کرائسٹ چرچ دہشت گردی اور صبر کی ضرورت

ذیشان نواز  منگل 19 مارچ 2019
کرائسٹ چرچ میں مساجد پر دہشت گردی کا واقعہ اپنے پیچھے کئی سوالات چھوڑ گیا ہے۔ (فوٹو: انٹرننیٹ)

کرائسٹ چرچ میں مساجد پر دہشت گردی کا واقعہ اپنے پیچھے کئی سوالات چھوڑ گیا ہے۔ (فوٹو: انٹرننیٹ)

’’آج دنیا اسلام سے اس لیے دور ہے کہ ہم دنیا تک اسلام کا پیغام پہنچا ہی نہیں سکے۔ مدارس میں آج بھی یہ بحث جاری ہے کہ انگریزی زبان سیکھی جائے یا نہیں۔‘‘ مسجد میں داخل ہوتے ہوئے یہ الفاظ میرے کانوں سے ٹکرائے تو میری دلچسپی بڑھنے لگی۔ میں اگلی صفوں میں جا کر بیٹھ گیا۔ مولانا صاحب فرمانے لگے ’’زبان کسی شخص سے رابطے کا پہلا ذریعہ ہوتی ہے، اگر مدارس میں طلبا انگریزی زبان نہیں سیکھیں گے تو دنیا بھر کے لوگوں کو اسلام کیسے سمجھا پائیں گے۔ آپ مدارس میں اپنے بہترین دماغ بھیجیں۔ افریقہ، آسٹریلیا، یورپ اور امریکا سمیت دنیا بھر کی مساجد اس انتظار میں ہیں کہ ان مدارس سے فارغ التحصیل طلبا انہیں آباد کریں۔‘‘

اس سوچ کا مدارس میں پہنچ جانا نہایت خوش آئند ہے۔ کہتے ہیں کہ بد سے بدنام برا۔ اسلام کے خلاف منفی پروپیگنڈا کیا جارہا ہے تاکہ لوگ اس سے منحرف ہوجائیں۔

اس دور میں ہر مسلمان بالخصوص اہل علم کا کردار نہایت اہم ہے۔ انگریزی زبان اور جدید عصری علوم سیکھنے کے ساتھ ساتھ ہمیں اپنے اخلاق اور کردار کو بھی مثالی بنانا ہوگا۔ آج دنیا سمٹ کر گلوبل ولیج بن چکی ہے۔ مسلمان اپنی ذات سے بڑھ کر ایک اسلامی تشخص بھی رکھتے ہیں۔ ایک مسلمان کی غلطی عالم اسلام کو داغ دار کرنے کا باعث بن سکتی ہے۔

دوسری جانب جہاں مدارس اسلامیہ میں انگریزی زبان اور جدید عصری علوم کی ضرورت ہے، وہاں ہمارے اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں بھی دین سکھانے کی ضرورت ہے۔ ہمارا ایمان ہے کہ اس دنیا میں کیے گئے ہر عمل کا حساب ہمیں آخرت میں دینا ہے۔ یقیناً اللہ نے اس دنیا میں زندگی گزارنے کے بہترین طور طریقے اس دین کے ذریعے سے ہمیں سکھا دیئے ہیں اور آخرت کی کامیابی صرف اسلام پر عمل کرنے سے ہی مشروط ہے۔

کرائسٹ چرچ میں مساجد پر دہشت گردی کا واقعہ اپنے پیچھے کئی سوالات چھوڑ گیا ہے۔ ایک طرف تو دہشت گرد ایک مسجد میں اپنے گھناؤنے عزائم پورے کرنے کے بعد 11 منٹ کا سفر کرتا ہے اور پولیس اسٹیشن کے پاس سے گزرتے ہوئے، کسی مزاحمت کا سامنا کیے بغیر، دوسری مسجد پر دھاوا بول دیتا ہے۔ دوسری جانب اسرئیلی طیارے غزہ کے معصوم اور نہتے مسلمانوں پر بارود برساتے ہیں۔ یقیناً مساجد پر حملہ کرنے والا دہشت گرد اکیلا نہیں تھا، کوئی تنظیم اس کی پشت پناہی کررہی تھی، جس نے پلاننگ کے تحت پولیس کو حرکت میں آنے سے روکے رکھا۔ غزہ میں پیش آنے والا واقعہ اور اسلحے پر درج تخریبی کلمات ان حقیقی دہشت گردوں کی نشاندہی کررہے ہیں جنہوں نے اس درندہ صفت شخص کو اکسا کر اس بزدلانہ کارروائی کےلیے ابھارا۔ پوری دنیا کے مسلمان غم و غصے کی کیفیت میں ہیں۔ اس سے پہلے کہ ردعمل کے طور پر کوئی اور سانحہ پیش آئے، امن کے نام نہاد علمبرداروں کو اس واقعے کے کرداروں کو سامنے لاتے ہوئے عبرت ناک سزا دینی چاہیے۔

اس موقع پر مسلمانوں کو خصوصی صبر کی ضرورت ہے۔ دنیا بھر کے عوام اس واقعے کا آزادانہ تجزیہ کررہے ہیں۔ آج موقعہ ہے کہ انہیں باور کرایا جائے کہ کشمیر میں ہندو مسلمانوں کا استحصال کررہے ہیں، فلسطین میں یہودی مسلمانوں پر بم برسا رہے ہیں اور انہیں بے دخل کرتے ہوئے یہودی بستیاں تعمیر کررہے ہیں۔ بدھ مت کے بھکشو روہنگیا مسلمانوں کا قتل عام کررہے ہیں اور چین، چیچنیا، بوسنیا میں مسلمانوں پر ظلم کے پہاڑ توڑے جارہے ہیں، پھر بھی مسلمانوں ہی کو دہشت گرد قرار دیا جارہا ہے۔ موجودہ وقت میں اینٹ اور پتھر کا جواب قلم اور اعلیٰ اخلاق سے دے کر ہم اس عالمی سازش کا قلع قمع کرسکتے ہیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ذیشان نواز

ذیشان نواز

بلاگر نےانٹرنیشنل اسلامی یونیورسٹی سے ایم ایس سی (اکنامکس اینڈ فنانس) کیا ہوا ہے اور آج کل راولپنڈی کے ایک تعلیمی ادارے میں تدریسی فرائض انجام دے رہے ہیں۔ ان سے فیس بُک آئی ڈی zee.shann.12 پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔