف علی ہیں جو بیٹی کی شدید علالت کے باوجود کھیلتے رہے، آخری میچ ہارنے سے زیادہ کھلاڑیوں کو اس بات کا دکھ تھا کہ وہ ٹرافی جیت کر اپنے ساتھی کھلاڑی کو خوشی فراہم نہ کر سکے، ڈین جونز تو پریس کانفرنس میں اس بارے میں بات کرتے ہوئے آبدیدہ ہو گئے تھے۔

اب اتوار کو فائنل میں کوئٹہ گلیڈی ایٹرز اور پشاور زلمی کا مقابلہ ہونا ہے، ایک کا کپتان سیمی تو دوسری کا سیفی ہے، دونوں ہی بہترین انداز میں ذمہ داری سنبھالے ہوئے ہیں، ان کو باصلاحیت کرکٹرز کا ساتھ بھی حاصل ہے،کوئٹہ کی ٹیم کو اکثر غیرملکی اسٹارز کے نہ آنے سے نقصان ہوتا تھا مگر اس بار ایسا نہیں ہے، خصوصاً شین واٹسن کے آنے سے شائقین خوشی سے سرشار ہیں، انھوں نے بھی اپنے شاندار کھیل سے انھیں مایوس نہیں کیا، اب تک وہ سب سے زیادہ رنز بنانے والے بیٹسمین اور فائنل میں اپنا ریکارڈ مزید بہتر بھی بنا سکتے ہیں۔

رواں پی ایس ایل میں کئی اسٹار پلیئرز پاکستان آئے اوریہ واقعی ایک عالمی لیگ کا منظر پیش کر رہی ہے،ملک میں کرکٹ کی بہار آ گئی ہے، ان دنوں ایک میلے کا سماں اور اس دوران کوئی کسی خامی کی نشاندہی بھی کرے تو لوگ کہتے ہیں کہ نگیٹیوٹی پھیلا رہا ہے، اس لیے بعض مواقع پر خاموش رہنا مناسب ہوتا ہے،اب آج ایونٹ ختم ہوجائے گا تو آہستہ آہستہ مسائل سامنے آئیں گے، ویسے ایک بات تو ہے کہ لیگ کے دوران پی سی بی میں قیادت کا فقدان دکھائی دیا، نجم سیٹھی سے لاکھ اختلاف سہی مگر انھوں نے تمام معاملات اپنے کنٹرول میں رکھے ہوئے تھے۔

میں نے پہلے بھی نشاندہی کی تھی کہ بورڈ نے اس بارکسی کو ایونٹ کا سربراہ نہ بنا کر بڑی غلطی کی، تمام شعبوں کو ہدایت کی گئی کہ وہ بس اپنے اپنے کام کرتے رہیں، اس سے سب الگ سمت میں چلتے رہے اور پی سی بی کو مشکلات پیش آئیں، مسئلہ یہ ہے کہ احسان مانی اینرجیٹک شخصیت کے مالک نہیں اورلوپروفائل میں رہنا پسند کرتے ہیں، ذاکر خان میں اتنی قابلیت نہیں کہ بڑا پروجیکٹ سنبھال سکیں۔

سبحان احمد کو بڑی پلاننگ سے سائیڈ لائن کیا جا رہا ہے جبکہ غیرملکی ایم ڈی وسیم خان جب تک یہاں کے معاملات سمجھیں گے بہت دیرجائے گی، ابھی تو پی سی بی کے میڈیا ڈپارٹمنٹ کے ذریعے ہی پتا چلتا ہے کہ وہ کیا کر رہے ہیں جیسے کل تصاویر ریلیز ہوئی تھیں کہ وہ ایک اسٹینڈ میں کینسر کے مریض بچوں کے ساتھ بیٹھے ہیں، ایسے کام خاموشی سے ہوتے ہیں بورڈ کو ان کی تشہیر نہیں کرنی چاہیے۔

اب ایونٹ کے بعد پی سی بی کو تمام معاملات کا مکمل جائزہ لینا ہوگا تاکہ اگلے ایڈیشن میں غلطیاں نہ دہرائی جا سکیں، ویسے بھی وزیر اعظم عمران خان اعلان کرچکے کہ تمام میچز پاکستان میں ہوں گے لہذا بورڈ کو اب زیادہ اچھی پلاننگ کرنا ہوگی، پی ایس ایل فور سے کراچی کے شائقین خوب لطف اندوز ہوئے مگر یہ پاکستان کی لیگ ہے اسے ایک شہر تک محدود نہیں رکھنا چاہیے۔

تمام پاکستانیوں کو حق ہے کہ وہ اسٹیڈیم جا کرمیچز دیکھیں، امید ہے بورڈ ایسی پلاننگ کرے گا کہ آئندہ برس نہ صرف کراچی اور لاہور بلکہ فیصل آباد، راولپنڈی، ملتان اور پشاور میں بھی میچز کا انعقاد ہوسکے، کرکٹ کے ذریعے ہی ہم وطنوں کو تفریح کا بہترین موقع فراہم کیا جا سکتا ہے اور ہمیں ایسا کرنا بھی چاہیے۔

(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔