بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلانا چاہتا ہوں

اقبال خورشید / اشرف میمن  بدھ 7 اگست 2013
ہمارے پیشے میں ایمان دار آدمی کم اور فراڈیے زیادہ ہیں،امید پرست محنت کش، موٹر میکینک،  ملک عمران سے بات چیت ۔ فوٹو : فائل

ہمارے پیشے میں ایمان دار آدمی کم اور فراڈیے زیادہ ہیں،امید پرست محنت کش، موٹر میکینک، ملک عمران سے بات چیت ۔ فوٹو : فائل

 آج جب منہگائی آسمان کو چھو رہی ہے، مخدوش حالات نے جینا دوبھر کر دیا ہے، ہر شخص حالات کا رونا رو رہا ہے، ایک ایسا محنت کش بھی ہے، جو سپر ڈالنے کے بجائے، خدا کی ذات پر کامل یقین کے سہارے اپنا سفر جاری رکھے ہوئے ہے!

یہ امید پرست موٹر میکینک، ملک عمران کی کہانی ہے، جس کی زندگی میں کئی اتار چڑھاؤ آئے۔ کبھی قرضوں کا بوجھ بڑھا، تو کبھی حالات کی خرابی نے کاروبار سمیٹنے پر مجبور کر دیا، مگر وہ مسکرانے کا ہنر نہیں بھولا۔
عمران پچیس برس سے اِس میدان میں ہیں۔ تین ہٹی کے علاقے میں اُن کی دکان ہے، مگر خود کو دکان تک محدود نہیں رکھتے۔ ’’آؤٹ ڈور‘‘ کام زیادہ ہوتا ہے۔ لوگ فون کر دیتے ہیں، اور عمران مقررہ وقت پر ساز وسامان سے لیس انجن کی الجھن سلجھانے پہنچ جاتے ہیں۔ ’’آؤٹ ڈور‘‘ کام کرنے کا سبب یوں بیان کرتے ہیں،’’نئی نئی گاڑیاں ہوتی ہیں۔ ہڑتالوں کے دنوں میں کاروبار ٹھپ ہو جاتا ہے۔ ایسے میں ’آؤٹ ڈور‘ کام سے گزربسر کی صورت نکل آتی ہے۔ حالات کا تو آپ کو اندازہ ہے۔ اگر ورک شاپ پر کھڑی گاڑی کو نقصان پہنچے، شیشہ وغیرہ ٹوٹ جائے، تو ہمارے لیے پریشانی ہو گی۔ اِس لیے گھروں ہی پر جا کر کام کر دیتے ہیں۔‘‘

عمران یقین رکھتے ہیں کہ اگر گاہک اور میکینک کے درمیان اعتماد کی فضا نہ ہو، تو بات نہیں بنتی۔ ’’یہ اعتبار ہی تو ہے کہ وہ ہمارے پاس گاڑی چھوڑ کر چلے جاتے ہیں۔‘‘ یہ بات بھی تسلیم کرتے ہیں کہ اُن کے پیشے میں ایمان دار آدمی کم اور فراڈیے زیادہ ہیں۔ اِسی وجہ سے لوگ نئی ورک شاپ کا رخ کرتے ہوئے گھبراتے ہیں۔ عمران کے مطابق بے ایمان میکینک ہر پہلو سے گھاٹے میں رہتا ہے۔ ’’لوگ اعتبار نہیں کرتے۔ وہ میکینک بدل لیتے ہیں۔ دنیا بھی خراب ہوتی ہے، اور آخرت میں بھی پکڑ ہوتی ہے۔‘‘ اوقات کار زیر بحث آئے، تو بتانے لگے،’’گھر سے نکلنے کا تو وقت متعین ہے، مگر گھر لوٹنے کا کوئی وقت نہیں۔‘‘ کبھی کبھار رات گئے تک اپنے کام سے فرصت نہیں ملتی۔

حالاتِ زندگی کی تفصیلات کچھ یوں ہیں کہ ملک عمران نے 1978 میں کراچی کے نیم متوسط علاقے بجلی نگر میں آنکھ کھولی۔ اُن کے والد، قمرالدین ’’ڈینٹر‘‘ ہیں، جنھوں نے زندگی کا بڑا حصہ سعودی عرب میں گزارا۔ پاکستان لوٹنے کے بعد لسبیلہ کے علاقے میں دکان کر لی۔ ایک بہن، پانچ بھائیوں میں عمران بڑے ہیں۔ بچپن میں وہ خاصے شرارتی ہوا کرتے تھے۔ والد کے لاڈلے تھے۔ ہنستے ہوئے کہتے ہیں، ’’جب وہ صبح کام پر جانے کے لیے گھر سے نکلتے، تو میں ضد کرنے لگتا کہ میں بھی ساتھ جاؤں گا۔ وہ بہت پیار کرتے تھے مجھ سے۔ میری ہر خواہش اُنھوں نے پوری کی۔‘‘ کھیلوں سے دور ہی رہے۔ دوستوں کا حلقہ اس زمانے میں تو وسیع تھا، مگر وقت کے ساتھ وہ سکڑتا گیا۔ طالب علم وہ اوسط درجے کے تھے۔ آٹھویں تک تعلیم حاصل کرسکے، پھر عملی زندگی میں قدم رکھ دیا۔ گو والد کی خواہش تھی کہ وہ مزید تعلیم حاصل کریں، مگر میکینک بننے کی خواہش، ہر خواہش پر غالب آگئی۔

ماضی کھنگالتے ہوئے عمران اُس زمانے میں پہنچ جاتے ہیں، جب وہ ساتویں جماعت میں تھے۔ ’’اسکول کی چھٹیاں تھیں۔ ہمارے تایا کا گیراج تھا۔ میں نے چھٹیوں میں دو ماہ وہاں کام کیا۔ بس، اُن دو مہینوں نے میری زندگی بدل دی۔ سب چھوڑ کر اس کام میں لگ گیا۔‘‘ اِس فیصلے پر خاصی ڈانٹ پڑی، مگر ان کا شوق دیکھتے ہوئے گھر والوں نے اجازت دے دی۔ نو برس اُس ورک شاپ پر بیتے۔ تربیت کے دنوں کو یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں،’’نئے آنے والے کو پہلے چائے لانے، اوزار اکٹھے کرنے اور صفائی وغیرہ کے کاموں کی ذمے داری دی جاتی ہے۔ باقی معاملہ آپ کی قابلیت اور دل چسپی کا ہوتا ہے۔ آپ اپنے استاد کو دیکھ دیکھ کر سیکھتے ہیں۔ کیوں کہ مجھے دل چسپی تھی، اِس لیے بہت تیزی سے سیکھ گیا۔‘‘ اِس دوران ڈانٹ بھی پڑی۔ غلطی ہوئی، تو تھپڑ بھی رسید ہوگیا، مگر عمران اِسے تربیتی عمل کا جزو قرار دیتے ہیں کہ انسان حالات کی بھٹی سے گزر کر سونا بنتا ہے۔

شاید حالات واقعی ان کا امتحان لینا چاہتے تھے۔ والد پر خاصا قرض چڑھ گیا تھا، جسے اتارنے کے لیے اُنھوں نے تایا کی ورک شاپ سے الگ ہو کر اورنگی ٹاؤن میں اپنی دکان کر لی۔ پہلے روز جب گھر لوٹے، جیب میں پانچ سو روپے تھے۔ یہ ایک اچھا آغاز تھا، مگر حالات کی کٹھنائیوں سے مقابلے کے لیے ناکافی۔ ایسے لمحات بھی آئے، جب پورے دن ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہے، خالی ہاتھ گھر لوٹے، مگر کبھی مایوس نہیں ہوئے کہ اﷲ کی ذات پر کامل یقین ہے۔ اسی زمانے میں دکان بند کرنے کے بعد شام میں ٹیکسی چلانے کا سلسلہ شروع کیا۔ چھوٹا بھائی، ملک عرفان بھی ان سے نتھی ہوگیا تھا، جس نے والد ہی سے ’’ڈینٹنگ‘‘ کا کام سیکھا تھا۔ محنتی آدمی ہیں، قسمت نے بھی ساتھ دیا۔ دھیرے دھیرے کاروبار جم گیا۔ اچھی آمدنی ہونے لگی، تو ٹیکسی چلانی چھوڑ دی۔

دس برس انھوں نے اورنگی میں کام کیا، مگر پھر حالات بگڑنے لگے، جنھوں نے کاروبار پر براہ راست اثر ڈالا۔ بالآخر حالات کے جبر نے کاروبار سمیٹنے پر مجبور کر دیا۔ کچھ قرض لیا۔ تین ہٹی کے علاقے کا رخ کیا۔ وہاں دکان خریدی۔ نئی جگہ پر قدم جمانے میں یوں دقت پیش نہیں آئی کہ بیش گاہک مستقل نوعیت کے ہیں۔ اِس دکان کو اب پانچ برس ہونے کو ہیں۔ عمران کے بہ قول، دکان خریدتے ہوئے جو قرض لیا تھا، اُسے ایک برس میں چُکانا تھا، مگر دن رات محنت کر کے فقط آٹھ ماہ میں قرض اتار دیا۔

سفر زندگی کے بعد پیشہ ورانہ پیچیدگیوں پر بات چل نکلی۔ عمران کے مطابق یوں تو انجن میں کئی طرح کی خرابیاں چھپی ہوتی ہیں، لیکن بیش تر مسائل ’’پوائنٹ‘‘ اور ’’پلگ‘‘ کی خرابی کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں۔ ’’ٹیونگ‘‘ سے متعلق رائے کچھ یوں ہے۔ ’’بہ ظاہر یہ چھوٹا کام ہے، لیکن گاڑی کی کارکردگی کا دارومدار اسی پر ہے۔ اگر یہ کام ٹھیک سے کیا جائے، تو گاڑی پریشان نہیں کرتی۔‘‘ نئی آٹومیٹک گاڑیوں کی بابت کہتے ہیں کہ چھوٹا موٹا مسئلہ تو بہ آسانی حل ہو جاتا ہے، مگر زیادہ مسئلہ ہو، تو گاڑی کی اسکینگ ہوتی ہے۔ ’’عام طور سے ایسی گاڑیوں میں میکینک سے زیادہ الیکٹریشن کا کام نکلتا ہے۔‘‘

گو منہگائی بڑھ رہی ہے، مگر عمران کے بہ قول اُن کے کام پر زیادہ فرق نہیں پڑا کہ منہگائی کے ساتھ گاڑیوں کی تعداد بھی بڑھی ہے۔ پھر مستقل گاہک ہیں، جو ان پر اعتبار کرتے ہیں، اور وہ بھی ان کے اعتماد پر پورا اترنے کی کوشش کرتے ہیں۔

دیگر شہریوں کے مانند کراچی کے بگڑتے حالات اُنھیں بھی مضطرب رکھتے ہیں۔ پریشان کن اطلاعات آتے ہی کام سمیٹنا پڑتا ہے۔ اگر کسی کی گاڑی ان کے پاس ہو، تو اسے دکان کے اندر کھڑی کرکے ’’شٹر‘‘ گرا دیتے ہیں، اور کام جاری رکھتے ہیں۔ ایک آدھ بار ایسا بھی ہوا کہ سب چھوڑ چھاڑ کر بھاگنا پڑا۔ عمران کے مطابق ان کا زیادہ کام ’’آؤٹ ڈور‘‘ ہے۔ جب حالات خراب ہوں، اور وہ گھر سے دُور ہوں، تو خوف محسوس ہوتا ہے۔ ’’مگر مجبوری ہے۔ کراچی میں رہنا ہے، تو اِس کی عادت ڈالنی پڑے گی۔‘‘

کیا اس کام سے اتنی آمدنی ہوجاتی ہے کہ گزارہ ہوسکے؟ اِس سوال کے جواب میں عمران اﷲ تعالیٰ کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔ ’’مشکلات تو زندگی میں آتی ہیں، مگر اﷲ نے مجھے بہت نوازا۔ ہر مشکل سے نکالا۔‘‘ تقدیر پر وہ پورا یقین رکھتے ہیں۔ اُن کے مطابق کئی باصلاحیت کاری گر آج مسائل کا شکار نظر آتے ہیں کہ قسمت اُن کا ساتھ نہیں دیتی۔ ’’محنت کی عظمت سے انکار نہیں، لیکن اصل معاملہ قسمت کا ہے۔ جتنا انسان کی قسمت میں ہوگا، اُسے اتنا ہی ملے گا۔‘‘

نو برس قبل شادی ہوئی۔ خدا نے دو بیٹوں سے نوازا۔ اولاد کو اِس کام میں نہیں لانا چاہتے۔ خواہش ہے کہ بچے اعلیٰ تعلیم حاصل کریں، اور کاروبار میں آنے کے بجائے نئے شعبوں میں قسمت آزمائیں۔ ’’میری تو خواہش ہے کہ وہ نیوی میں جائیں۔ نیت تو کر لی ہے، آگے اﷲ پاک کی مرضی!‘‘ اپنے پیشہ ورانہ ساتھیوں کو بھی یہی مشورہ دیتے ہیں کہ وہ اپنے بچوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کریں۔ بچوں سے دوستانہ روابط رہے۔ اصلاح کی غرض سے سختی بھی برتتے ہیں۔ گھر والے وقت نہ دینے کی اکثر شکایت کرتے ہیں، مگر وہ بھی کیا کریں، کام ہی اس نوعیت کا ہے۔

اِس محنت کش کی خواہشات زیر بحث آئیں، تو پتا چلا کہ عمران اوائل عمری میں جج کی سعادت حاصل کر چکے ہیں۔ اب ایک اور حج کرنے کی آرزو ہے۔ فی الحال مشترکہ خاندانی نظام کا حصہ ہیں۔ مستقبل میں اپنا گھر بنانے کی خواہش ہے۔

رمضان آتے ہیں، تو اوقات کار تبدیل ہوجاتے ہیں، مگر کام کی نوعیت نہیں بدلتی۔ مسکراتے ہوئے کہتے ہیں، رمضان آتے ہی رزق میں برکت ہوجاتی ہے۔ ’’عام مہینوں کے برعکس زیادہ آمدنی ہوتی ہے۔ اِس رمضان میں بھی یہی معاملہ ہے۔‘‘ اگر موسم اچھا ہو، تو بہ قول عمران، روزے کی حالت میں محنت کا لطف ہی کچھ اور ہے۔ البتہ گرمیوں میں تھوڑی پریشانی ہوتی ہے۔

مزدور طبقے سے تعلق رکھنے والے اس شخص کو سیاست میں دل چسپی نہیں۔ کبھی ووٹ نہیں ڈالا۔ بس، خواہش ہے کہ جو حکم راں آئے، وہ عوام کے مسائل حل کرنے کے لیے سنجیدہ اقدامات کرے۔

عمران شلوار قمیص میں خود کو آرام دہ پاتے ہیں۔ کبھی پینٹ شرٹ نہیں پہنی۔ کھانے میں کوئی خاص پسند نہیں۔ معتدل موسم پسند ہے۔ برسات سے خوب لطف اندوز ہوتے ہیں۔ ’’کام تو پوری زندگی چلتا رہے گا، مگر بارش تو کبھی کبھار ہوتی ہے۔‘‘ وہ گاڑیوں کے مالکان کو مشورہ دیتے ہیں کہ بارش کے موسم میں پلگ اور دیگر حصوں پر ’’گریس‘‘ لگا لیں، تاکہ پانی اندر نہ جائے۔ اخبارات کم ہی پڑھتے ہیں۔ ٹی وی دیکھتے ہوئے توجہ نیوز چینلز پر مرکوز رہتی ہے۔ فلموں میں دل چسپی نہیں۔ ہاں، اچھی گائیکی بھاتی ہے۔ کاروبار پیشہ افراد شکایت کرتے ہیں کہ اُنھیں بھتے کی پرچیاں ملتی ہیں، مگر عمران کے بہ قول، وہ کبھی ایسے تجربے سے نہیں گزرے۔

اﷲ پاک نے بہت نوازا!
جہاں ہر دوسرا آدمی حالات کے جبر کا گریہ کرتا نظر آتا ہے، وہیں نیم متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے اِس شخص کے چہرے پر روشن مسکراہٹ دکھائی دیتی ہے، جو اﷲ کی ذات پر کامل یقین کی نشانی ہے۔

وہ خود کو خوش قسمت گردانتے ہیں۔ ’’یہ اﷲ پاک کا احسان ہے۔ جتنا مانگا، اس سے بڑھ کر مالک نے مجھے دیا۔‘‘ اس ضمن میں ایک واقعہ بھی سناتے ہیں،’’میں ایک چھوٹی گاڑی خریدنا چاہتا تھا۔ ڈیڑھ لاکھ روپے تھے میرے پاس۔ ان ہی دنوں ایک ’کسٹمر‘ کی گاڑی کا انجن ’سیز‘ ہوگیا۔ نہ جانے کیوں، اُس گاڑی پر میرا دل آگیا۔ میں نے انھیں پیش کش کی کہ گاڑی مجھے بیچ دیں۔

دو لاکھ کی آفر کر دی، مگر انھوں نے انکار کردیا۔ گاڑی میں ورک شاپ لے آیا۔ رات بھر اﷲ سے دعا کرتا رہا۔ جیسے ایک بچہ کسی کھلونے کی ضد کرتا ہے، ویسے ضد کی۔ عجیب اتفاق ہے کہ صبح جب ان صاحب کو فون کیا، تو انھوں نے کہا؛ پیسے لے کر آؤ، اور گاڑی کے کاغذات لے جاؤ۔‘‘ آج اُن کے پاس وہ ہی گاڑی ہے، اور بہ قول عمران، وہ اُنھیں راس آگئی ہے۔ ’’اُسے متعدد بار ’رینٹ‘ پر دیا۔ خود کئی پارٹیوں کو بیرون شہر لے کر گیا۔ جو رقم اس پر خرچ کی تھی، اُس سے دگنی تو وصول کر چکا ہوں۔‘‘

واقعہ، جس نے زندگی بدل دی
یہ اُس زمانے کی بات ہے، جب قرضے کے بوجھ سے کمر ٹوٹنے لگی تھی۔ یاسیت گہری ہونے لگی۔ ایک روز بس میں سفر کر رہے تھے۔ جمعہ کا دن تھا وہ۔ جیب میں فقط دس روپے تھے۔ راستے میں ایک ضعیف شخص کو اپنی گاڑی کو دھکا لگاتے دیکھا۔ خواتین بھی گاڑی میں بیٹھی تھیں۔

نہ جانے کیا سوچ کر عمران بس سے اتر گئے۔ پہلے دھکا لگا کر گاڑی سڑک کے کنارے لگائی۔ کچھ دیر بعد انجن بھی اُن کے اشاروں کا جواب دینے لگا۔ اُن صاحب نے خوش ہو کر سو روپے انعام میں دیے۔ دکان کا پتا پوچھا۔

چند روز بعد وہ صاحب اُن کی ورک شاپ پہنچ گئے۔ کچھ ہفتوں بعد اُنھوں نے عمران کو گاڑیوں کی خریدو فروخت کے کاروبار میں آنے کی پیش کش کر دی۔ ’’اُنھوں نے کہا، سرمایہ میں لگاؤں گا، نفع نقصان میں دونوں کا برابر حصہ۔ میں نے والد سے بات کی۔ اﷲ کا نام لے کر یہ کام شروع کیا۔ تین برس میں سارا قرض اتر گیا۔ سچ تو یہ ہے کہ اس واقعے نے میری زندگی بدل دی۔‘‘

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔