جامعہ کراچی کی رصدگاہ میں موجود جرمن ساختہ ٹیلی اسکوپ کچرے کی نذر

صفدر رضوی  اتوار 17 مارچ 2019
سپارکوکی جانب سے سول ورک جاری ہے، 16 انچ لینس کی نئی ٹیلی اسکوپ کے ساتھ رصدگاہ مئی سے کام شروع کردیگی۔ فوٹو: فائل

سپارکوکی جانب سے سول ورک جاری ہے، 16 انچ لینس کی نئی ٹیلی اسکوپ کے ساتھ رصدگاہ مئی سے کام شروع کردیگی۔ فوٹو: فائل

کراچی: جامعہ کراچی کی رصدگاہ Observatoryکی کئی سالہ بندش کے بعد اب ’’آبزرویٹری‘‘میں60کی دہائی میں نصب کی گئی جرمن ساختہ نادرونایاب’’ٹیلی اسکوپ‘‘کچرے کے ڈھیرکی نذر کردی گئی ہے۔

تاریخی اہمیت کی حامل ٹیلی اسکوپ ناصرف زمین کی حرکت کواپنی حرکت اورلینس سے Synchronizationکرنے کی صلاحیت رکھتی ہے بلکہ اس کے لینس بیک وقت پورے آسمان کواسکین بھی کرسکتے ہیں۔

ٹیلی اسکوپ کوپہلے توزلزے سے محفوظ پلر سے اتارکررصد گاہ کے ایک کمرے میں رکھ دیاگیااوراب ٹیلی اسکوپ کے لینس نکال کرعلیحدہ کردیے گئے ہیں جبکہ اس کی انتہائی قیمتی موٹر، ڈھانچہ اوردیگراشیا رسدگاہ کے صحن میں دیگراشیا اورکوڑے کے درمیان پڑی ہے جو یونیورسٹی انتظامیہ کی نااہلی اورنادرونایاب سائنسی آلات و اشیا سے نابلد ہونے کی تصویر پیش کررہی ہے۔

یونیورسٹی اوراس کے متعلقہ شعبے’انسٹی ٹیوٹ آف اسپیس اینڈ پلانیٹری آسٹروفزکس‘‘( Institute of Space and Planetary Astrophysics)کی اس قیمتی ٹیلی اسکوپ کی حفاظت میں عدم دلچسپی کے سبب ایک جانب ٹیلی اسکوپ بظاہرناقابل استعمال ہوگئی ہے جبکہ دوسری جانب انسٹی ٹیوٹ کے طلبا اپنی ریسرچ میں اس ٹیلی اسکوپ کی تاریخی اہمیت کوجاننے اوراس سے فائدہ اٹھانے سے قاصر ہیں۔

جامعہ کراچی کی یہ رصدگاہ گزشتہ 5برسوں سے بندپڑی ہے اورطلبا کوکسی بھی اہم فلکیاتی منظرکا مشاہدہ اب متعلقہ شعبے کی 4منزلہ عمارت کی چھت سے کرایاجاتاہے جبکہ اس شعبے میں جاری بیچلر،ماسٹرزاورایم فل؍پی ایچ ڈی پروگرام بھی آبزرویٹری کے بغیرہی جاری ہیں۔

اس بات کاانکشاف ’’ایکسپریس‘‘کی جانب سے رصدگاہ کے دورے کے موقع پر ہواجب وہاں فلکیاتی تحقیقاتی ادارے اسپارکو کی جانب سے جاری سول ورک (تعمیراتی وتزئین اورآرائش) کے امورکے دوران ٹیلی اسکوپ کے مختلف حصے بکھرے نظرآئے اس موقع پر یہ بھی معلوم ہواہے کہ جامعہ کراچی کی اس رصد گاہ میں بجلی اورپانی موجودنہیں ہے۔

کئی برس قبل بجلی کے تارچوری ہونے کے باعث رصدگاہ میں بجلی کاکنکشن منقطع ہوگیاتھاجوآج تک منقطع ہے جبکہ لائنوں میں پانی بھی موجود نہیں جس کے سبب اسپارکے کنٹریکٹرکورصدگاہ کی تعمیرومرمت کے جاری کام کومکمل کرنے میں بھی مشکلات کاسامناہے۔

اطہرنامی کنٹریکٹرنے ’’ایکسپریس‘‘ کوبتایاکہ انسٹی ٹیوٹ آف اسپیس اینڈ پلانیٹری آسٹروفزکس کی انتظامیہ سے بجلی کے کنکشن کے لیے کئی بارکہنے کے باوجود رصدگاہ میں بجلی فراہم کی جاسکی اورنہ ہی پانی مہیاکیا گیا اور بحالت مجبوری پہاڑی پر قائم اس رصدگاہ تک جنریٹر پہنچا کراس کے ذریعے بجلی کاکام کیاجارہاہے جبکہ پانی کی فراہمی کااب بھی کوئی انتظام نہیں ہے۔

یادرہے کہ دسمبر2010میں بعض نامعلوم افرادرصدگاہ کی اونچائی تک جانے والابجلی کاسیکڑوں میٹرلمبارتارچوری کرکے لے گئے تھے جس کے بعد سے تاحال جامعہ کراچی کی انتظامیہ اس رصدگاہ کے لیے بجلی کاانتظام نہیں کرپائی جبکہ یہ رصدگاہ بھی گزشتہ 5سال سے مستقل بندہے ۔

’’ایکسپریس‘‘کومذکورہ ٹیلی اسکوپ کے حوالے سے موصولہ معلومات سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ ٹیلی اسکوپ بنانے والی جرمن کمپنی Carl Zeissکے کچھ نمائندوں نے 90کی دہائی میں جامعہ کراچی کا دورہ کرکے اس نایاب ٹیلی اسکوپ کوواپس لینے اوراس کے متبادل قدرے جدیدٹیلی اسکوپ دینے کی پیشکش کی تھی تاہم دونوں ٹیلی اسکوپ کے مابین Cost difference (قیمتوں میں فرق) کے سبب نئی ٹیلی اسکوپ کی خریداری جامعہ کراچی کے بجٹ سے باہرتھی۔

ٹیلی اسکوپ کے حوالے سے حاصل ہونے والی معلومات کے مطابق ٹیلی اسکوپ بنانے والی کمپنی Carl Zeissکے لینس آج بھی دنیاکے مہنگے ترین کیمروں میں استعمال ہوتے ہیں، جامعہ کی رسد گاہ کودی گئی Refractor کوڈ کی اس ٹیلی اسکوپ میں بھی 6انچ کالینس لگایاگیاتھایہ ٹیلی اسکوپ ’’polar mounting‘‘ (قطب نمائی کی خاصیت)کی حامل تھی جس کے تحت ٹیلی اسکوپ سے کسی فلکیاتی منظرکامشاہدہ کرنے والا (observer)کسی سمت میں حرکت کیے بغیرایک جگہ موجودرہتاہے اورٹیلی اسکوپ دیگرسمتوں میں حرکت کرسکتی ہے جبکہ اس ٹیلی اسکوپ میں پورے آسمان کواسکین کرنے کی صلاحیت موجودہے ۔ ایک الیکٹرک موٹرٹیلی اسکوپ کی حرکت کوزمین کی حرکت سے Synchronization کرنے کاکام دیتی تھی۔

’’ایکسپریس‘‘کویونیورسٹی کے ایک سابق وائس چانسلرنے بتایاکہ ان کودستیاب معلومات کے تحت 1967/68میں یونیورسٹی کے اندرموجوداس پہاڑی پررسدگاہ بنائی گئی تھی اوراسی دورمیں یہ ٹیلی اسکوپ بھی نصب کی گئی ٹیلی اسکوپ کنکریٹ کے ایک ایسے پلرپرنصب کی گئی تھی جوزلزے سے محفوظ ہے اوردہائیوں قبل پلرکوپہاڑی میں ڈرل کرکے کئی فٹ گہرائیسے بنایاگیاتھا۔

ذرائع کہتے ہیں کہ جامعہ کراچی کے انسٹی ٹیوٹ آف اسپیس اینڈ پلانیٹری آسٹروفزکس نے 2014سے یہ رصد گاہ استعمال ہی نہیں کی اوراسے بند کردیاگیا۔

جامعہ کراچی کے انسٹی ٹیوٹ آف پلانیٹری اینڈ آسٹروفزکس کے چیئرمین ڈاکٹرجاوید اقبال کے مطابق رصدگاہ کی اپ گریڈیشن اورنئی ٹیلی اسکوپ کی فراہمی کیلیے ’ایم اویو‘پر9جولائی 2015کودستخط ہوئے تھے تاہم اسپارکوکی جانب سے بجٹ مختص کرنے کے معاملے پرکچھ قانونی پیچیدگیاں تھیں جس کے سبب یہ کام اب 2ماہ قبل شروع ہواہے رصدگاہ کی اپ گریڈیشن کے سلسلے میں فی الحال سول ورک جاری ہے اوراس سول ورک کی تکمیل کے بعد اسپارکو جامعہ کراچی کو16انچ لینس کی نئی ٹیلی اسکوپ دے گا۔

امیدہے کہ نئی رصدگاہ قدرے جدید ٹیلی اسکوپ کے ساتھ مئی سے کام شروع کردے گی۔ پرانی ٹیلی اسکوپ کے حوالے سے کیے گئے سوال پرڈاکٹرجاوید اقبال کاکہناتھاکہ اسپارکوکی یقین دہانی کے بعدہم نے پرانی ٹیلی اسکوپ اتاردی تھی۔ ان کاکہناتھاکہ اس کے لینس ہمارے ہی ایک استادکے پاس ہیں آبزرویٹری پرکام مکمل ہوجائے توہم پرانی ٹیلی اسکوپ دوبارہ کسی جگہ نصب کرادیں گے۔

ایک سوال پر ان کاکہناتھاکہ پاکستان میں اسپیس سائنس کی تعلیم کے بعد روزگارکے مواقع کم ہیں لہٰذا ہم نے اس پروگرام کواسپیس سائنس اینڈ ٹیکنالوجی میں تبدیل کیاہے جس کے بعد اب شعبے میں ’’آسٹرونامی، آسٹرو فزکس، سیٹلائٹ کمیونیکیشن، ایئرواسپس، ریموٹ سینسنگ اینڈ جی آئی ایس کے علاوہ ایٹموسفیرک سائنس‘‘ کے مضامین پڑھائے جارہے ہیں تاکہ طلبا دیگر شعبوں میں بھی روزگار حاصل کرسکیں۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔