بے صبری کی انتہا

ظہیر اختر بیدری  پير 18 مارچ 2019
zaheer_akhter_beedri@yahoo.com

[email protected]

ہماری آج کی اپوزیشن کل کی بے مثال حکمران تھی، ہم آج کل کی حکمران جماعت کے کارنامے نہیں گنوائیں گے بلکہ اس بے صبری کا ذکر کریں گے جو کل کی حکمران اور آج کی اپوزیشن جماعت حصول اقتدار کے لیے کر رہی ہے۔

آج کی اپوزیشن کو سب سے بڑا اعتراض یا حکومت پر الزام ہے کہ وہ 2018ء کے انتخابات میں دھاندلی کرکے برسر اقتدار آئی ہے ویسے تو ہماری جمہوریت دھاندلی سے شروع ہوتی ہے اور دھاندلی پر ختم ہوتی ہے لیکن ہماری سابقہ حکومت پر سابقہ الیکشن میں دھاندلی کے جتنے شدید الزامات تھے اس کی مثال کسی سابقہ حکومت کے انتخابات میں نہیں ملتی۔ لیکن اس دھاندلی کے خلاف آواز اٹھانے والا واحد لیڈر عمران خان تھا۔

سابقہ حکومت کے خلاف بلکہ حکومتوں کے خلاف عمران خان نے اکیلے احتجاج کیا۔ بے چارہ عمران خان اس مبینہ دھاندلی کے خلاف ملک کے ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک چیختا رہا کہ 2013ء کے الیکشن جعلی ہیں اور دھاندلی کی پیداوار ہیں لیکن عمران خان کی آواز صدا بہ صحرا اس لیے ثابت ہوئی۔

حکمران اس صدائے احتجاج کے دیوانے کی بڑ ثابت کرتے رہے اور ایک حکومت نے جب اس ماحول میں اپنی آئینی مدت کے پانچ سال پورے کیے تو اس کی اس کارگزاری پر تعریف کے پل باندھ دیے گئے اور کہا گیا کہ پاکستان کی تاریخ میں یہ واحد جماعت ہے جس نے پاکستان کی جمہوری تاریخ میں اپنی آئینی مدت پوری کرکے ریکارڈ قائم کیا ہے۔ ستائشوں کے اس پل پر کھڑے ہوکر سابقہ سے سابقہ حکومت نے اپنے پانچ سال ’’پوری ایمانداری‘‘ سے پورے کیے۔

اصولاً اور اخلاقاً اور جمہوری قدروں کے مطابق آج کی اپوزیشن کا یہ فرض تھا کہ حکومت کو اطمینان اور سکون سے اپنے پانچ سال مکمل کرنے دیتی لیکن جیلوں میں بیٹھ کر بھی حکومت کے خلاف سازشیں کی جاتی رہیں۔ ہماری  اپوزیشن ادھار کھائے بیٹھی ہے کہ اس حکومت کو چین سے اپنی پانچ سالہ مدت پوری نہیں کرنے دے گی۔ ایک شہزادے تو کہہ رہے ہیں ’’بس اب بہت ہو چکا، اب میں برداشت نہیں کرسکتا؟ اب میں کچھ کروں گا۔ ‘‘اس قسم کی باتوں سے یہ اندازہ بہرحال ہوتا ہے کہ اپوزیشن اقتدار میں آنے کے لیے کس قدر بے چین ہے۔

اپوزیشن اپنے اوریجنل پلان میں نہ صرف بری طرح ناکام ہوگی بلکہ اسے ایسی زک ہوئی ہے کہ شرمندگی میں آئیں بائیں شائیں بک رہی ہے۔ اپوزیشن نے اربوں کھربوں کے قرض لے کر ملک کو اس مقام پر پہنچا دیا تھا کہ اس کا سنبھلنا مشکل ترین نظر آرہا تھا۔ قرضوں کی ادائیگی ڈالر کے غیر معمولی بڑھتے ہوئے دام آسمان کو چھوتی ہوئی مہنگائی حکومت کو یہ سارے ایسے اعزازات دیے گئے تھے کہ اس کا باقی رہنا سخت مشکل نظر آرہا تھا۔

اسے ہم اتفاق کہیں یا حسن اتفاق کہ چین ترکی اور عرب ملکوں سمیت اپنے دوست ملک پاکستان اور اس کی مخلص قیادت کی مدد کو اس طرح آگے بڑھ کر بکھرتی ہوئی معیشت کو اس طرح سہارا دیا کہ اپوزیشن کی حکومت کو گرانے کی ساری سازشیں دم توڑ گئیں حکومت نا صرف ان کرائسس سے باہر نکل آئی بلکہ تیزی سے معاشی استحکام کی طرف اس طرح بڑھ رہی ہے کہ بے چاری اپوزیشن حیرت سے اس صورت حال کو دیکھ رہی ہے اور کڑھ رہی ہے۔ سابقہ حکومت کے یار غار آج حکومت کے وفادار بنے ہوئے ہیں اور اربوں ڈالر کی مدد کرکے حکومت کو سہارا دے رہے ہیں۔

حکومت کی خوش قسمتی ہے کہ جو ملک پچھلی حکومتوں کے کلوز ترین دوستوں میں شامل تھے وہ نئی حکومت کے قریبی اور مخلص ترین دوستوں کی صف میں شامل ہوگئے اور پاکستان کو سابق حکومت کے کھودے ہوئے کھڈوں سے نکالنے میں اہم کردار ادا کیا۔ یہ صورتحال موجودہ حکومت کے لیے اتنی معاون ثابت ہوئی کہ ملک کے اندر ہی نہیں عالمی سطح پر بھی حکومت کی نیک نامی مسلمہ ہوگئی۔  ظاہر ہے اس کا پورا فائدہ موجودہ حکومت کو ہوا۔ عمران حکومت کے مختصر دور میں عوامی مسائل میں شدید اضافہ ہوا لیکن عمران خان پر عوام کا اعتبار اس قدر پختہ ہوگیا کہ وہ مہنگائی جیسی مشکل صورتحال کو خوش دلی سے برداشت کرتے رہے۔

اس غیر متوقع صورتحال سے اپوزیشن تو چلا اٹھی ،اس کا خیال تھا کہ اس نے قرضوں کی شکل میں جو خوفناک سیلاب نئی حکومت کے لیے چھوڑا ہے، وہ اس میں ڈوب جائے گی لیکن خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ حکومت اب تک آنے والی مشکلات سے بڑی دانائی سے نمٹتی رہی اور آنے والے حالات کے مقابلے کے لیے بھی پوری طرح تیار نظر آرہی ہے۔ یہی وہ اصل مسئلہ ہے جو ہماری اپوزیشن کو بے چین کیے ہوئے ہے اور وہ بوکھلاہٹ میں انٹ شنٹ بیانات دیے جا رہے ہیں۔ اب یہ بات تو ہماری اپوزیشن بھی سمجھ رہی ہے کہ حکومت نے اب اپنے پیر جما لیے ہیں اب اس کو ہٹانا بہت مشکل ہے اب ایک ہی صورت باقی ہے کہ اپوزیشن حکومت کو کام کرنے دے ۔

مسئلہ کسی جماعت کی حمایت یا مخالفت کا نہیں بلکہ اس ملک میں ایک ایسی حکومت کے قیام کا ہے جس کا پہلا اور آخری ہدف عوام کے مسائل کا حل ہو۔ بدقسمتی سے ایک بھی ایسی حکومت نہیں آئی جو اس شرط پر پوری اتر سکے اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ عوام کے مسائل کا ایک مینار لگ گیا۔ ہر آنے والی حکومت نے مسائل میں اضافہ ہی کیا۔ وجہ یہ ہے کہ کسی حکومت کو اپنے طبقاتی کردار کی وجہ یہ توفیق ہی نہیں ہوئی کہ وہ اپنی خصوصی ’’مصروفیات‘‘ کو چھوڑ کر عوام کے مسائل پر توجہ دے ۔

مثال کے طور پر ملک میں ایک عشرے سے بجلی کی سخت قلت ہے ملک بھر کے عوام مسلسل بجلی کی کمی سے پریشان ہیں لیکن پچھلے دس سال میں کسی ایک حکومت کو یہ توفیق نہیں ہوئی کہ وہ بجلی کی شدید قلت سے عوام کو بچائے دنیا کے شاید ہی کسی ملک میں ایسا ہوا ہو کہ 10 سال سے زیادہ عرصے تک عوام بجلی کی قلت کا شکار رہے ہوں اور اس سے عوام کو نجات نہ دلائی جاسکی ہو۔ غالباً خطے کا واحد ملک ہے جہاں اتنے طویل عرصے سے بجلی کی قلت کا سامنا ہو۔ میں جس علاقے میں رہتا ہوں وہ نسبتاً سفید پوش علاقہ کہلاتا ہے اور اس علاقے کے عوام بجلی کے بل بھی پابندی سے ادا کرتے ہیں لیکن کیا آپ یقین کریں گے کہ اس علاقے میں روزانہ دس گھنٹے لوڈ شیڈنگ ہو رہی ہے۔ کیا یہ باعث شرم بات نہیں ہے؟

حکومت کو اقتدار سنبھالے ابھی چھ ماہ ہو رہے ہیں اور زیادہ سنجیدہ مسائل حکومت کے سامنے ہیں لیکن بجلی کے مسئلے کو ترجیح دے کر اس پر تیزی سے کام کیا جانا چاہیے حکومت کو اقتدار سے ہٹانا جب اپوزیشن کی پہلی ترجیح بن جائے تو عوام کے مسائل کے حل پر غور کرنا ایک ناروا فرض بن کر رہ جاتا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا موجودہ حکومت کو اتنا وقت ملا ہے کہ وہ ملک کے اہم مسائل کو حل کرنے کی کوشش کرے لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ حکومت اہم مسائل کو پس پشت ڈال دے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔