رمضان بازار ختم کرنے کی تجویز

مزمل سہروردی  منگل 19 مارچ 2019
msuherwardy@gmail.com

[email protected]

مہنگائی اس حکومت کے لیے ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔ لوگ کرپشن کے خلاف بیانیے کے ساتھ تب تک ہی کھڑے ہوں گے جب انھیں مہنگائی سے ریلیف دیا جائے گا۔ اس بات میں کوئی دو رائے نہیں ہیں کہ ابھی تک یہ حکومت مہنگائی کو قابو میں نہیں کر سکی ہے۔

لیکن جہاں کچھ مہنگائی حکومت کی جانب سے کی گئی ہے وہاں مارکیٹ کے ان عناصر نے بھی کی ہے جو ہمیشہ مہنگائی کر کے لوگوں کو لوٹنے کی کوشش میں رہتے ہیں۔ حکومت کا کام ہے کہ وہ مارکیٹ کے ان عناصر کے خلاف ایکشن لے جو ذخیرہ اندوزی کریں۔ بے وجہ اشیا ضرورت کی قیمتوں میں اضافہ کریں۔ اس ضمن میں حکومت کے اندر باقاعدہ ایک نظام موجود ہے تاہم جہاں اس حکومت میں باقی نظام کام نہیں کر رہے وہاں یہ نظام بھی ٹھیک کام نہیں کر رہا۔ اٹھارویں ترمیم کے بعد یہ کام اب صوبائی حکومتوں کا ہو گیا ہے۔

وفاقی حکومت کا اس ضمن میں عمل دخل کم رہ گیا ہے۔ شاید شروع میں حکومت کو اس کام کی اہمیت کا اندازہ نہیں تھا لیکن اب پنجاب حکومت کو اس کام کی اہمیت اندازہ ہو گیا ہے۔ اسی لیے مہنگائی کی روک تھام کے لیے ایک ٹاسک فورس قائم کر دی گئی ہے۔ مشیر وزیر اعلیٰ پنجاب اکرم چوہدری کو اس ٹاسک فورس کا چیئرمین مقرر کیا گیا ہے۔ تا ہم یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ ابھی تک اس ٹاسک فورس کے وہ نتائج سامنے نہیں آئے ہیں جن کی ضرورت ہے۔

دنیا بھر میں تہواروں کے موقعے پر قیمتیں کم ہوتی ہیں۔ لیکن پاکستان میں مذہبی تہواروں پر مہنگائی کا طوفان آجاتا ہے۔ رمضان میں جب مسلمان روزے رکھتے ہیں اشیا ضرورت کی قیمتیں آسمان پر چڑھ جاتی ہیں۔ ان قیمتوں کو کنٹرول میں رکھنے کے لیے حکومتیں ہر سال پنجاب، سندھ اور دیگر صوبوں میں رمضان بازار لگاتی ہے۔ جب پنجاب میں قیمتیں بڑھ جاتی ہیں تو خود بخود باقی صوبوں میں بھی قیمتیں بڑھ جاتی ہیں۔ اس لیے اگر پنجاب میں قیمتوں کنٹرول کر لیا جائے تو باقی صوبوں میں بھی قیمتیں کنٹرول ہوجائیں۔ بہر حال اس بار رمضا ن کے لیے پنجاب حکومت کو ایک مربوط پلان بنانے کی ضرورت ہے۔

اس ضمن میں جب میری مہنگائی کے حوالے سے بنائی جانے والی ٹاسک فورس کے چئیر مین اکرم چوہدری سے بات ہوئی تو انھوں نے کہا کہ میں رمضان بازاروں کے حق میں نہیں ہوں۔ ہمیں نے اکرم چوہدری سے کہا کہ اگر رمضان بازار نہیں لگانے تو پھر آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ رمضان پیکیج کی کوئی ضرورت نہیں۔ لیکن ان کا خیال ہے کہ ان بازاروں سے غریبوں کا بہت کم فائدہ ہوتا ہے۔ بلکہ سبسڈی ضایع ہو جاتی ہے۔ اس لیے حکومت کو ایک رمضان پیکیج بنانا چاہیے۔ جس میں بیس کلو آٹا، دس کلو چاول، پانچ کلو چینی، پانچ کلو گھی، دالیں اور دیگر اشیا ضرورت شامل ہوں۔ یہ پیکیج غریبوں میں مفت دیا جائے تا کہ وہ رمضان میں آرام سے روزے رکھ سکیں۔ حکومت کو غریبوں کو رمضان میں ایک ماہ کا مفت راشن دینا چاہیے۔ اس راشن دینے سے نہ صرف سبسڈی صحیح جگہ پہنچ جائے گی اور غریب کا فائدہ بھی ہوگا۔

میں نے  پوچھا کہ یہ کون طے کرے گا کہ کن غریبوں کو یہ رمضان پیکیج ملے گا ۔ ایک لوٹ سیل نہیں لگ جائے گی۔ سیاسی لوگ اپنے کارکنوں میں یہ پیکیج تقسیم کرنے کی کوشش کریں گے۔ انھوں نے کہا، اس ضمن میں باقاعدہ اصول بنائے جا سکتے ہیں۔ پنجاب میں بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام سے رہنمائی لی جا سکتی ہے۔ جن کو بی آئی ایس پی سے مدد مل رہی ہے۔ ان کو یہ رمضان پیکیج دیا جا سکتا ہے۔ اسی طرح بیت المال اور محکمہ زکو ۃ سے بھی مدد لی جا سکتی ہے۔ وہاں سے ایسا ڈیٹا مل سکتا ہے جس سے یہ طے کیا جا سکتا ہے کہ کن کو یہ پیکیج ملنا چاہیے۔

میں سمجھتا ہوں کہ یہ ا چھی تجویز ہے۔ اس سے تبدیلی بھی نظر آئے گی اور شاید غریب تک پہنچنے میں مدد بھی ملے گی۔میں اکرم چوہدری کے اس موقف سے متفق ہوں کہ آج تک رمضان بازاروں کا کوئی خاص فائدہ نہیں ہو ا ہے۔ اس ضمن میں ایک نئی حکمت عملی کی ضرورت ہے۔ بہر حال جہاں رمضان پیکیج کو غریبوں تک پہنچانے کی ضرورت ہے وہاں مڈل کلاس کو بھی کنٹرول ریٹ پر اشیا ضرورت کی فراہمی حکومت کا کام ہے۔ ویسے تو یہ کام پورا سال ہونا چاہیے لیکن رمضان میں اس ضمن میں ذمے داری بڑھ جاتی ہے۔ ویسے تو پرائس کنٹرول کمیٹیاں موجود ہیں۔ پرائس کنٹرول مجسٹریٹ بھی موجود ہیں۔

لیکن پھر بھی کنٹرول نہیں ہے۔ ہر دکا ن کی اپنی قیمت ہے۔ ایک چیز ایک جگہ کسی ایک قیمت پر اور دوسری جگہ پر دوسری قیمت پر بکتی ہے۔ رمضان میں بالخصوص پھل کی قیمتوں میں اضافہ ایک منفی رحجان ہے۔ جس کا آج تک کوئی حل نہیں ڈھونڈا جا سکا۔ ماضی کی حکومتوں کے رمضان پیکیج اور دیگر تمام اقدامات رمضان میں پھلوں کی قیمتوں کو کنٹرول نہیں کر سکے۔ اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ رمضان میں ملک بھر میں فروٹ اور دیگر کھانے پینے کی چیزوں کی قیمتوں میں اضافے کو روکنا ہی اس اصل حکومت کا اصل کام ہے۔

اکرم چوہدری نے بتا یا ہے کہ وہ اس ضمن میں تاجروں سے رابطہ میں ہیں۔ حکومت نے انھیں جس ٹاسک فورس کا چیئرمین بنایا ہے اسے بھی فعال بنایا جا رہا ہے تا کہ مہنگائی کو کنٹرول کیا جا سکے۔ کہیں نہ کہیں اکرم چوہدری  بھی اب تک کی کارکردگی سے مطئمن نہیں ہیں۔ ان کا موقف ہے کہ لاہور میں وہ نتائج سامنے نہیں آرہے جب کہ باقی پنجاب سے بہتر نتائج سامنے آرہے ہیں۔

ان کے خیال میں باقی پنجاب میں صورتحال لاہور سے بہتر ہے۔ بہر حال حقیقت یہ ہے کہ اب تک حکومت سرکاری نرخوں کا نفاذ نہیں کرا سکی ہے۔ سرکاری نرخوں کا اعلان تو کر دیا جاتا ہے لیکن ان پر عمل نہیں ہوتا۔ کم درجہ کے گلے سڑے پھل سرکاری نرخ پر بیچے جاتے ہیں اور اچھے پھل کی قیمت آسمانوں پر پہنچ جاتی ہے۔ اگر اکرم چوہدری اس بار رمضان میں اشیا ضرورت کی قیمتیں کنٹرول کرنے میں کامیاب ہوگئے تو ان کو سیاسی طور پر فائدہ ہوگا بلکہ تحریک انصاف کے گرتے گراف کو بھی مدد ملے گی۔ ابھی تک مہنگائی کی وجہ سے لوگوں میں تبدیلی کے حوالے سے ایک ناامیدی پھیل رہی ہے۔ کم از کم اس غیر ضروری مہنگائی کو روک کر اسے روکا جا سکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔