حکمرانی ہرایک کے بس کی بات نہیں

مقتدا منصور  بدھ 7 اگست 2013
muqtidakhan@hotmail.com

[email protected]

آج کل پورا ملک ایک بار پھر مون سون کی لپیٹ میں ہے ۔ کہیں ہلکی اور کہیں موسلادھار بارشوں نے پورے ماحول کو جل تھل کیا ہوا ہے۔یہ کوئی نئی بات نہیں ہے ، ہرسال وسط جون سے وسط ستمبر تک اس خطے میں رم جھم جم کربرستی ہے۔ یہ ہماری خوش نصیبی ہے کہ ہم اس خطہ کے باسی ہیں، جہاںسال میں موسم ہوتے ہیں۔ کبھی سردی سے ٹھٹھرتے دن رات،کبھی پھولوں اور پھلوں سے لدی بہار۔ کبھی آسمانوں سے برستی آگ اور لو کے تھپڑے لیے گرمیاں۔توکبھی رم جھم برستا ساون ۔ باقی موسموں میں جو ہوتا ہے، سو ہوتا ہے، مگر برسات کے موسم میں جب ہلکی پھلکی پھوار موسلادھار بارش میں بدلتی ہے تو لوگوں کی طبیعت پہ چھائی رومانیت جھنجھلاہٹ میںبدل جاتی ہے اور رحمت زحمت بن جاتی ہے۔

ہم نے جب سے ہوش سنبھالا ہے، یہی دیکھتے چلے آ رہے ہیں کہ جس سال برسات کے موسم میں ذرا زیادہ بارش ہوجائے تو کھیت کھلیان اجڑ جاتے ہیں، کھڑی فصلیں بہہ جاتی ہیں ، کچے مکان زمیں بوس اور پختہ مکان زیر آب آجاتے ہیں ۔ گلیاں اور سڑکیں ندی اور نالوں جب کہ محلے بڑے تالاب کا منظر پیش کرتے ہیں ۔ ہزاروں کی تعداد میں خاندان بے گھر ہوتے ہیں ۔ سب سے بڑھ کر لاکھوں کیوسک پانی ضایع ہو جاتا ہے ۔ مگر ہر بار سوائے وقتی اقدامات، کبھی کوئی ٹھوس اور دیرپا حکمت عملی نہیں بنائی گئی۔  زیادہ دور کیوں جائیں2010ء اور2011ء کے سیلاب ہمارے سامنے ہیں، جب لاکھوں ایکڑ زمین سیلاب سے متاثر ہوئی اور ہزاروں کی تعداد میں خاندان بے گھر ہوئے۔ اربوں روپے مالیت کی کھڑی فصلیں اور ذخیرہ کردہ گندم تباہ ہوا ۔لیکن ان تجربات سے گذرنے کے باوجود آج تک حکومت ہر سال ہونے والی بارشوں سے ہونے والی تباہ کاریوں سے نمٹنے کے لیے وسیع البنیاد حکمت عملی بنانے میں ناکام ہے ۔ حالیہ بارشوں کے دوران کراچی میں ہونے والی تباہی کا بنیادی سبب سندھ حکومت کی نااہلی اور مقامی حکومتی نظام کا قائم نا ہونا ہے ۔ سندھ حکومت کے وزراء اپنی حکومت کی کوتاہیوں اور کمزوریوں کو تسلیم کرنے اور آیندہ کے لیے منصوبہ بندی کرنے کے بجائے دیگر سیاسی جماعتوں سے الجھنے اور الزام تراشیوں میں وقت ضایع کررہے ہیں۔

ماہرین دو دہائیوں سے دنیا بھر کے ممالک کو مسلسل متنبہ کررہے ہیں کہ کرہ ارض پر موسمیاتی تغیرات کے باعث عالمی گرمائش (Global Warming) میں تیزی کے  ساتھ اضافہ ہورہاہے، جس کے نتیجے میں ایک طرف گرمی بڑھ رہی ہے ۔ اس کے اثرات دو طرح سامنے آرہے ہیں۔اول، بارشوں کے حجم اور شدت میں اضافہ ہورہاہے۔ دوئم،قطبین پر جمی برف کی تہیں پگھل رہی ہیں، جس کی وجہ سے سیلابوں میں اضافہ ہورہا ہے ۔اسی موسمی تغیر کے نتیجہ میں میٹھے پانی کے زیر زمین ذخائر تیزی سے کم ہورہے ہیں اور پانی کی قلت پیدا ہورہی ہے ۔نتیجتاً پانی دنیا میں ایک بہت پیچیدہ مسئلہ کی شکل اختیار کرتا جارہا ہے ۔ یہی سبب ہے کہ ماہرین اس خدشے کا  اظہار کررہے ہیں کہ دنیا میں اگلی جنگیں زمین کے بجائے پانی کے لیے ہوں ۔ پانی کے اس بحران پر قابو پانے کے لیے دنیا کے تقریبا ًسبھی ممالک میں حکومتی اور نجی سطح پر بارش کا پانی ذخیرہ کرنے کے کئی طریقے استعمال کیے جارہے ہیں۔ حکومتیں پانی ذخیرہ کرنے کے لیے بڑے بڑےReservoirتعمیر کررہی ہیں ،جب کہ عوام بھی اپنے طورپر پانی جمع کرتے ہیں ۔ نیپال میں ہر گھر کی چھت پر چھوٹے چھوٹےReservoir بنائے گئے ہیں ۔جمع ہونے والے پانی کو مختلف ادویات سے صاف کرنے کے بعد زیر زمین ٹینک میں منتقل کردیا جاتا ہے ۔اس طرح نیپال نے گرمیوں میں پیدا ہونے والی پانی کی قلت پر خاصی حد تک قابو پالیا ہے۔

پاکستان کے تقریباً سبھی دریا کشمیر سے آرہے ہیں۔ بھارت ان دریائوں پر ڈیم تعمیر کررہا ہے، جس سے پاکستان کی سرزمین پر بہنے والے دریائوں میں پانی کی روانی متاثر ہورہی ہے ۔جس کی وجہ سے کئی دریا سال کا بیشتر حصہ خشک رہتے ہیں ، جس سے پاکستان میں زراعت بری طرح متاثر ہو رہی ہے اور زرعی زمین کے بنجر ہونے کے خطرات بڑھ رہے ہیں ۔ مگر ہمارے ہاں چونکہ عوام میں مختلف ممالک کے ساتھ ہونے والے معاہدوں کے مندرجات اور ان کے نتیجے میں جنم لینے والی صورت کے بارے میں آگاہ کرنے کا کوئی کلچر نہیں ہے ،اسلیے عوام اکثر وبیشتر اندھیرے میں رہتے ہیں۔ پانی کے قدرتی وسائل کے ضمن میں ایک مثال سندھ طاس معاہدہ ہے ۔

یہ معاہدہ ستمبر1960ء میں ایوب خان اور پنڈت جواہر لعل نہرو کے درمیان ہوا۔ کشمیر سے نکلنے والے چھ دریا، پنجاب کا سینہ چیرتے ہوئے ملتان کے قریب دریائے سندھ کا حصہ بن کر سندھ کی طرف رواں ہوتے ہیں ۔ یہ دریا سندھ، چناب، جہلم ، راوی، ستلج اور بیاس ہیں ۔اس معاہدے میں طے کیا گیا کہ مغرب کے تین دریا سندھ چناب اور جہلم پر پاکستان کا مکمل اختیار رہے گا جب کہ ستلج، بیاس اور راوی کے پانی بھارت استعمال کرے گا۔ البتہ معاہدے کے آرٹیکل5/1کے مطابق بھارت کو پابندکیاگیا تھا کہ وہ اگلے10برس(1970ء) تک ان دریائوں کے پانی کی پاکستان کی طرف بہائو کو نہیں روکے گا۔تاکہ پاکستان اپنے حصہ کے تین دریائوں پر بند باندھ کر اور نہریںنکال کر اپنی پانی کی ضروریات کو پورا کرنے کے قابل ہوسکے۔

پاکستان نے اس دوران دو ڈیم تیار کیے ، مگر نہری نظام صحیح طور پر قائم نہیں کرسکا ۔ بیاس تو مشرقی پنجاب میں بہتا تھا،اسلیے وہ کبھی پاکستان کا حصہ نہیں رہا، لیکن ستلج اور راوی کے پانی پر بھارت نے1970 ء کے بعد آہستہ آہستہ اپنا تصرف بڑھایا اور یہ دریا خشک ہونا شروع ہوئے تو بھی پاکستان کی طرف سے پانی کے متبادل ذرایع تلاش کرنے پر توجہ نہیں دی گئی۔ دس برس قبل جب بھارت نے دریائے جہلم پر بگلیہار ڈیم کی تعمیر شروع کی تو سندھ طاس معاہدے کی کھلی خلاف ورزی تھی ۔مگر پاکستان کے متعلقہ محکمے بھارت کو ایسا کرنے سے روکنے میں ناکام رہے ۔ حالانکہ سندھ طاس معاہدے کے مطابق اوپری سطح کے جن تین دریائوں پر تصرف کا حق پاکستان کو حاصل ہے،  ان میں دریائے جہلم بھی شامل ہے ۔

اسلیے بھارت اس دریاکے پانی کو کسی بھی صورت میں استعمال کرنے کا حق نہیں رکھتا ۔اس کے علاوہ بین الاقوامی قوانین کے مطابق قدرتی ذرایع سے آنے والے پانی پرنچلی سطح کے علاقوں کا زیادہ حق ہوتا ہے ۔ لہٰذا اوپری سطح کے ملک کو نچلی سطح پر قائم ملک سے اجازت لینے کی ضرورت ہوتی ہے ۔ یہ بھی طے کرنا ہوتا ہے کہ کتنے فیصد پانی اوپری سطح کا ملک استعمال کرسکتا ہے ۔ مگر پاکستان مضبوط موقف رکھنے کے باوجود ٹھوس ثبوت فراہم کرنے اور منطقی استدلال کی بنیاد پر اپنے مقدمہ کی پیروی کرنے میں ناکام  رہا، جو آبی شعبہ کے ماہرین کی لاپرواہی اور نااہلی کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔

یہاں دو اہم معاملات زیر بحث لائے گئے۔ ایک برسات کے موسم میں ہونے والی بارشوں سے ہونے والے نقصانات اور دوسرے دریائوں کے پانی کی تقسیم پر بھارت کے ساتھ سنجیدہ مذاکرات کا فقدان ۔اول الذکر مسئلے کو مقامی حکومتی نظام کے ذریعہ باآسانی حل کیا جاسکتا ہے، مگر پاکستان کی قومی سیاسی جماعتیں اپنے فیوڈل Mindset کی وجہ سے اقتدار واختیار کو نچلی سطح تک منتقل کرنے سے گریزاں رہتی ہیں ۔ جس کی وجہ سے نکاسی آب جیسے چھوٹے چھوٹے مسائل جن سے عوام براہ راست متاثر ہوتے ہیں اور جنھیں نچلی سطح پر باآسانی حل کیا جاسکتا ہے ، ان کے حل کی راہ میں قومی سیاسی جماعتوں میں موجود فیوڈل ذہنیت رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔ موخرالذکر مسئلہ ریاستی سطح پر منصوبہ بندی اور مناسب تحقیق کے فقدان کو ظاہر کرتا ہے۔ جس کی وجہ سے مختلف عالمی  فورموں پر پاکستان اپنے کیس کی مناسب پیروی نہیں کر پا رہا اور بھارت من مانیاں کر رہا ہے ۔

دراصل وطن عزیز گذشتہ 66برس سے ایسے لوگوں کے ہاتھوں میں کھلونا بناہوا ہے، جن میں حکمرانی کی صلاحیت کے فقدان کی وجہ سے ملک کو ان گنت پیچیدہ مسائل میں گھیر لیا ہے،جن سے نکلنا مشکل نظر آرہا ہے۔ایک ایسی انتظامیہ جو ملک میں ہر سال ہونے والی بارش کے نقصانات کو کم کرنے کی اہلیت نہ رکھتی ہو ، اس سے کس طرح توقع کی جاسکتی  ہے کہ وہ دہشت گردی جیسے پیچیدہ مسائل حل کرسکے گی ۔چونکہ حکمرانوں میں ویژن کی کمی اورانتظامی صلاحیت کا فقدان ہے ، اسلیے عوام کو دیرپا اورمستقل بنیادوں  پر ریلیف نہیں مل پاتا ۔اب تک کے تجربات یہی بتاتے ہیں کہ ہر نئے آنے والے سال پچھلے برس سے زیادہ پریشانیاں عوام کا مقدر ٹھہرتی ہیں ۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ جیسے ہی مون سون ختم ہوتا ہے، عوام اور حکمران سبھی ان تکالیف کو بھول جاتے ہیں، جن سے وہ  گذرے  تھے اور پھر اگلے مون  سون تک ایک طویل خواب خرگوش اور اس وقت بھاگ دوڑ شروع ہوتی ہے ، جب پانی ایک بار پھر سروں تک پہنچ جاتا ہے ۔مگر بے سود،  کیوں کہ فرسودہ سوچ اور فرسودہ نظام  کے ساتھ مسائل حل نہیں ہوتے ۔دوسری طرف وہ کیونکہ یہ جماعتیں مختلف حیلے بہانوں سے اقتدار و اختیار کی نچلی سطح تک منتقلی کا راستہ روکنے میں مصروف ہیں ۔اس صورتحال نے ایک طرف عوام کو مسائل کی دلدل میںدھنسایا اوردوسری طرف ریاست کو ناکامی کے دہانے تک پہنچا دیا ہے ۔ لہٰذا یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ حکمرانی ہر ایک کے بس کی بات نہیں ۔ مگر حکمران اقتدار سے چمٹنے رہنا چاہتے ہیں چاہے ملک کسی حال ہی کو کیوں نہ پہنچ جائے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔