امن و عافیت کا تقاضہ

شکیل فاروقی  منگل 19 مارچ 2019
S_afarooqi@yahoo.com

[email protected]

افغانستان کو گزشتہ تقریباً چالیس سال کے طویل عرصے سے جنگ اور خانہ جنگی کے باعث مسلسل قیامت خیز تباہ کاریوں کا عذاب جھیلنا پڑ رہا ہے۔ ان چالیس برسوں میں سوویت جارحیت کے علاوہ بیس سالہ امریکی جارحیت بھی شامل ہے۔ امریکی جارحیت نے نہ صرف افغانستان میں تباہی و بربادی کا بازار گرم کیا ہے بلکہ ’’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘‘ کے عنوان سے اس کا دائرہ دیگر مسلم ممالک تک وسیع کردیا ہے، جس کی لپیٹ میں پاکستان ہی نہیں عراق اور شام بھی آگئے۔

سوویت یونین کا شیرازہ بکھرنے کے نتیجے میں دنیا یک قطبی ہوگئی اور امریکا واحد عالمی سپرپاور بن گیا۔ طاقت کے نشے میں چور امریکا اس عدم توازن کے باعث عالمی ٹھیکیدار بن گیا۔ ’’ بندر کے ہاتھ ہلدی کی گانٹھ کیا آئی کہ وہ پنساری بن بیٹھا‘‘ والی کہاوت صادق آگئی ۔ دنیا کی واحد سپر پاور بن جانے کے زعم میں امریکا یہ بھی بھول گیا کہ ویت نام کی جنگ میں بھی اسے عبرت ناک شکست ہوئی تھی اور انجام کار وہاں سے اسے بے آبرو ہوکر اپنا بستر بوریا لپیٹ کر نکلنا پڑا تھا ۔ بقول شاعر:

نکلنا خلد سے آدم کا سنتے آئے تھے لیکن

بہت بے آبرو ہو کر ترے کوچے سے ہم نکلے

امریکا افغانستان میں تاریخ کی مہنگی اور خوفناک ترین جنگ لڑ رہا ہے۔ اس جنگ میں اس نے ایڑی چوٹی کا زور لگا رکھا ہے لیکن اس کے باوجود ذلت اور ناکامی اس کا مقدر بنی ہوئی ہے اور اس کی فتح کے دور دور تک کوئی آثار دکھائی نہیں دے رہے۔ افغانستان جسے امریکا نے تر نوالہ سمجھا تھا ، اب اس کے گلے میں پھنسی ہوئی ہڈی بن گیا ہے۔ اس جنگ نے امریکی معیشت کی چولیں ہلا کر رکھ دی ہیں اور اب مزید بوجھ برداشت کرنا اس کے بس سے باہر ہوتا ہوا نظر آرہا ہے۔ امریکا اب اس نتیجے پر پہنچ چکا ہے کہ افغانستان کو محض طاقت کے بل بوتے پر زیر نگیں کرنا ممکن نہیں۔ بہتر یہی ہے کہ اس جنگ سے باعزت چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے کوئی راہ تلاش کی جائے۔

دوسری جانب مد مقابل نے بھی اس حقیقت کا احساس کرلیا ہے کہ وحشیانہ امریکی جارحیت سے سب سے زیادہ نقصان افغان عوام کا ہوا ہے۔ لاکھوں افغان عوام امریکی جارحیت کی چکی میں پس چکے ہیں جن میں لاتعداد معذور مرد اور خواتین کے علاوہ بوڑھے، بچے اور نوجوان شامل ہیں ۔ بے شمار ہنستے بستے گھر اجڑ کر کھنڈر بن گئے اور افغان معاشرہ بے خانماں یتیموں اور بے آسرا بیواؤں کا مجموعہ بن گیا۔ تباہ کن طویل جنگ نے افغانی عوام کو ناقابل بیان اور ناقابل تلافی نقصان سے دوچار کردیا ہے۔ خدانخواستہ اگر جنگ نے مزید طول پکڑا تو افغان عوام کو مزید تباہی و بربادی کے سوائے کچھ بھی حاصل نہ ہوگا اور ان کی آیندہ نسلیں اس کی متحمل نہ ہوسکیں گی۔

دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ جنگ کسی بھی مسئلے کا حل نہیں ہے بلکہ اس سے مزید مسائل جنم لیتے ہیں۔ تاریخ سے حاصل ہونے والے سبق کے نتیجے میں افغان جنگ کے بنیادی فریقوں، امریکا اور افغان طالبان کو مذاکرات کی میز پر لا کر بٹھا دیا ہے جس کے بعد  فریقین کے درمیان مذاکرات کا سلسلہ جاری ہے۔ متحارب فریقوں کے ان مذاکرات پر پوری دنیا کی نگاہیں مرکوز ہیں۔ پہلے مرحلے میں یہ مذاکرات دوحہ، پھر دبئی اور اس کے بعد پھر دوحہ میں ہوئے۔ عالمی ذرایع ابلاغ کے توسط سے ان مذاکرات کے حوالے سے موصولہ اطلاعات حوصلہ افزا اور امید افزا محسوس ہو رہی ہیں۔اگرچہ پاکستان اور افغانستان کے عوام مذہب اور ثقافت کے اٹوٹ بندھنوں میں ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں لیکن اس کے باوجود دونوں ممالک کے درمیان اختلافات کی ایک خلیج حائل رہی ہے۔

ماسوائے اس مختصر عرصے کے جب افغانستان میں طالبان کی حکمرانی قائم تھی۔ اس کا سب سے بڑا اور بنیادی سبب یہ ہے کہ وہاں زیادہ تر بیرونی طاقتوں کے کٹھ پتلی حکمران اقتدار پر قابض رہے جو ان قوتوں کے اشاروں پر ناچتے رہے۔ قیام پاکستان کے وقت افغانستان سوویت بلاک کے زیر اثر تھا جس کے ساتھ پاکستان کے ازلی دشمن بھارت کے بڑے گہرے تعلقات تھے۔ چنانچہ افغان حکمرانوں نے پاکستان کے معرض وجود میں آجانے کو فوراً تسلیم ہی نہیں کیا۔ برسبیل تذکرہ عرض ہے کہ ہماری آنکھوں میں وہ منظر آج تک محفوظ ہے جب افغانستان کے کٹھ پتلی حکمران سردار داؤد اور نعیم بھارت کے وزیر اعظم پنڈت جواہر لعل نہرو کے ساتھ دلی کے رام لیلا گراؤنڈ میں بغل گیر ہو رہے تھے۔

آج جب افغانستان پر امریکا کے کٹھ پتلی حکمرانوں کا راج ہے تو بھارت پینترا بدل کر ان کے ساتھ ساز باز کرکے پاکستان مخالف جذبات بھڑکا رہا ہے۔ یاد رہے کہ ماضی بعید میں پاکستان مخالف پختونستان لابی کی پشت پناہی بھی پاکستان کے ازلی دشمن بھارت نے ہی کی تھی۔ کون نہیں جانتا کہ بلوچستان کے شورش پسند عناصر کی پشت پر بھی بھارت نے ہی ہاتھ رکھا ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم کی بدولت پاکستان پر جو ایک مملکت خداداد ہے کوئی آنچ نہیں آسکتی۔ بقول شاعر:

مدعی لاکھ برا چاہے تو کیا ہوتا ہے

وہی ہوتا ہے جو منظور خدا ہوتا ہے

افغان عوام پر یہ بات آشکار ہے کہ پاکستان اور اس کے عوام ان کے خیر خواہ اور مخلص دوست ہیں اور مشکل کی ہر گھڑی میں انھوں نے ان کا ہمیشہ بھرپور ساتھ دیا ہے۔ لاکھوں افغان پناہ گزینوں کا بوجھ اٹھا کر پاکستان اور اس کے عوام نے یہ بات عملاً ثابت کردی ہے۔

یہ حقیقت بھی ناقابل تردید ہے کہ طالبان اور امریکا کے ساتھ ساتھ افغانستان میں جاری طویل جنگ کی بھاری قیمت پاکستان نے بھی چکائی ہے۔ اس لیے وہ بھی امن مذاکرات کا ایک اہم اسٹیک ہولڈر ہے۔ ان مذاکرات کی راہ ہموار کرنے میں بھی پاکستان نے اہم کردار ادا کیا ہے جس سے انکار کرنا سورج پر پردہ ڈال کر اسے چھپانے کی مضحکہ خیز کوشش کے مترادف ہوگا۔ اس لیے امریکا اور طالبان کو نہ صرف مذاکرات کے دوران پاکستان کی تجاویز اور مفادات کو بھی پیش نظر رکھنا ہوگا بلکہ حتمی معاہدے سے پہلے بھی پاکستان کو پوری طرح اعتماد میں لینا ہوگا۔ اگر خدانخواستہ ایسا نہیں کیا گیا تو اس کے نتائج موثر اور دیرپا نہ ہوں گے۔

جو شاخ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپائیدار ہوگا

فریقین کو یہ جان لینا چاہیے کہ یہ نادر موقع دوبارہ میسر نہیں آئے گا۔ اس لیے اسے ضایع نہ کیا جائے اور ہٹ دھرمی کے بجائے افہام و تفہیم کا مظاہرہ کیا جائے۔ امن و عافیت کا تقاضا بھی یہی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔