تمغۂ امتیاز پر تنازع کھڑا کرنا غیر ضروری

قیصر افتخار  اتوار 17 مارچ 2019
فنکاروں کو نوازے بغیر بہترین کارکردگی کی اُمید نہیں کی جاسکتی۔ فوٹو: فائل

فنکاروں کو نوازے بغیر بہترین کارکردگی کی اُمید نہیں کی جاسکتی۔ فوٹو: فائل

کسی بھی ملک و قوم کی پہچان اس کی ثقافت ، لباس اور روایات سے ہوتی ہے، لیکن کچھ اعزازات اور خطابات ایسے بھی ہوتے ہیں جو انہیں اپنی دھرتی کے انمول رتن تو بناتے ہی ہیں لیکن وہ دنیا بھر میں بھی اس کی بدولت پہچانے جاتے ہیں۔

اگر ہم فنون لطیفہ کی بات کریں تو گلوکارہ نور جہاں کو ملکہ ترنم ، غزل کے شعبے میں مہدی حسن کو شہنشاہ غزل، فن قوالی میں  استاد نصرت فتح علی خاں ،  ریشماں کو بلبل صحرا اور کلاسیکی موسیقی میں استاد بڑے فتح علی خاں کو جو مقاملا وہ کم ہی فنکاروں کے حصے میں آیا۔جس کی بڑی وجہ ایک ہی تھی کہ ان کا کام ایسا تھا جس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ انہی فنکاروں نے جہاں اپنے اپنے شعبوں میں خوب نام کمایا وہیں ان کی گراں قدر خدمات پر حکومت پاکستان نے انہیں اعلی سول ایوارڈز اور اعزازات سے نوازا۔

دیکھا جائے تو یہ فنکار ان اعزازات اور ایوارڈ کے حقدار بھی تھے کیونکہ ان کی فنی صلاحیتوں کا اعتراف پاکستان ہی نہیں بلکہ پڑوسی ملک بھارت سمیت دنیا کے بیشترممالک میں کیا گیا۔ وہ جہاں بھی پرفارم کرنے کے لئے گئے اپنی فنکارانہ صلاحیتوں سے پاکستان کا سبز ہلالی پرچم بلند کرتے رہے۔ اسی لئے ان فنکاروں کی زندگی کا جائزہ لیں تو زیرو سے ہیرو بننے کی مثال ان پر فٹ بیٹھتی ہے انہوں نے ابتدائی دور میں جس طرح محنت اور لگن سے کام کیا اس کا نتیجہ ہمارے سامنے ہے کہ اج ان کو دنیا سے رخصت ہونے کے باوجود پسند کیا جاتا ہے بلکہ نوجوان نسل بھی ان کے فن کی قدردان ہے۔

اب ہم بات کرتے ہیں موجودہ دور کی جہاں پر عمران خان جیسے عظیم کھلاڑی نے بطور وزیراعظم پاکستان میں حکومت سنبھال رکھی ہے۔ عمران خان کا ماضی نوجوانوں کے لیے ایک شاندار مثال ہے انہوں نے جس طرح کرکٹ کے میدان میں فتوحات حاصل کیں اور اپنی ثابت قدمی سینہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا کو یہ بتایا کہ اگر سچی لگن کے ساتھ کوئی بھی کام کیا جائے تو وہ ضرور پورا ہوتا ہے۔

پاکستان کی قومی ٹیم کو 92 کے ورلڈ کپ میں فتح یاب کروانے میں عمران خان نے اہم کردار ادا کیا اس کے بعد جب انہوں نے پاکستان میں پہلا کینسر ہسپتال بنانے کا فیصلہ لیا تو اس پروجیکٹ کے لیے دن رات محنت کرنا پڑی لیکن انہوں نے اس کو مکمل کیا اور آج شوکت خانم کینسرہسپتال غریب اور نادار لوگوں کا علاج کر رہا ہے۔

عمران خان نے عملی طور پر سیاسی سفر شروع کیا تو بہت کٹھن مراحل سے گزرنا پڑا لیکن انہوں نے ہمت نہ ہاری اور آج پوری قوم ان کے ساتھ ہے ایسے شخص کے دورے حکومت میں نوجوانوں کو بہت امیدیں وابستہ ہیں ہر کوئی ماضی کے کرپشن کی داستان سناتا ہے لیکن اب نوجوان امید رکھتے ہیں کہ عمران خان کی حکومت میں ملک کے حالات سدھریں گے کرپشن کا خاتمہ ہو گا بیروزگاری ختم ہو گی اور پاکستان ترقی کی راہ پر آگے بڑھے گا لیکن گزشتہ چند روز سے ایک بحث سوشل میڈیا پر جاری ہے جس میں پاکستان کے سب سے اعلی سول ایوارڈز اور اعزازات کو دیے جانے کا اعلان سامنے آیا۔

اس میں فلم سٹار بابرہ شریف فوک گلوکار عطااللہ عیسی خیلوی اداکارہ رحیما شبیر جان کامیڈین افتخار ٹھاکر اور نوجوان نسل کی پسندیدہ اداکارہ مہوش حیات شامل ہیں سوشل میڈیا پر مہوش حیات کو سول ایوارڈ کے لئے منتخب  کرنے پر حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے کوئی اس کو سفارش کہہ رہا ہے اور کوئی اس حوالے سے نئی کہانی سنا رہا ہے مگر سوشل میڈیا پر ایک ہی بات سامنے آ رہی ہے وہ یہ  ہے کہ مہوش حیات جیسی اداکارہ کو اتنی کم عمری اور کم تجربے کے باوجود اتنے بڑے اعزاز سے نوازنے کا فیصلہ کیوں لیا گیا ؟

ایک طرف جہاں سوشل میڈیا پر شدید تنقید کی جا رہی ہے وہیں دوسری جانب فنکاربرادری مہوش حیات کی سپورٹ کے لیے سامنے آ گئی ہے بہت سے فنکاروں نے سوشل میڈیا پر مہوش حیات کی فنی صلاحیتوں کا اعتراف کرتے ہوئے انہیں مبارکباد دی ہے اور ساتھ ساتھ یہ بھی کہا ہے کہ انہوں نے مختصر عرصے میں جو کام کیا وہ قابل ستائش ہے کی حق دار ہیں۔

اب سوشل میڈیا پر معمول سے ہٹ کر بحث شروع ہو چکی ہے جس میں بہت سے لوگ مہوش حیات کے  خلاف بات کر رہے ہیں اوراور بہت سے لوگ ان کی سپورٹ میں سامنے آگئے ہیں خاص طور پر فنکار برادری جو ایک دوسرے کو نیچا دکھانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتی وہ بھی اب جو ہے وہ مہوش حیات کی سپورٹ میں کھڑی ہے۔ ہر کوئی چاہتا ہے کہ مہوش حیات کو یہ ایوارڈ یہ اعزاز ضرور ملے دوسری جانب اگر ہم ایوارڈ کے لئے منتخب ہونے والے دوسرے فنکاروں کا ذکر کریں تو اور میں پاکستان فلم انڈسٹری پر پانچ دہائیوں تک راج کرنے والی بابرہ شریف ان کے علاوہ فلمساز رینہ معروف کامیڈین افتخارٹھاکر ٹی وی کے منجھے ہوئے اداکار شبیرجان اور فوک میوزک کا درخشاں ستارہ عطااللہ عیسی خیلوی ان سب کو اعلی سول ایوارڈز کے لئے منتخب کیا گیا ہے جن کو 23 مارچ 2019 کو ایوارڈ سے نوازا جائے گا۔

اس صورتحال میں پاکستان کی شوبز انڈسٹری کے سنجیدہ حلقوں کا یہی کہنا ہے کہ ہمارا ملک اس وقت بہت سے مسائل میں گھرا ہوا ہے۔ کرپشن بے روزگاری اور لوڈ شیڈنگ سمیت بہت سے اہم مسائل عوام کو پریشان کئے ہوئے ہیں۔ ایسے میں ایک اداکارہ کو نشانہ بنانا کہاں کی عقلمندی ہے۔ ان حالات میں ہمیں اپنے فنکاروں کی سپورٹ کرنی چاہیے اگر ہم پڑوسی ملک بھارت کی بات کریں تو وہاں پر جس طرح سے ایک دوسرے کو سپورٹ کیا جاتا ہے اس کی مثال کہیں اور نہیں ملتی حالانکہ وہاں پر بھی فنکاروں کے آپسی اختلافات بہت زیادہ ہوتے ہیں لیکن وہ ان کو منظر عام پرلانے کی بجائے دانشمندانہ فیصلہ کرتے ہیں اور سکرین پر ایک دوسرے کو سرحد دکھائی دیتے ہیں جس سے ایک بہت ہی مثبت تاثر سامنے آتا ہے اس سلسلہ میں سوشل میڈیا پر جو کچھ لکھا جا رہا ہے کہاں جا رہا ہے اس اس اس رائے کا احترام بھی کرنا چاہئے لیکن جس طرح سے فنکار برادری نے مہوش حیات کی سپورٹ کی ہے اور سامنے آئی اس کی مثال ماضی میں نہیں ملتی۔ مہوش حیات ایک اچھی اور باصلاحیت اداکارہ ہے وہ خوش شکل ہونے کے ساتھ ساتھ فنکارانہ صلاحیتوں سے بھی خوب مالامال ہے انہوں نے اپنے فنی سفرکے دوران جہاں ماڈلنگ کی وہی فلموں میں آئٹم نمبر بھی کیے انھوں نے جہاں ڈراموں میں اداکاری کے جوہر دکھائے ہیں فلموں میں بھی نام کمایا جبکہ انٹرنیشنل پروجیکٹس میں بھی  کام کرچکی ہیں اس لئے حکومت پاکستان کی جانب سے سول ایوارڈ کے لئے نامزد کرنے کا فیصلہ بہت مثبت ہے۔

ہم سمجھتے ہیں کہ ہمیں تنقید کرنے کے بجائے اس اقدام کو سراہنا چاہیے تاکہ آئندہ برس اور فنکاروں کو بھی اس طرح کے سول ایوارڈز اور اعزازات سے نوازا جا سکے اختلافات کی نہیں بلکہ یکجا ہونے کی ضرورت ہے جب تک ہم یکجہتی کا مظاہرہ نہیں کریں گے اور ایک دوسرے کی سپورٹ نہیں کریں گے تب تک پاکستان فلم انڈسٹری ٹی وی انڈسٹری فیشن انڈسٹری میوزک انڈسٹری اور اس سے وابستہ دیگر شعبہ ترقی نہیں کر سکتے۔

اگر ہم ماضی کی بات کریں تو پاکستان میں فنون لطیفہ کے مختلف شعبوں میں کام کرنے والے بہت سے فنکار ان اعزازات اور ایوارڈ سے محروم رہے اور ان کے بغیر ہی دنیا سے رخصت ہو گئے اس سے بہت سے نام ایسے ہیں جنکو ثقافتی اداروں نے جان بوجھ کر نامزد نہ کیا اور ان کی فیملیز آج بھی اس حوالے سے ثقافتی اداروں کی کارکردگی اور ان کی پالیسی کو تنقید کا نشانہ بناتی ہے اس کے برعکس نیا پاکستان نہیں حکومت ہمارے سامنے ہے جس میں اچھے فیصلے ہو رہے ہیں اور ہمیں مثبت سوچ کے ساتھ اچھے مزید اچھے فیصلوں کا انتظار کرنا ہوگا ہمیں منفی سوچ کو کم کرتے ہوئے مثبت سوچ کو پروان چڑھانا ہوگا تاکہ ہمارے نوجوان فنکار  زیادہ محنت اور لگن سے کام کرتے ہوئے پاکستان اور دنیا بھر میں سب سے لالچ کو بلند کر سکے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔