وسائل کی کمی کے باوجود لیاری کے کھلاڑیوں نے صلاحیتوں کا لوہا منوایا

کاشف حسین  پير 18 مارچ 2019
مقبول احمد جمعہ نے عالمی سطح پرپاکستان کا نام روشن کیا، خلیجی ممالک میں 25سال تک ورلڈ کلاس کوچنگ کے فرائض انجام دیے

مقبول احمد جمعہ نے عالمی سطح پرپاکستان کا نام روشن کیا، خلیجی ممالک میں 25سال تک ورلڈ کلاس کوچنگ کے فرائض انجام دیے

 کراچی: فٹ بال کے کھیل سے عشق لیاری کے نوجوانوں کے خون میں شامل ہے۔ بندرگاہ سے متصل محنت کشوں کی اس قدیم بستی سے فٹ بال کے کئی نامور کھلاڑی پیدا ہوئے جنھوں نے غربت اور وسائل کی کمی کے باوجود اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا، ان میں سے کئی نامور کھلاڑی مختلف نجی اور سرکاری ٹیموں کا حصہ بنے اور متعدد نے خلیجی ریاستوں کی قومی ٹیموں میں جگہ بنانے میں کامیابی حاصل کی،  لیاری شابک لائن کے رہائشی 58سالہ مقبول احمد جمعہ کا شمار بھی ایسے ہی باصلاحیت فٹ بالرز میں ہوتا ہے۔

جنھوں نے عالمی سطح پر پاکستان کا نام روشن کیا اور خلیجی ریاستوں میں 25سال تک کوچنگ کے فرائض انجام دینے کے بعد اب پاکستان میں فٹ بال کی پروفیشنل کوچنگ کررہے ہیں مقبول احمد پاکستان کے واحد کوچ ہیں جنھیں پروفیشنل لیگز کی کوچنگ کا اعزاز حاصل ہے، مقبول احمد نے 1974سے کلب کی سطح پر فٹ بال کھیلنے کا آغاز کیا اس زمانے میں لیاری امن و آشتی کا محور تھا کچھی، بلوچ، سندھی، پٹھان اور میمن نوجوان مختلف کھیلوں کی وجہ سے گہری دوستی کے رشتے میں بندھے ہوئے تھے بلا روک ٹوک ایک دوسری کے محلوں میں آنا جانا اور  میل جول عام تھا، لیاری کے مشہور میدان ککری گراؤنڈ، گبول پارک، عثمان پارک اور پیپلز پارک صبح سے لے کر رات گئے تک آباد رہتے تھے۔

لیاری کے محنت کش نوجوان دن میں محنت مزدوری کرتے اور رات کے وقت فٹ بال کی پریکٹس کرتے، مقبول احمد کہتے ہیں کہ اس زمانے میں سیاست نے لوگوں کے ذہن خراب نہیں کیے تھے لسانی تعصب نہیں تھا اور نہ ہی ذات پات کا کوئی فرق تھا اسپورٹس کی سرگرمیوں نے لیاری کے نوجوانوں کو مساوات کا درس دیا تھا سب برابری کا درجہ رکھتے تھے، مقبول احمد کے مطابق لیاری میں یوں تو دیگر تمام کھیلوں کا بے پناہ ٹیلنٹ موجود ہے تاہم فٹ بال لیاری کے نوجوانوں کے خون میں شامل ہے۔

اس کی کچھ بنیادی وجوہات ہیں پہلی وجہ غربت اور وسائل کی کمی ہے فٹ بال کھیلنے کے لیے زیادہ سازوسامان کی ضرورت نہیں ایک فٹ بال سے درجنوں کھلاڑی اور کئی ٹیمیں مستفید ہوسکتی ہیں دوسری وجہ لیاری کے علاقے اور اطراف میں میدان اور خالی اراضیاں کافی تھیں سڑکیں اور گلیاں بھی کشادہ تھیں جہاں چھوٹی عمر سے ہی فٹ بال کا کھیل شروع ہوجاتا تھا،  لیاری میں تعلیم کا رجحان شروع سے کم رہا تاہم یہ کمی فٹ بال کے کھیل میں کہیں آڑے نہیں آتی تھی، لیاری کے نوجوان محنت کش گھرانوں سے تعلق رکھتے تھے اور ان کی جسمانی فٹنس اور اسٹیمنا بھی بہتر ہوتا تھا اسی لیے فٹ بال ان کے لیے ایک آئیڈیل کھیل ثابت ہوا۔

فٹ بال کوماضی میں سرکاری و نجی اداروںکی سرپرستی حاصل تھی

مقبول احمد جمعہ نے 1974میں مقامی کلب سے فٹ بال کا آغاز کیا ان کے والد پیٹرولیم کمپنی میں کرین آپریٹر تھے 5 بھائیوں اور 4 بہنوں پر مشتمل گھرانا لیاری کے روایتی گھرانوں جیسا تھا تاہم والد کی پکی نوکری کی وجہ سے روزگار کی اتنی فکر نہ تھی، مقبول احمد کے ساتھ کے کھلاڑیوں میں کیپٹن اقبال، لطفی، صالح محمد، فضل ملا، محمد علی، فتح محمد، رحمٰن بھائی شامل ہیں جنھوں نے مختلف نجی اور سرکاری اداروں اور بینکوں کی ٹیموں سے کھیل کر ملکی سطح پر نام کمایا، مقبول احمد کے مطابق اس زمانے میں فٹ بال کو سرکاری اداروں اور نجی شعبہ کی سرپرستی حاصل تھی نوجوانوں کو امید ہوتی تھی کہ اچھا کھیل کر کھیل کی بنیاد پر ملازمت مل سکتی ہے جس سے گھر کے حالات بدل سکتے ہیں۔

اس لیے وہ مایوس نہیں ہوتے تھے اور پوری توجہ کھیل اور تربیت پر مرکوز رکھتے تھے، فٹ بال کا اب بھی بے حد ٹیلنٹ موجود ہے تاہم سرکاری سطح پر اس کھیل کی سرپرستی نہیں کی گئی اور ٹیلنٹ کو آگے بڑھنے کے مواقع مہیا نہیں کیے گئے، مقبول احمد کو 1976میں فرسٹ قائد اعظم انٹرنیشنل ٹورنامنٹ کھیلنے کا موقع ملا جس میں چین، اور افغانستان کی ٹیموں کے علاوہ پاکستان کی اے اور بی ٹیموں نے حصہ لیا، اس ٹورنامنٹ میں اچھی کارکردگی کی بنیاد پر انھیں 16سال کی عمر میں مسقط کے روہی کلب سے کھیلنے کا موقع ملا جس میں موسیٰ لاشاری نے ان کی مدد کی جو اس وقت کے پی ٹی سے فٹ بال کھیلتے تھے ، مقبول احمدنے 35 سال کی عمر میں کوچنگ کا آغاز کیا۔

فٹ بال کی کوچنگ دنیا بھر میں ایک بہترین کیریئر ہے
مقبول احمد کہتے ہیں کہ فٹ بال کی کوچنگ دنیا بھر میں ایک بہترین کریئر ہے تاہم اس کے لیے کھیل کو سمجھنے کے ساتھ کھلاڑیوں کی صلاحیتوں کمزوریوں اور کھیل کی جدید تکنیک سے آگاہی ضروری ہے، انھوں نے بتایا کہ پاکستان میں فیفا لیول کے متعدد کوچز موجود ہیں تاہم پاکستان میں کوچنگ کا معاوضہ زیادہ سے زیادہ 70 سے 80 ہزار روپے ماہوار ملتا ہے اس کے برعکس خلیجی ریاستوں میں 7سے 8 لاکھ روپے ماہوار جبکہ ہر میچ کے لیے الگ سے 20 ہزار سے 50 ہزار روپے ملتے ہیں ٹورنامنٹ میں ٹیم کی اچھی کارکردگی پر کوچز کو بھی خطیر انعامات سے نوازا جاتا ہے۔

پاکستان میں فٹ بال کا مستقبل زیادہ پرامید نہیں، مقبول جمعہ

مقبول احمد کے مطابق پاکستان میں فٹ بال کا ٹیلنٹ ضایع ہورہا ہے اور وہ ایک ماہر کوچ کی حیثیت سے پاکستان میں فٹ بال کے مستقبل سے زیادہ پر امید نہیںہیں پاکستان بالخصوص کراچی میں فٹ بال کے میدانوں میں گھاس کا نام ونشان نہیں دھول مٹی میں فٹ بال کھیلنے سے کھلاڑی پھیپڑوں اور سانس کے امراض میں مبتلا ہورہے ہیں اور جسمانی عارضوں کا بھی سامنا ہے، بے روزگاری اور وسائل کی کمی کا شکار کھلاڑی غذائی کمی کا شکار ہیں، نوجوانوں کی فکری تربیت کا بھی فقدان ہے مقبول احمد کے مطابق فٹ بال کے کھلاڑی کے لیے 4 گھنٹے یومیہ تربیت ضروری ہے۔

صبح سویرے 2 گھنٹے فٹنس اور شام میں 2 گھنٹے تکنیک کو بہتر بنانے کے لیے پریکٹس کی جاتی ہے اور ان کی تربیت پر اثر پڑتا ہے۔ مقبول احمد کے مطابق دراصل فٹ بال کا کھیل دماغ اور پیروں کے درمیان بہترین تال میل کا نام ہے ایسا تب ہی ہوگا جب کھلاڑی فکر معاش اور گھریلو پریشانیوں سے آزاد ہوگا، مقبول احمد کہتے ہیں کہ کوچ کی حیثیت باپ جیسی ہوتی ہے اور اچھے کھلاڑی اپنے کوچ سے قلبی تعلق رکھتے ہیں ٹیم کی اچھی کارکردگی پر کوچ سے زیادہ خوشی کسی کو نہیں ہوتی اور کھلاڑیوں کی غلطیوں پر دکھ اور افسوس بھی کوچ کو سب سے زیادہ ہوتا ہے۔

فٹ بال کا کھیل اور تکنیک اب تبدیل ہوچکی ہے تاہم پاکستان بالخصوص فٹ بال کی صلاحیتوں سے مالا مال لیاری کے نوجوان اس تکنیک سے لاعلم اور برسوں پرانے انداز میں فٹ بال کھیل رہے ہیں لیکن ان کے جوش اور شوق کو جدید تکنیک سے ہم آہنگ کرکے بہترین نتائج حاصل کیے جاسکتے ہیں۔مقبول احمدنے بطور گول کیپر فٹ بال کھیلی اور گول کیپر کو سب سے اہم کھلاڑی قرار دیتے ہیں مقبول احمد کے مطابق گول کیپر نصف ٹیم کے برابر ہوتا ہے اچھے گول کیپر کے لیے دماغی اور جسمانی طور پر عام کھلاڑیوںسے زیادہ چست ہونا ضروری ہے اس کے جس میں لچک پیروں کا موثر استعمال اور پھرتی گول کیپر کو کامیاب بناتی ہے ساتھ ہی اس کا قد و قامت بھی بلند ہونی ضروری ہے تاکہ گول پوسٹ کا موثر انداز میں دفاع کرسکے۔

مقبول جمعہ کے شاگرد سرکاری اورنجی اداروں کی ٹیموں میں شامل ہیں
عمان میں مقبول احمد سے تربیت لینے والے علی ایذی2010 سے 2012 تک بہترین ایشیائی گول کیپر رہے اور انگلینڈ کی ٹیم سے فٹ بال کھیلی، مقبول احمد 250 کھلاڑیوں کی کوچنگ کرچکے ہیں ان کے شاگردوں میں لگ بھگ دو درجن کے قریب کھلاڑی انٹرنیشنل سطح پر فٹ بال کھیل رہے ہیں جبکہ شاگردوں کی بڑی تعداد پاکستان میں ریلوے، سوئی سدرن گیس، پاکستان نیوی، آرمی، سول ایوی ایشن اتھارٹی اور نجی اداروں کی ٹیموں میں شامل ہیں۔

خلیجی ریاستوں میں ترقی کی بنیادی وجہ نوجوانوں کیلیے فراہم کردہ ماحول ہے
مقبول احمد نے لگ بھگ 40 سال کا عرصہ بیرون ملک فٹ بال کھیلتے اور کوچنگ کرتے گزارا ان کا کہنا ہے کہ خلیجی ریاستوں میں امن اور ترقی کی بنیادی وجہ نوجوانوں کے لیے فراہم کردہ صحت مند ماحول ہے جس کے لیے کھیلوں کی سرگرمیوں کو بنیاد بنایا گیا ہے، خلیجی ریاستوں میں کھیلوں کی سرپرستی شاہی خاندان کررہے ہیں جو دنیا بھر سے ٹیلنٹ کو جمع کرکے مقامی نوجوانوں کی تربیت کرواتے ہیں بلکہ کھلاڑیوں کو بھاری معاوضہ اور سہولتیں فراہم کرکے قومی ٹیموں کا حصہ بناتے ہیں۔

فٹ بال کا ٹیلنٹ اقربا پروری کی بھینٹ چڑھ ہوگیا

مقبول احمد کے مطابق پاکستان میں فٹ بال کا ٹیلنٹ اقربا پروری کی نظر ہورہا ہے فیصلہ ساز شخصیات اصل ٹیلنٹ کو نظر انداز کرتے ہیں کیونکہ ان کے پاس فن ہوتا ہے سفارش نہیں ہوتی فٹ بال کے کھلاڑی غیر تراشیدہ پتھر ہیں جن کو تربیت اور اچھا ماحول فراہم کرکے تراشیدہ قیمتی پتھروں میں تبدیل کیا جاسکتا ہے، مقبول احمد کہتے ہیں کہ وہ 6 ماہ میں قومی سطح کی ٹیم تیار کرسکتے ہیں اور سالانہ 500 کھلاڑیوں کو تیار کرسکتے ہیں اس وقت پاکستان سے 100میں سے 2 خوش نصیب کھلاڑی خلیجی ریاستوں میں جاکر پروفیشنل فٹ بال کھیل رہے ہیں۔

اس تعداد میں خاطر خواہ اضافہ کیا جاسکتا ہے خلیجی ریاستوں، افریقی ممالک کے کھلاڑی یورپی کلب اور ٹیموں سے کھیل رہے ہیں جہاں خلیجی ریاستوں میں زیادہ پیسہ اور شہرت ہے، سب سے بڑھ کر نوجوانوں کو انتہا پسندی سے بچانے کے لیے کھیل ایک موثر ذریعہ ہے ان کا کہنا ہے کہ صرف فٹبال ہی نہیں ایتھیلیٹ، باکسنگ، سائیکلنگ، والی بال اور دیگر کھیلوں کی سرپرستی اور نوجوانوں کو آگے بڑھنے کے مواقع مہیا کرکے ملک کے مستقبل کو تابناک بنایا جاسکتا ہے اور نامور کھلاڑی ہونے کی حیثیت سے وزیر اعظم عمران خان سے امید ہے کہ ملک میں نوجوانوں کے لیے کھیلوں کی سہولت کو عام کریں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔