- ڈکیتی کے ملزمان سے رشوت لینے کا معاملہ؛ ایس ایچ او، چوکی انچارج گرفتار
- کراچی؛ ڈاکو دکاندار سے ایک کروڑ روپے نقد اور موبائل فونز چھین کر فرار
- پنجاب پولیس کا امریکا میں مقیم شہباز گِل کیخلاف کارروائی کا فیصلہ
- سنہری درانتی سے گندم کی فصل کی کٹائی؛ مریم نواز پر کڑی تنقید
- نیویارک ٹائمز کی اپنے صحافیوں کو الفاظ ’نسل کشی‘،’فلسطین‘ استعمال نہ کرنے کی ہدایت
- پنجاب کے مختلف شہروں میں ضمنی انتخابات؛ دفعہ 144 کا نفاذ
- آرمی چیف سے ترکیہ کے چیف آف جنرل اسٹاف کی ملاقات، دفاعی تعاون پر تبادلہ خیال
- مینڈھے کی ٹکر سے معمر میاں بیوی ہلاک
- جسٹس اشتیاق ابراہیم چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ تعینات
- فلاح جناح کی اسلام آباد سے مسقط کیلئے پرواز کا آغاز 10 مئی کو ہوگا
- برف پگھلنا شروع؛ امریکی وزیر خارجہ 4 روزہ دورے پر چین جائیں گے
- کاہنہ ہسپتال کے باہر نرس پر چھری سے حملہ
- پاکستان اور نیوزی لینڈ کا پہلا ٹی ٹوئنٹی بارش کی نذر ہوگیا
- نو منتخب امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم نے اپنے عہدے کا حلف اٹھا لیا
- تعصبات کے باوجود بالی وڈ میں باصلاحیت فنکار کو کام ملتا ہے، ودیا بالن
- اقوام متحدہ میں فلسطین کی مستقل رکنیت؛ امریکا ووٹنگ رکوانے کیلیے سرگرم
- راولپنڈی میں گردوں کی غیر قانونی پیوندکاری میں ملوث گینگ کا سرغنہ گرفتار
- درخشاں تھانے میں ملزم کی ہلاکت؛ انکوائری رپورٹ میں سابق ایس پی کلفٹن قصور وار قرار
- شبلی فراز سینیٹ میں قائد حزب اختلاف نامزد
- جامعہ کراچی ایرانی صدر کو پی ایچ ڈی کی اعزازی سند دے گی
دریائے نیل سے پہلی بار فرعونی دور کی کشتی کا ملبہ دریافت
قاہرہ: دریائے نیل کے فرش سے حال ہی میں ایک عظیم الشان کشتی بہت اچھی حالت میں برآمد ہوئی ہے، اس دریافت سے سیکڑوں سال سے جاری ایک بحث کا خاتمہ ہوگیا جو کہ فراعین کی شاندار کشتیوں کے متعلق تھی۔
یونانی مؤرخ ہیروڈوٹس نے پہلی مرتبہ اپنی کتاب میں اس کا ذکر کیا تھا۔ ہسٹریز نامی یہ کتاب 450 قبل مسیح میں منظرِعام پر آئی تھی۔ اس نے اہرام کے متعلق لکھا تھا کہ انہیں جوڑنے والے پتھروں کے درمیان بال برابر بھی فرق نہیں اور جب دوپہر میں ان پر دھوپ پڑتی ہے تو اہرام سے منعکس ہوکر ایک روشن منظر بناتی ہے جسے دیکھ کر ہوش اڑ جاتے ہیں۔
ہیروڈوٹس نے مصر کی سیر میں یہ بھی کہا تھا کہ اس نے بارس نامی ایک بہت بڑی کشتی دیکھی جس میں لوگ اپنے سامان سمیت ایک جگہ سے دوسری جگہ جایا کرتے تھے تاہم ماہرین کو اس کے ثبوت کی تلاش تھی اور نئی دریافت سے ہیروڈوٹس کے بیان کی تصدیق ہوئی ہے۔
آکسفورڈ سینٹر آف میری ٹائم آرکیالوجی کے ماہر ڈامیان رابنسن نے کہا ہے کہ انہوں نے ایک بڑی کشتی کا 70 فیصد ڈھانچہ برآمد کیا ہے جو اس بات کی تصدیق کرتا ہے کہ فرعون کے عہد میں بڑی تجارتی کشتیاں استعمال ہوتی تھیں۔
سال 2013ء میں روسی اکادمی برائے سائنس سے وابستہ مصری علوم کے ماہر الیگزینڈر بیلوو نے کہا تھا کہ کشتیوں کو یا تو اینٹوں سے بنایا جاتا تھا یا ان پر اینٹوں جیسی ساخت نمایاں تھی۔
اب ماہرین کو دریائے نیل سے ایک ٹوٹی پھوٹی کشتی ملی ہے جسے ماہرین نے شپ 17 کا نام دیا ہے جس کی لمبائی 27 میٹر ہے۔ ماہرین نے دریافت کیا ہے کہ کشتی کے اندرونی جانب ڈھانچے کی ساخت کچھ اس طرح ہے کہ ان پر انسانی پسلیوں کا گمان ہوتا ہے اور اس سے قبل قدیم کشتیوں میں یہ خدوخال کبھی نہیں دیکھے گئے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔