موسلے سے برنیٹن تک!

راؤ منظر حیات  پير 18 مارچ 2019
raomanzar@hotmail.com

[email protected]

نیوزی لینڈ میں ہونے والی دہشت گردی کے متعلق بہت کچھ لکھا جارہا ہے اور آنے والے دنوں میں اس اندوہناک واقعہ پر درجنوں کالم اور اداریے قلم بند کیے جائیں گے۔ دنیا بھر میں اس کی بھرپورمذمت کی جارہی ہے مگر چند ہفتوں بعد یہ سب کچھ فراموش ہوجائے گا لیکن جن مسلم خاندانوں کے چراغ بجھ گئے وہ مسلسل نوحہ گر رہیں گے شائد پوری عمریا شائد ہرپَل اور ہر لمحہ۔

برنیٹن ٹارنٹ(Brneton Tarrant)جس نے یہ قتلِ عام برپاکیا،کسی رعایت کامحتاج نہیں۔پچاس زندگیوں کونسلی تعصب کی بنیادپرختم کردیناانتہائی درد ناک سانحہ  ہے۔اسے قرارواقعی سزاضرورملے گی، ہرقیمت پرملے گی۔ نیوزی لینڈکی مقامی عدالت میں کڑی نگرانی میں ٹارنٹ کو پیش بھی کردیاگیاہے۔

عدالت میں اس نے اپنی آنکھوں اورچہرے سے ایک خاص اشارہ کیاہے جو سفیدفام شدت پسندتنظیموں کے لیے تھا۔مطلب یہ کہ وہ مطمئن ہے اور اپنامشن مکمل کرلیا ہے۔یہ حددرجہ خوفناک بات ہے۔ قرائن کے مطابق ٹارنٹ ایک مخصوص سوچ کی نمایندگی کرتاہے  جس میں مسلمانوں کی مغربی دنیامیں امیگریشن کومجرمانہ فعل بناکرپیش کیا گیاہے۔ یقین ہے کہ ٹارنٹ نیوزی لینڈکی عدالتوں کے ہاتھوں کیفرِکردارتک پہنچے گا۔یعنی عمرقید۔ وہاں سزائے موت کافی عرصہ سے ختم کی جاچکی ہے۔

انتہائی اہم سوال پیداہوتاہے کہ ٹارنٹ نے سب کچھ کیوں کیا؟اس کے  ذہن میں مسلمانوں کے خلاف نفرت کیسے ڈالی گئی؟کیا یہ صرف  انفرادی فعل ہے یا مغرب میں سفیدفام دہشتگردی کی اُبھرتی ہوئی لہرکاشاخسانہ ہے۔طالبعلم کے طورپربنیادی سوال کوسمجھے بغیراس واقعہ کاتجزیہ کرناناممکن ہے۔ٹارنٹ کی ذہنی تبدیلی پرحددرجہ کم تحقیق کی گئی ہے۔کیسے ایک امن پسند  معاشرے کا اٹھائیس سالہ عام نوجوان حیوانیت ، درندگی اور جنون کی خطرناک راہ پرچل پڑا۔یہ حددرجہ اہم سوال ہے۔ اسی سے اندازہ ہوگاکہ یورپ اورمغربی ممالک میں فکری تبدیلی کیسے اورکیونکرآئی ہے اوریہ تکلیف دہ سفرمسلسل جاری ہے۔

وکٹوریہ وارڈنے برنیٹن ٹارنٹ پرفکرانگیزکالم تحریر کیا ہے۔آغاز،میں سنہرے بالوں والاانتہائی معصوم بچہ اپنے والدکی گودمیں بیٹھاہواہے۔دوڈھائی سال کی عمرکابچہ برنیٹن ہے اوریہ عام سی گھریلوتصویرہے۔برنیٹن اپنی تعلیم مکمل نہ کر پایا کیونکہ اسے پڑھنے کاکوئی شوق نہیں تھا۔خاندان متوسط درجہ کی زندگی گزاررہاتھا۔ایک جمنیزیم میں بطورٹرینربھی کام کرتا رہا۔وہاں اس کی شہرت ایک مددکرنے والے انسان کی تھی، جمنیزیم میں آئے ہوئے لوگوں کوورزش کرانااس کی روٹین تھی۔

کوئی بھی یہ نہیں سوچ سکتاتھاکہ برنیٹن کے ذہن میں کس طرح کے خیالات موجزن ہیں۔کن شخصیات اور نظریات  سے وہ متاثرہورہاہے اورآنے والے وقت میں وہ نیوزی لینڈکی تاریخ میں سب سے بڑامجرم قراردیاجائے گا۔ والدہ اسے پیارسے برینٹو(Brento)کہتی تھی۔ والد کے انتقال کے بعد،نوجوان دنیاکی سیاحت کی طرف مائل ہوگیا۔ یورپ، جاپان،ہندوستان اورشمالی کوریامیں شوق پورا کرتا رہا۔ برنیٹو پاکستان بھی بطورسیاح آیا۔ہنزہ کے پہاڑی سلسلوں نے اسے مسحورکردیا۔پچھلے برس اس نے ہمارے ملک کے متعلق  کہا۔’’پاکستان کے لوگ پوری دنیامیں سب سے زیادہ مہمان نوازاورخوش اخلاق ہیں۔ہنزہ اورنگرکی وادیوں کے قدرتی حسن کاکوئی مقابلہ نہیں ہے‘‘۔

برنیٹو سفاک ہی نہیں بلکہ خاصا شاطر بھی ہے۔ اس نے اپنے خیالات میں تبدیلی کے لیے بڑا انسانیت نواز سہارا ڈھونڈاہے۔ اس تبدیلی میں پہلاکردارایک سویڈش بچی ایبااکرلینڈ (Ebba Akerlund)کو دیاہے۔گیارہ سالہ یہ بچی پیدائشی طورپرقوتِ سماعت سے محروم تھی۔2017ء میں ایک مسلمان ازبک کوسویڈن سے نکالے جانے کاعدالتی حکم صادر ہوا۔رحمت اکیلوونے ایک ٹرک چوری کیااوراسٹاک ہوم میں ایک ہجوم پرٹرک چڑھادیا۔مرنے والوں میں گیارہ سالہ معصوم بچی ایبابھی تھی۔ ایبا سن نہیں سکتی تھی،اس لیے وہ ہجوم کے شورمچانے کے باوجودبھاگنے میں ناکام رہی اورٹرک کے نیچے آکرکچلی گئی۔

برنیٹن نے اپنی بندوق پرلکھاہواتھاکہ یہ سب کچھ ایباکے انتقام میں کررہاہے۔ایباکے والداوروالدہ نے برنیٹن کے اس بیان پر تنقیدکی ہے اورکہاہے کہ اس نے معصوم بچی کانام اپنے انتقام کے لیے حددرجہ غلط استعمال کیا ہے۔ بہرحال برنیٹن نے انٹرنیٹ پرجوتحریری آئین پوسٹ کیا ہے،اس میں ایباکانام کافی باراستعمال کیا ہے۔ حقیقت یہی ہے کہ واردات کاجوازہی مکمل طورپربے بنیاد سطح پرتھا۔بقول ایباکے والدین کے،وہ مکمل طور پر جھوٹ بول رہاہے۔ ویسے بھی ہوشیار دہشت گرد کوئی نہ کوئی ایسا جواز تلاش کرتا ہے جو لوگوں کو اپیل کرے۔

دوسراحوالہ حددرجہ اہم ہے۔یہ اسولڈموسلے (Oswald Mosley)کی فکرسے متاثرہونے کی جانب گھمبیراشارہ ہے۔نناوے فیصدلوگوں کوعلم نہیں ہوگا کہ اسولڈموسلے کون تھااوراس کے نظریات کتنے ادنیٰ تھے۔ خود مجھے بھی موسلے کانام تک معلوم نہیں تھا۔برنیٹن کے متعلق پڑھتے ہوئے معلوم ہواکہ فکری طورپرموسلے کاشاگرد تھا۔ موسلے انیسویں صدی میں برطانیہ کاایک سیاستدان تھا۔بنیادی طورپر وہ فاشسٹ تھا۔برطانوی فوج میں کام کرنے کے بعد سیاست میں آگیا۔میسولینی اس کاآئیڈئل تھا۔1920میں موسلے برطانوی پارلیمنٹ کاممبربن گیا۔ موسلے برسرعام جمہوری نظام کی تضحیک کرتاتھا۔اس نے’’برطانیہ فاشسٹ پارٹی‘‘ بنائی۔ اس کے بقول جمہوریت ایک غیرفطری نظامِ حکومت ہے۔ دنیا میں صرف اورصرف ڈکٹیٹرشپ کا وجود رہنا چاہیے۔

موسلے نے برطانیہ میں پُرتشددمظاہروں کوفروغ دیا۔ 1940 کی دہائی میں موسلے، برطانیہ میں امیگریشن کے سخت خلاف تھا۔اس کی تحریک یہودیوں کے خلاف تھی۔ وہ یہودیوں کوبرطانیہ سے نکالنا چاہتا تھا۔ برطانوی حکومت نے متعددبارموسلے کو گرفتار کیا۔ اس کی سیاسی پارٹی کوکالعدم قراردیاگیا۔ پورے یورپ کو ایک ملک یا ایک جغرافیائی خطہ بناناچاہتا تھا۔

دیکھا جائے تویورپین یونین کی ابتدائی شکل اس کے افکارمیں ملتی ہے۔ موسلے دہشت پسندرویہ کی بدولت طویل عرصے تک اپنے گھرمیں بھی نظربندرہا۔نیوزی لینڈمیں دہشتگردی کرنے والا برنیٹن، اپنے آپکوموسلے کا شاگرد بتاتا ہے۔ موسلے کے افکار کو یورپ،آسٹریلیااورنیوزی لینڈمیں رائج کرنا چاہتا ہے۔اس کے نزدیک مغربی دنیامیں صرف اور صرف گورے ہونے چاہئیں۔تارکین وطن بالخصوص مسلمانوں کایورپ اورمغربی دنیاپرکوئی حق نہیں۔

دل پرہاتھ رکھ بتائیے،کہ کیاواقعی برنیٹن اوراس جیسے اَن گنت سفیدفام شدت پسندلوگوں کی فکرکاہمیں ادراک ہے۔کیاہمیں علم ہے کہ مغرب میں تارکین وطن کوزندہ رہنے کے حق سے محروم کرنے والے لوگ بہت کثیر تعداد میں موجودہیں۔طالبعلم کاخیال ہے کہ ہمیں بلکہ پوری دنیا میں اسکاادراک اس سنجیدہ سطح پرنہیں ہے،جوواقعی اسکاحق ہے۔دنیاکے اخبارات پرنظرڈالیے۔مسلم شدت پسندی پر ہروقت ایک بیانیہ پیش کرنے میں مصروف نظر آئینگے۔ ہر طرف ہاہاکارمچی ہوئی ہے کہ مسلمان دہشتگرد ہیں۔ دنیا کا امن برباد کرنے پرتلے ہوئے ہیں۔

اسلام کودہشتگردی سے منسلک کرکے مغرب نے ایک ایساغیرسنجیدہ کام کیاہے جس سے حقائق مسخ ہوچکے ہیں۔اس حرکت کے ردِعمل کانہ مغربی دنیا کواندازہ تھااورنہ ہی ان کی حکومتوں کو۔ہالینڈسے لے کرفرانس تک،امریکا سے لے کربرطانیہ تک،تمام میڈیا، مسلمانوں کو حددرجہ دہشتگردبناکرپیش کررہاہے۔مگرکیاآپ نے آج تک سفیدفام شدت پسندی بلکہ دہشتگردی کابیانیہ سنا ہے۔ کیا آپ نے کبھی کسی مغربی ٹی وی چینل پرکوئی تجزیہ دیکھاہے کہ ان ممالک میں سفیدفام دہشتگردی بڑی  تیزی سے جڑ پکڑرہی ہے۔معتدل رویے ہاررہے ہیں۔ دلیل کی بنیاد پر وہاں بھی بات کرنابہت مشکل ہوتا جارہا ہے۔

آج تک مغربی دنیاکادہشتگردی میں براہِ راست ملوث ہونے کاکوئی طاقتور بیانیہ نہیں سنا۔ہرگزیہ عرض نہیں کررہاکہ وہاں متوازن قوتیں موجودنہیں ہیں۔بالکل ایسے ہی جیسے ہمارے ملکوں میں تمام لوگ دہشتگردہرگزہرگزنہیں ہیں۔مگرہمیں تو دہشتگرد قرار دیدیاگیاہے۔مگرمغرب میں مقامی شدت پسندی کوروکنے اور بیخ کنی کرنے کاکوئی منصوبہ کم ازکم میری نظرسے نہیں گزرا۔ کیایہ حددرجہ عجیب بات نہیں ہے کہ پورے مغرب میں دائیں بازوکی پُرتشدد  سوچ کوپروان چڑھایا جارہا ہے۔ کیا یہ ایک انتہائی خوفناک حکمتِ عملی نہیں ہے تاکہ ان کے معاشروں میں تارکین وطن پرزندگی تنگ کردی جائے۔

آنے والے وقت میں مجھے موسلے کی تشددپسندانہ سوچ کوفروغ ملتاہوانظرآرہاہے۔برنیٹن کا پچاس کے لگ بھگ بے قصورمسلمانوں کوسفاک طریقے سے قتل کردینااسی سوچ کاعملی حصہ ہے۔اس فکر کوختم کرناتودورکی بات،مجھے تو اسے کم کرنے کی بھی کوئی منصوبہ بندی نظرنہیں آرہی۔ ہمیں قطعاًاحساس نہیں کہ برنیٹن جیسے کردارمغرب کے ہر شہر، اور ہر گاؤں میں موجودہیں۔مسلمانوں کے خلاف مغرب میں دہشتگردی کی فکرموجودہے،جس کامحاسبہ کرنا اس وقت حددرجہ ضروری ہے۔

تھوڑے دن میں ہم سب کچھ بھول کراپنی اپنی زندگیوں میں مصروف ہوجائیں گے۔ مگرنیوزی لینڈجیسے اندوہناک واقعات ختم نہیں ہوں گے۔ یہ تسلسل سے ہوتے رہیں گے۔ اس دہشت گردانہ فکری انقلاب کا ادارک کم ازکم مسلمان ممالک میں موجود نہیں ہے۔شائدیہ فہم کبھی آئے بھی نا؟موسلے سے برنیٹن تک کاسفرجاری وساری رہیگا۔بغیرکسی روک ٹوک کے!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔