مدد یوں بھی ہوسکتی ہے

رئیس فاطمہ  بدھ 7 اگست 2013

پچھلے دنوں سجاد احمد ایڈووکیٹ کا ایک خط موصول ہوا ، جو بوجوہ یہاں نقل کر رہی ہوں۔ پچھلے دنوں جو تنہا والدین کے حوالے سے جو دو کالم لکھے تھے۔ یہ خط اسی کے جواب میں ہے۔ سجاد صاحب نے فون  سے بات کرکے اپنی بات سمجھانی چاہی تو میں نے ان سے درخواست کی کہ وہ جو تجاویز دے رہے ہیں۔ انھیں لکھ کر بھیج دیں انھوں نے ایسا ہی کیا۔ دراصل بے حسی اور لاتعلقی دو ایسے امراض ہیں  جو اس سوسائٹی کو دیمک کی طرح چاٹ رہے ہیں۔ قریب قریب رہتے ہوئے بھی ایک دوسرے کے لیے اجنبی۔ بالکل ہوٹل کے عارضی مکینوں کی طرح۔ جو رہتے تو ایک ہی راہداری کے کمروں میں، لیکن ایک دوسرے سے بالکل لاتعلق۔ بس ہوٹل کے رجسٹر میں ناموں کا اندراج ہوتا ہے۔ تنہائی ڈپریشن اور افسردگی پیدا کرتی ہے۔ پہلے خاندان مل کر رہتے تھے۔ بڑھاپے میں بچوں کے بچے تنہائی دور کرتے تھے۔ اب کمروں میں بوڑھے، تنہا، عمر رسیدہ اکیلے والدین ہیں اور ٹی وی۔۔۔۔جو کسی حد تک ان کی تنہائیوں کا ساتھی ہے۔۔۔۔۔لیکن کب تک۔۔۔۔۔جب ملک سے باہر گئے بچے یادوں کی قندیلوں کو ہوا دیتے ہیں تو تنہائی اور بھی بڑھ جاتی ہے۔ بہرحال یہ خط پڑھیے!

محترمہ رئیس فاطمہ صاحبہ!

السلام علیکم!

امید ہے آپ کا مزاج بخیر ہوگا۔ میں اور میری اہلیہ پابندی کے ساتھ آپ کا کالم پڑھتے ہیں خاص طور سے ہمیں وہ کالم بہت زیادہ پسند ہیں جو سماجی اور معاشرتی مسائل کے بارے میں ہوتے ہیں۔ آپ کے پاس متنوع موضوعات ہیں۔ مقام شکر ہے کہ آپ سیاست اور سیاستدانوں کو زیادہ منہ نہیں لگاتیں۔ ان کے بارے میں کچھ لکھنا دراصل وقت کو ضایع کرنے کے مترادف ہے۔

میں اس خط کے ذریعے آپ کی توجہ ان کالموں کی طرف لانا چاہتا ہوں جو آپ نے ان عمر رسیدہ والدین کے حوالے سے لکھے تھے جن کے بچے انھیں اکیلا اور بے یارومددگار چھوڑ کر پردیس سدھار چکے ہیں۔ ہم دونوں میاں بیوی کا شمار بھی ایسے ہی لوگوں میں ہوتا ہے۔ ہمارے تینوں بیٹے ملک سے باہر ہیں۔

ان میں سے دو بیٹے شادی شدہ ہیں جنھیں ان کی بیویاں کسی نہ کسی طرح باہر لے جانے میں کامیاب ہوگئی ہیں۔ ہمارا تیسرا بیٹا بسلسلہ ملازمت کراچی سے باہر ہے۔ جس اپارٹمنٹ میں ہم رہتے ہیں وہاں تقریباً کئی سو فلیٹ ہیں۔ لوگ بھی بہت اچھے ہیں لیکن ایک بے حسی اور خودغرضی کا ماحول ہے۔ آپ نے اپنے کسی گزشتہ کالم میں یہ تجویز دی تھی کہ عبدالستار ایدھی صاحب کے ’’اپنا گھر‘‘ سے کوئی معقول خاتون ہم جیسے تنہا اور عمر رسیدہ لوگوں کے پاس چند گھنٹوں کے لیے ہی آسکیں تو بڑا سہارا ہوجائے گا۔

خدا بہتر جانتا ہے کہ وہ زمانہ کہاں گیا جب ہمسایہ ماں جایا کہلاتا تھا۔ آپ ایدھی کے اپنا گھر کی بات کرتی ہیں۔ ٹھیک ہے۔بہت اچھی تجویز ہے لیکن میں آپ کے کالم کے توسط سے یہ تجویز پیش کرنا چاہتا ہوں کہ چونکہ فلیٹوں میں رہنے والے لوگ ایک دوسرے سے زیادہ قریب ہوتے ہیں اس لیے کیا یہ ممکن نہیں کہ فلیٹوں کی یونین اور کچھ ذمے دار لوگ ہم جیسے عمر رسیدہ اور بیمار لوگوں کے لیے معقول معاوضے پر صرف رات کا کھانا فراہم کردیا کریں۔ ناشتہ ہم خود بنالیتے ہیں۔ دوپہر کا کھانا ہم دونوں نہیں کھاتے۔ میری اہلیہ شائی ٹیکا کے مرض میں مبتلا ہیں۔ وہ روٹی نہیں پکاسکتیں۔ بازاری کھانا ہم پسند نہیں کرتے۔ ہم دونوں نے ہمیشہ گھر کا پکا ہوا کھانا ہی کھایا ہے۔

اس شہر میں بے شمار لوگ ایسے ہوں گے جو ہماری طرح زندگی گزار رہے ہوں گے کیا اہل محلہ اور ہمسائے اپنے بزرگ پڑوسیوں کی اتنی مدد نہیں کرسکتے کہ ماہانہ بنیادوں پر رقم لے کر ان اکیلے اور بیمار لوگوں کو رات کا کھانا فراہم کردیا کریں کیونکہ آج کل کسی بھی ہوٹل کا کھانا ایسا نہیں ہوتا کہ آپ اسے روزانہ کھا سکیں۔ آج سے چالیس پچاس برس قبل محلوں میں بڑے اچھے اور سستے ہوٹل ہوا کرتے تھے جہاں کھانے پینے کی تمام تر اشیا دستیاب تھیں جن میں گوشت اور سبزی کے سالن، قیمہ، مرغی، مچھلی، اور ہر قسم کی دالیں شامل تھیں۔ اب آپ کو فقط جنک فوڈ، پیزا، برگر اور فرنچ فرائز ہی ملیں گے جو ایک زہر آلود غذا سے کم نہیں ہیں۔

اگر اچھے اور معیاری ہوٹل موجود ہوتے تو ہم جیسے تنہا اور اکیلے لوگ انھی ہوٹلوں سے کھانا منگوا لیتے کیونکہ ماضی میں بھی ایسا ہوتا رہا ہے۔ میری خالہ اور ان کے شوہر جو حیدرآباد کالونی کراچی میں رہا کرتے تھے قریبی ہوٹل سے مناسب قیمت پر ماہانہ بنیادوں پر نہایت معقول کھانا حاصل کرلیا کرتے تھے۔

ان کے گھر ہم دونوں نے کڑھی چاول، بگھارے بینگن، کھٹی مرچیں، دال چاول، آلوقیمہ، اروی گوشت سبھی کچھ کھایا ہے۔ لیکن اب ایسے ہوٹل اس شہر میں ناپید ہوچکے ہیں اب تو چربی اور غیر معیاری تیل میں پکے کھانے بند ڈبوں میں دستیاب ہیں۔

میری دانست میں اگر یہ بات عام کردی جائے کہ فلیٹوں کے رہائشی افراد اپنے عمر رسیدہ اور بوڑھے بیمار افراد کی مدد کریں تو یہ ثواب جاریہ ہوگا۔ مناسب معاوضہ لے کر ہم جیسے اکیلے اور بیمار لوگوں کو ایک وقت کے کھانے کی فراہمی یقینا ایک بہت نیکی کا کام ہوگا۔

خدا آپ کو خوش رکھے اور آپ اپنے کالموں میں ہم جیسے لوگوں کے مسائل کو اجاگر کرتی رہیں۔ اپنے کسی قریبی کالم میں اس خط کا ذکر ضرور کردیجئے گا۔ ہم دونوں میاں بیوی آپ کے شکر گزار ہوں گے۔

فقط

سجاد احمد ایڈووکیٹ، کراچی

جس اہم بات کی طرف سجاد صاحب نے توجہ دلائی ہے۔ وہ یہ کہ اگر کچھ گھرانے ضرورت مند خاندان کو ماہانہ یا روزانہ بنیاد پر معقول معاوضے پر کھانا فراہم کردیں تو یہ نیکی تو ہوگی ہی۔ اس کے ساتھ ہی یہ آمدنی میں اضافے کا سبب بھی بن سکتا ہے۔ بہت سے ایسے گھرانے ہیں جو مالی مشکلات کا شکار ہیں۔ اور ان کی خواتین گھر سے باہر جاکر کام بھی نہیں کرسکتیں۔ اس لیے اگر کچھ گھرانے مستقل یہ کام شروع کردیں تو معقول معاوضہ بھی انھیں مل جائے گا اور ضرورت مند افراد کی مدد بھی ہوجائے گی۔ میرے علم میں یہ بات ہے کہ کراچی کے معروف اور مصروف علاقے کریم آباد میں خواتین اس طرح کے کام بخوبی کرتی ہیں۔ سنا ہے کہ وہاں گھر کی روٹیاں بھی پکی پکائی مل جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ دیگر کھانے پینے کا سامان معقول رقم کے عوض مل جاتا ہے۔ ہونا یہ چاہیے کہ یہ نیک اور مفید کام دیگر علاقوں میں بھی ہونا چاہیے۔ اس طرح ایک بڑا مسئلہ حل ہوجائے گا۔ امید کرتی ہوں کہ کچھ لوگ ضرور اس جانب توجہ دیں گے۔ کم ازکم اور کسی لیے نہیں تو سنت نبویؐ اور احکام خداوندی پہ عمل کرتے ہوئے۔ ایسے لوگوں کو خود آگے بڑھ کر مدد کی پیشکش کی جائے تاکہ وہ سکون سے زندگی گزار سکیں۔ اگر یہ سلسلہ چل نکلا تو یہ بہت سے گھرانوں کے لیے معاشی طور پر بھی مددگار ثابت ہوسکتا ہے کہ مدد یوں بھی ہوسکتی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔