گندم کی پیداوار اور آٹا

ایم آئی خلیل  بدھ 7 اگست 2013
ikhalil2012@hotmail.com

[email protected]

گندم کی عالمی پیداوار کا ہدف 69 کروڑ میٹرک ٹن مقرر کیا گیا تھا۔ اقوام متحدہ کے ادارہ خوراک و زراعت کے مطابق دنیا بھر میں گندم کی پیداوار میں 4 فیصد اضافے کا امکان ظاہر کیا گیا ہے۔ امریکی ادارہ زراعت کے مطابق پاکستان میں 2 کروڑ 33 لاکھ میٹرک ٹن گندم کی پیداوار کی توقع ظاہر کی گئی تھی۔ لیکن صرف پنجاب میں ہی گندم کی پیداوار ہدف سے 5 لاکھ ٹن کم رہی۔ اگرچہ پاکستان کو ایشیا میں گندم کی پیداوار میں تیسرا بڑا ملک سمجھا جاتا ہے لیکن اکثر و بیشتر پاکستان عالمی منڈی یا دیگر ملکوں سے گندم درآمد کرتا ہے۔ اس سال ایک دفعہ پھر عالمی منڈی سے 5 لاکھ ٹن گندم درآمد کی جائے گی۔ جو گزشتہ 5 سال میں سب سے زیادہ ہے۔ ملک میں گندم کی پیداوار کے حصول کے فوراً بعد ہی گندم کی قلت کا ماحول پیدا کر کے قیمت میں اضافہ کر دیا جاتا ہے اور پھر قیمت کو معمول پر لانے کی خاطر گندم درآمد کر لی جاتی ہے۔ دکھاوے کی خاطر چند یوم آٹے کی قیمت کو کم کر کے دوبارہ قیمت میں اضافہ کر دیا جاتا ہے۔

حال ہی میں تاجروں نے روس، یوکرائن اور رومانیہ سے 280 ڈالر فی ٹن درآمد کے سودے کیے ہیں۔ ماہ جون میں آٹا 40 روپے فی کلو دستیاب تھا جو اب بڑھ کر 45 روپے فی کلو ہو چکا ہے جس کی وجہ سے فوڈ انفلیشن میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اگر اس سلسلے کو قابو میں نہ لایا گیا تو افراط زر کی شرح میں تیزی سے اضافہ ہو گا۔ پاکستان ایک زرعی ملک ہونے کے باوجود فوڈ گروپ کی درآمدات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ مالی سال 2012-13ء کے دوران فوڈ گروپ کی درآمدی مالیت کا اندازہ 4  کھرب، 4 ارب 50 کروڑ روپے لگایا گیا ہے۔ حالانکہ گزشتہ مالی سال کے دوران 2 لاکھ میٹرک ٹن گندم برآمد کی جا چکی ہے۔ لیکن اس کے باوجود گزشتہ سال سے ہی آٹے کی قیمت میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ گندم کا بڑا ذخیرہ، ذخیرہ اندوزوں کے ہاتھ لگ گیا ہے۔ جس کے باعث کھلی مارکیٹ میں گندم کی قیمت میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔

مارچ 1997ء میں جب مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے زمام اقتدار سنبھالا تھا تو اس وقت آٹا ساڑھے چھ روپے فی کلو دستیاب تھا۔ لیکن اپریل 97ء میں ہی اس بات کا شور و غوغا مچا دیا گیا کہ آٹا غائب ہو گیا ہے۔ مارکیٹ سے دکانوں سے ہول سیلروں کے پاس آٹا دستیاب ہی نہ تھا۔ ایک ڈیڑھ ہفتے کے بعد جب آٹا منظر عام پر آیا تو اس کی قیمت 9 روپے فی کلو ہو چکی تھی۔ اس دفعہ بھی نئی حکومت کی آمد کے چند ہفتوں کے بعد آٹے کی قیمت میں 5 تا 6 روپے فی کلو کا اضافہ ہو چکا ہے۔ حالانکہ بعض اندازوں کے مطابق پاکستان میں 2 کروڑ 40 لاکھ ٹن گندم کی پیداوار بھی ہوئی ہے۔ پاکستان میں 1972ء کے بعد سے گندم کی پیداوار میں مسلسل اضافہ ہی ہو رہا ہے۔ 1980ء پہلا سال تھا جب ملک میں گندم کی پیداوار ایک کروڑ ٹن سے زائد رہی۔ پھر پیداوار میں اضافہ ہوتا رہا حتیٰ کہ 1992ء میں پیداوار ایک کروڑ61 لاکھ ٹن تک پہنچی تھی ان دنوں مسلم لیگ (ن) کی حکومت تھی اور بجٹ میں اعلان کیا گیا تھا کہ آٹا ساڑھے تین روپے فی کلو دستیاب ہو گا۔ 1998ء میں ملک میں گندم کی پیداوار ایک کروڑ 86 لاکھ میٹرک ٹن تک پہنچ چکی تھی۔

لیکن آٹا 10 روپے فی کلو تک باآسانی دستیاب ہو رہا تھا۔ 2000ء میں وہ پہلا موقع آیا جب پاکستان میں گندم کی پیداوار 2 کروڑ 10 لاکھ ٹن تک جا پہنچی اور آٹا 13 روپے فی کلو دستیاب ہوتا رہا۔ کچھ عرصے تک قیمت میں استحکام پایا جاتا رہا۔ لیکن 2007ء مئی کی بات ہے کہ کہا گیا کہ گندم کی بمپر فصل ہوئی ہے یعنی ڈھائی کروڑ ٹن گندم کی پیداوار ہو چکی ہے۔ لہٰذا گندم برآمد کرنے کی اشد ضرورت ہے شاید کئی لوگ اس کے لیے تیار بیٹھے تھے۔ فوراً ہرکارے دوڑائے گئے کھیت سے فصلوں کو اونے پونے دام میں نقد خرید کر ان بند کارخانوں میں لایا گیا۔ جنھیں گودام بنا دیا گیا تھا۔ بہت سے صنعتکار جن کے کارخانے بند ہو گئے تھے گندم کی تجارت سے منسلک ہو گئے کیونکہ فوری منافع سامنے نظر آ رہا تھا اور پھر دو ہی ہفتوں میں 22 لاکھ میٹرک ٹن گندم برآمد کر دی گئی۔ اس وقت کی اطلاعات کے مطابق 200 ڈالر فی میٹرک ٹن کے حساب سے فروخت کی گئی تھی۔ بعد میں بتایا گیا کہ گندم کی پیداوار ہدف سے کم ہوئی ہے۔ پھر گندم کی قلت پیدا ہو گئی۔ آٹا 120 روپے فی کلو تک جا پہنچا۔ اور اس کے بعد وہی ہوا جس کا خدشہ تھا کہ دگنی قیمت پر 5 لاکھ میٹرک ٹن گندم درآمد کی گئی۔

پاکستان نے 1982ء میں پہلی دفعہ 78 ہزار میٹرک ٹن گندم برآمد کی تھی اور اگلے ہی سال 2 لاکھ میٹرک ٹن گندم برآمد کر چکا تھا۔ اس کے بعد برآمد میں کمی واقع ہوتی رہی درآمد میں اضافہ دیکھا گیا البتہ 2000ء میں  2 لاکھ 53 ہزار میٹرک ٹن گندم برآمد کی گئی۔ اگلے ہی سال 5 لاکھ ٹن گندم برآمد کی۔ اور 2007ء میں 22 لاکھ میٹرک ٹن برآمد کی گئی۔ لیکن جیسا کہ اوپر بتایا گیا کہ 2007ء میں 15 لاکھ میٹرک ٹن گندم درآمد کی گئی تھی۔ اس طرح وقتاً فوقتاً پاکستان گندم ایکسپورٹ کرنے والے 20 اہم ملکوں میں بھی شامل ہو جاتا ہے۔ دنیا میں گندم ایکسپورٹ کرنے والے ٹاپ ٹین ملکوں میں امریکا، آسٹریلیا، کینیڈا، ارجنٹائن، روس، قازقستان وغیرہ ہیں۔ گندم امپورٹ کرنے والے اہم ملکوں میں مصر، انڈونیشیا، جاپان، الجزائر ، نائیجیریا کے علاوہ اکثر و بیشتر پاکستان بھی شامل ہو جاتا ہے۔

پاکستان نے 1992ء میں 29 لاکھ میٹرک ٹن کی مقدار میں گندم درآمد کی۔ 41 لاکھ میٹرک ٹن گندم درآمد کرنے کے بعد 98ء میں 31 لاکھ میٹرک ٹن گندم درآمد کرنی پڑی اور پھر 99ء میں 21 لاکھ میٹرک ٹن گندم درآمد کرنے کے بعد صورت حال میں بہتری آئی۔ البتہ 2004ء میں 14 لاکھ میٹرک ٹن گندم درآمد کرنے کی ضرورت پیش آئی۔ 2007ء میں اگر بہتر منصوبہ بنایا جاتا، ذخیرہ اندوزوں اور اسمگلرز کو موقع فراہم نہ کیا جاتا اور گندم کی پیداوار اور اس کی قیمت پر نظر رکھی جاتی تو اس طرح اس سال بھی گندم درآمد کرنے کی ضرورت پیش نہ آتی اور سستی گندم فروخت کر کے مہنگی خریدنے کے باعث ملکی خزانے پر جو بوجھ پڑا ہے اس کی نوبت نہ آتی۔ 2008ء میں 31 لاکھ 49 ہزار میٹرک ٹن گندم کی درآمد کے بعد سے اب تک 2 تا 4 لاکھ میٹرک ٹن گندم کی درآمد کی ضرورت پیش آئی ہے۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ گندم کی کھپت کی صورت حال اور پیداواری صورت حال میں مطابقت پائی جاتی رہی ہے۔ اس لحاظ سے آٹے کی قیمت میں غیر معمولی اضافہ ناقابل فہم ہے۔

1978ء میں پہلی مرتبہ ملکی گندم کی کھپت ایک کروڑ ٹن تک پہنچی تھی۔ 1989ء میں پہلی مرتبہ گندم کی کھپت ڈیڑھ کروڑ ٹن تک جا پہنچی۔ 7 سال کے بعد 1996ء میں گندم کی کھپت کا اندازہ دو کروڑ میٹرک ٹن لگایا گیا۔ 2007ء میں سوا دو کروڑ میٹرک ٹن اور 2011ء میں 2 کروڑ 31 لاکھ میٹرک ٹن اور 2012ء میں دو کروڑ39 لاکھ میٹرک ٹن گندم کی کھپت کا تخمینہ پیش کیا گیا تھا۔

بات دراصل یہ ہے کہ پاکستان میں بتدریج زیر کاشت رقبے میں کمی اور اسمگلنگ کے باعث اب ملکی گندم کی کھپت کا انحصار گندم کی درآمد پر بڑھنے لگے گا۔ توقع ہے کہ مارچ 2014ء تک مزید 8 تا 10 لاکھ ٹن گندم درآمد کی جائے گی۔ اس وقت ہزاروں ٹن گندم جو کہ کھلے آسمان تلے یا گوداموں میں موجود ہے ملک بھر میں مون سون کی بارشوں اور کہیں کہیں سیلاب کے باعث گزشتہ برسوں کی طرح ان ذخیرہ گاہوں کو شدید نقصان پہنچنے کا خدشہ ہے جس کے لیے ضروری ہے کہ متعلقہ محکمے اور عملے کو ہر طرح کی سہولیات فراہم کی جائیں تا کہ اس قسم کے واقعات سے بچنے کے لیے تمام تر حفاظتی اقدامات بروئے کار لائے جا سکیں۔ بہرحال اگر مناسب منصوبہ بندی کر کے گندم کی مصنوعی قلت پیدا کرنے والوں سے سختی سے نمٹا جائے تو ملک میں گندم کی اتنی پیداوار ہوتی ہے جس سے ملکی کھپت پوری کی جا سکے اور گندم کی طلب و رسد میں توازن قائم ہو کر آٹے کی قیمت میں اضافے کو روکا جا سکتا ہے۔ اس وقت اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ آٹے کی بڑھتی ہوئی قیمت کو روک کر آٹا سستا کیا جائے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔