کارل مارکس آج بھی صحیح ہے

جمیل مرغز  اتوار 17 مارچ 2019

غریبوں اور محنت کشوں کے سچے ہمدرد کارل مارکس 5 مئی 1818ء کو پیدا ہوئے اور 14 مارچ 1883ء کو جہان فانی سے کوچ کر گئے لیکن اس مختصر زندگی میں انھوں نے دنیا کو ہلا دیا۔ انھوں نے غریبوں کو مال داروں کی دنیا میں اپنا حق حاصل کرنے کا طریقہ بتایا۔

برنی سینڈرز بھی امریکی ترقی پسند سیاستدان ہیں’اب انھوں نے دوبارہ صدارتی انتخابات میں حصہ لینے کا اعلان کیا ہے۔ ان کا سرمایہ دارانہ نظام پر ایک خوبصورت تجزیہ۔

2016ء کے انتخابات میں‘ہیلری کلنٹن سے شکست کھانے والے ‘سوشلسٹ صدارتی امیدوار برنی سینڈرز ‘نے ایک مضمون میں ڈیموکریٹک پارٹی کی شکست پر نظر ڈالی تھی۔ انھوں نے لکھا ’’گزشتہ 30 برس سے بہت سے امریکیوں کو‘ان کی کمپنیوں کے مالکان ‘نہایت سستے داموں بیچ رہے ہیں‘ پھر ان سے سستے معاوضوں والے یہ کام بھی چھین لیے جاتے ہیں‘یہ اپنے کارخانے بند ہوتے دیکھتے ہیں‘اپنی ملازمتوں کو چین اور میکسیکو جاتا ہوا دیکھتے ہیں‘ان کارخانوں کے مالک ’دوسرے ملکوں میں کاروبار کرکے‘تین سو گنا زیادہ منافعے کماتے ہیں۔

ان امریکیوں کے رہائشی ٹاؤن اب ویران ہوچکے ہیں‘ان کے بازاروں کے خوشنما اسٹوروں پر اب تختے لگے ہوئے ہیں ‘ان کے نوجوان بچے بڑے شہروں میں ملازمت کی تلاش میں ‘ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔ کارپوریٹ سرمایہ دار‘ دھڑادھڑدولت کما کر آف شور بینکوں میں جمع کرا رہے ہیں‘ یہ چالاک لوگ اپنے ملک کی منڈی میں مال بھی بیچتے ہیں‘ ان میں سے کئی اپنے گھروں کی مارٹ گیج اور کرایہ بھی ادا نہیں کرسکتے‘ان کے بینک اکاؤنٹ خالی ہیں ایسے میں منشیات فروشی نے خودکشیوں کی تعداد میں  اضافہ کردیا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے تارکین وطن کی مخالفت کی، یہ ہے امریکا کا حال جو تمام دنیا کے وسائل ہڑپ کر رہا ہے ‘یہ امریکا کا نہیں بلکہ سر ما یہ داری نظام کا بحران ہے۔

چند سال قبل ‘نیویارک کے تھنک ٹینک ”Left Forum”  میں ایک سیمینار ہوا ‘اس میں کرائسٹ ہیجز ‘ رچرڈ وولف اور گیل ڈائنز جیسے ماہرین نے اس کارل مارکس کے نظریات سے یہ ثابت کیا کہ‘ انھوں نے یہ پیشگوئی کی تھی کہ سرمایہ داری نظام کو ایک دن ختم ہونا ہے اور اس کی جگہ نیا نظام لازمی طور پر آئے گا‘ سرمایہ داری نظام کمزوریوں کے باعث اپنے اندر ہی تباہی کے بیج پیدا کرتا ہے‘‘وہ طبقہ جس کے قبضے میں مادی ذرایع پیداوار ہوں ‘ان کا ذہنی پیداوار کے ذرایع پر بھی قبضہ ہوتا ہے ‘‘ ایک طبقہ حکمران اور دوسرا محکوم بنتا ہے۔ ’’ان کو نظر آرہا تھا کہ سرمایہ داری نظام اپنی تمام صلاحیتیں ختم کرکے ختم ہو جائے گا‘لیکن ان کو یہ معلوم نہیں تھا کہ وہ دن کب آئے گا‘‘۔

مغند ڈیسائی کے مطابق ’’کارل مارکس تاریخ کا خلاء نورد تھا ‘وہ ٹھوس حقیقتوں کی بنیاد پر تجزیہ کرتا‘‘۔ کارل مارکس کو بلا شبہ سرمایہ داری نظام کا سب سے اہم‘ بہترین اور مستقبل بین ناقد قرار دیا جا سکتا ہے۔

“The Contribution to the Critique of Political Economy” کے دیباچے میں مارکس لکھتا ہے کہ ’’اس وقت تک کوئی نظام ختم نہیں ہوتاجب تک اس کی تمام پیداواری قوتیں اپنی آخری گنجائش کی حد تک ترقی نہ کرلیں‘ اس لیے انسان صرف وہ کام کرنے کا ارادہ کرتا ہے جس کو وہ کرسکتا ہے‘اسی لیے تو کہتے ہیں کہ ’’ضرورت ایجاد کی ماں ہوتی ہے‘‘۔ اب ہم کہہ سکتے ہیں کہ اس امر سے اختلاف نہیں کیا جا سکتا کہ سرمایہ داری کا خاتمہ قریب ہے‘ لیکن یہ کب ہوگا اس کا تعین کوئی احمق ہی یقین کے ساتھ کرے گا‘دنیا کو سرمایہ داری نظام کے خاتمے کے لیے تیار رہنا ہوگا اور اس کے لیے مارکس کا مطالعہ کرنا ضروری ہے۔

مارکس نے لکھا کہ ’’سرمایہ داری کی آخری منزلوں میں وہ تمام واقعات اور نشانیاں رونما ہوں گے جن سے ہم سب واقف ہیں‘اس نظام میں پھیلاؤ کی صلاحیت ختم ہو جائے گی اور منافعے کی سابقہ مقدار برقرار نہیں رہے گی‘ سرمایہ داری نظام کو جن قوتوں سے تقویت ملتی ہے‘انھی کو وہ ختم کرنا شروع کردے گا‘ بچت اور سادگی کے نام پر یہ غریبوں اور محنت کشوں کے مراعات چھینے گا‘ان کو مزید قرضوں اور غربت کے دلدل میں ڈبوئے گا‘عوام مزید غربت اور قرض میں دھنس جائیں گے‘ بیروزگاری بڑھ جائے گی‘پیداواری اور پیشہ ورانہ دونوں پوزیشنیں بدل جائیں گی

روزگار ان ملکوں کو شفٹ ہو جائے گا جہاں سستا مزدور دستیاب ہو‘صنعتوں کا زیادہ انحصار مشینی پیداوار پر ہوجائے گا‘یہ اقتصادی حملہ صرف محنت کشوں پر نہیں ہوگا بلکہ یہ حملہ سرمایہ داری نظام کے سب سے بڑے محافظ طبقے یعنی مڈل کلاس پر بھی ہوگا‘سرمایہ داری کی آخری منزل میں سیاست اقتصادی مفادات کے تابع ہو جائے گی‘اس سے سیاسی پارٹیاں اپنے اصلی مقاصد سے ہٹ جائیں گی اور عالمی سرمایہ داری کی تابع اور ان کے مفادات اور ہدایات کے مطابق کام کریں گی ۔

سرمایہ دار اس دوران دولت کے بڑے ذخائر جمع کرلیتا ہے‘ ایک اندازے کے مطابق اس وقت کم ٹیکس والے ملکوں کے بینکوں میں 25کھرب ڈالر سے زیادہ رقم چھپائی گئی ہے‘یہ وہ رقم ہے جو ماتحت اور قرضدار ملکوں سے حاصل کی گئی ہے۔مارکس کے مطابق ’’سرمایہ داری نظام آخر میں ان تمام قدروں اور رواجوں کے ساتھ جن کی حفاظت کا سرمایہ دار وعدہ کرتے ہیں یعنی‘منصفانہ مقابلہ وغیرہ‘ فری مارکیٹ میں تبدیل ہوجائے گا‘یہ نظام اپنے آخری مراحل میں ان تمام اسٹرکچر اور نظام کو لوٹ لے گا ‘جس کی بنیاد پر یہ نظام کھڑا ہے‘یہ نظام عوام کے مسائل میں اضافہ کرے گا اور استحصال کے لیے سخت ظالمانہ اقدامات پر عمل کرے گا‘یہ نظام دیوانوں کی طرح اپنا منافع قائم رکھنے کی کو شش کرے گا‘اس کے لیے وہ ریاست کے اداروں کو لوٹے گا‘اس طرح یہ نظام اپنے قائم کردہ اداروں اور قدروں کو تباہ کردے گا ‘‘۔

مارکس نے وارننگ دی تھی کہ سرمایہ داری کے آخری مرحلوں میں ‘بڑے بڑے ملٹی نیشنل کارپوریشن‘عالمی منڈیوں پر اجارہ داری قائم کرلیں گے۔’’ان کی پیداوار کے لیے مستقل طور پر وسعت پذیر مارکیٹ کی ضرورت کی وجہ سے سرمایہ دار پوری دنیا میں منافع کا تعاقب کرتا ہے‘یہ ہر جگہ قیام کرتا ہے‘ہر جگہ اپنے اڈے بناتا ہے اور ہر جگہ تعلقات قائم کرتا ہے‘‘ ۔

یہ کارپوریشنیں خواہ بینکنگ سیکٹر ‘زراعت اور خوراک کے شعبے‘اسلحہ کے سیکٹر یا مواصلات کی صنعت میں ہوں‘عام طور پر ریاستی ڈھانچے پر قبضہ کرکے اپنی طاقت کے ذریعے ایسے حالات پیدا کرتی ہیں جس کی وجہ سے ان کی اجارہ داری کو چیلنج کرنے والا کوئی نہیں ہوتا‘وہ اپنی مصنوعات کی زیادہ منافعے والی قیمت مقرر کرتی ہیں‘وہ تجارتی معاہدوں کے ذریعے جیسے کہ TPPاور CAFTA ۔کو استعمال کرتے ہوئے‘قومی ریاست کو کمزور کردیتی ہیں تاکہ وہ استحصال کو روکنے کے قابل نہ رہیں‘اس مقصد کے لیے یہ لوگ مختلف حربے استعمال کرتے رہے ہیں اور اب بھی کرتے ہیں‘ جیسے کہ ماحولیاتی ضابطوں کا استعمال یا کام کے حالات کار‘اور آخر میں یہ کارپوریشنیں ان حربوں کے ذریعے فری مارکیٹ کے تصور اور مقابلے کی فضاء کی دھجیاں اڑا دیتی ہیں۔

آج سرمایہ داری نظام نے اپنی تمام قدریں ختم کردی ہیں‘آزادی‘جمہوریت‘انصاف‘سیکولرازم ‘تجارت میں مقابلہ اور قومی آزادی جیسے نعروں اور اصولوں پر سرمایہ داری کی بنیاد رکھی گئی تھی ‘غریب اور پسماندہ ملکوں کی آزادی اور قومی خود مختاری کو جس طرح روندا جا رہا ہے‘اس کی مثالیں ویٹ نام‘ عراق‘ شام اور لاطینی امریکا کے ممالک ہیں‘جمہوریت کا جنازہ توہم پاکستانی کئی دفعہ اپنے کندھوں پر اٹھا چکے ہیں‘ کیونکہ ہر فوجی آمریت کی حمایت سرمایہ دار ممالک کرتے رہے ہیں‘سیکولرازم کے علمبردار سرمایہ داری نے مذہبی انتہا پسندی اور دہشتگردی کو اپنے مفادات کے لیے استعمال کرکے دنیا کو عذاب میں مبتلا کردیا ہے ‘تجارت میں منصفانہ مقابلے کو ختم کرکے اجارہ داریاں قائم کردی گئیں‘اسی لیے تو مارکس نے بالکل ٹھیک کہا تھا کہ سرمایہ داری‘ جب خاتمے کے قریب پہنچے گی تو ان تمام قدروں اور بنیادوں کو ختم کردے گی جن پر اس کا ڈھانچہ ایستادہ ہے۔آج امریکا اور سرمایہ داری کو نسلی قوم پرستی اور ٹرمپ کی شکل میں ایک اور بحران کا سامنا ہے ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔