ایک دن منڈیلا کی طرح مجھے نوبل انعام ملے گا، برینٹن ٹیرنٹ

خبر ایجنسی  اتوار 17 مارچ 2019
نیلسن منڈیل جب اپنے لوگوں کی حمایت سے اقتدار میں آئے تو انھیں نوبل انعام ملا تھا، برینٹن کا منشور۔ فوٹو: سوشل میڈیا

نیلسن منڈیل جب اپنے لوگوں کی حمایت سے اقتدار میں آئے تو انھیں نوبل انعام ملا تھا، برینٹن کا منشور۔ فوٹو: سوشل میڈیا

کرائسٹ چرچ: نیوزی لینڈ کے شہر کرائسٹ چرچ کی 2مساجد میں دہشتگردی کے ذریعے 49 مسلمانوں کو شہید کرنے والے آسٹریلوی شہری برینٹن ٹیرنٹ نے اپنے آپ کا جنوبی افریقہ کے انجہانی صدر نیلسن منڈیلا سے تقابل کرتے ہوئے خود کو نوبل انعام کاحقدار قراردیا ہے۔

اپنے آن لائن زہریلے منشور میں برینٹن نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی تعریف کی ہے جبکہ ترک صدر طیب اردوان کو ’’جنگجوسردارWarlord قراردیتے ہوئے انہیں یورپ کا پرانا دشمن اور واجب القتل لکھا ہے اور کہا ہے کر طیب اردوان کے قتل سے یورپی زمینوں پر قبضے کرنے والے ترکوں میں پھوٹ پڑے گی اور خطے پر ترکی کی گرفت کمزور ہوجائیگی۔

اس نے اپنے منشور میں لکھا ہے کہ اسے جلد رہائی کی امید نہیں۔ نیلسن منڈیل بھی 27 سال اپنی کیمونٹی کیلئے جیل میں رہے تھے۔جب وہ اپنے لوگوں کی حمایت سے اقتدار میں آئے تو انھیں نوبل انعام ملا تھا۔

اس نے مزید لکھا ہے کہ مغربی ملکوں میں آنے والے تارکین وطن سے سفید فام لوگوں کے معدوم ہونے کا خطرہ ہے ۔ان لوگوں میں شرح پیدائش بہت زیادہ ہے ،اس سے قبل کہ یہ لوگ ہمیں تباہ کردیں،ہمیں ان لوگوں کو تباہ کردینا چاہیئے۔

اس نے تاریخ کے حوالے دیکر مسلمانوں کو مغربی تہذیب کیلیے خطرہ قراردیا ہے اور کہا ہے کہ وہ بھی ان گروپوں میں شامل ہیں جن کے ہاں شرح پیدائش بہت زیادہ ہے ۔یہ ایک دن ہمیں فتح کرلیں گے۔اس نے غیرسفید فام قومیتوں کو ماحولیات کیلیے بھی خطرہ قراردیتے ہوئے ان کیلیے ’’ایکوفاشسٹ‘‘ کے الفاظ استعمال کیے ہیں۔

اس کا کہنا ہے کہ سفید فام لوگ آبادی میں اضافہ کا سبب نہیں،جو لوگ اس کا سبب بن رہے ہیں ،انھیں ختم کردیا جائے کیونکہ یہ آبادی میں بے تحاشہ اضافہ کا سبب بن رہے ہیں۔ماحول کے تحفظ کیلیے ان کا خاتمہ ضروری ہے۔انہوں نے بچوں کے قتل کا یہ جواز پیش کیا ہے کہ یورپی ملکوں میں دراندازی کرنے والے لوگوں کے بچے بچے نہیں رہتے یہ بڑے ہوکر سفید لوگوں کے خلاف ووٹ دیتے ہیں۔اس کاکہنا ہے کہ اس کے اقدامات دہشتگردی سے مشابہت رکھتے ہیں لیکن اس پراسے کوئی پچھتاوا نہیں۔

اس نے لندن کے میئرصادق خاںکا ذکرکرتے ہوئے انھیں برٹش لوگوں کی نسلی تبدیلی اور انھیں اپنی جڑ سے ختم کی ایک مثال قراردیا ہے ۔اس نے جرمنی کی چانسلرانجیلا مرکل کے بارے میں لکھا ہے کہ وہ یورپی لوگوں کی اپنے علاقے سے نسلی تطہیر کی سب سے بڑی ذمہ دارہیں۔

امریکی صدرڈونلڈ ٹرمپ کے بارے میں اس کا کہنا ہے کہ وہ مشترکہ مفاد کیلیے سفید فام لوگوں کے احیا کی سب سے بڑی علامت ہیں۔چین واحد ملک ہے جس کے ساتھ اس کی سماجی اور سیاسی مطابقت ہے۔اپنے مقاصد کیلیے بندوق اٹھانے کی اس نے یہ توجیح پیش کی ہے کہ اس سے وہ امریکا میں سماجی افراتفری پیدا کرنا چاہتا ہے۔وہاں بائیں اور دائیں بازو کے لوگوں میں جھگڑا ہوگا اور بالآخر وہاں کے لوگ سماجی اور نسلی لیکروں میں بٹ جائیں گے۔

مسلمانوں کے قاتل دہشت گرد نے عدالت میں OK کا نشان بنایا

نیوزی لینڈ کے شہر کرائسٹ چرچ میں گزشتہ روز ایک سفید فام دہشت گرد نے نماز جمعہ کے وقت 2مساجد میں مسلمانوں پر اندھا دھند گولیاں برسادیں جس سے 49افرادشہید ہو گئے۔ آج جب اس دہشت گرد کو کرائسٹ چرچ کورٹ میں پیش کیا گیا تو اس نے میڈیا کے کیمروں کے سامنے ایک ہاتھ سے ایک نشان بنایا جو اس بھیانک واردات کے پیچھے اس کی اصل وجہ کو بیان کرتا ہے۔

ڈیلی میل ان لائن کے مطابق اس تصویر میں 28 سالہ دہشت گرد برینٹن ہیریسن ٹیرینٹ نے ایک ہاتھ سے ’اوکے‘ (OK) کا نشان بنایا جو درحقیقت ’وائٹ پاور‘ (White Power) کا نشان ہے۔ اس نشان کے ذریعے سفید فام باشندے اپنے برتر اور طاقتور ہونے کا اظہار کرتے ہیں۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔