بچپن میں مویشی چَرائے اور کاشت کاری کی محمد پناہ بلوچ

عارف محمود / نسیم جیمز  منگل 19 مارچ 2019
جب بھی پریشان ہوتا ہوں تو کاغذ، قلم اٹھا لیتاہوں جوائنٹ سیکریٹری ’بلوچی اکیڈمی‘ سے ملاقات۔ فوٹو: فائل

جب بھی پریشان ہوتا ہوں تو کاغذ، قلم اٹھا لیتاہوں جوائنٹ سیکریٹری ’بلوچی اکیڈمی‘ سے ملاقات۔ فوٹو: فائل

’ادب وہ ہنر ہے، جس میں انسان اپنے جذبات احساسات اور تصورات کو خوب صورت الفاظ کا روپ دے کر موتیوں کی ایک لڑی میں پرو دیتا ہے۔

جدید بلوچی ادب کے سفر پر نظر ڈالنے سے قبل ہمیں بلوچوں کے حسب نسب اور ادبی پس منظر پر نظر ڈالنے کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ بلوچی ادب کے بارے میں جاننے کے لیے ہم ایک ماحول بنا سکیں۔‘ یہ خیالات نوجوان ادیب محقق محمد پناہ بلوچ کے ہیں، جو اس وقت بلوچی اکیڈمی کے جوائنٹ سیکریٹری ہیں۔

وہ 1971ء میں بلوچستان کے ضلع بولان کے علاقے کچھی میں پیدا ہوئے ان کے والدین بعض قبائلی مسائل کی وجہ سے سوما پور جیکب آباد سندھ منتقل ہو گئے، انہوں نے ابتدائی تعلیم بھی وہیں سے حاصل کی۔ اس کے بعد بلوچستان کے علاقے ڈیرہ مراد جمالی میٹرک، اوستہ محمد سے انٹر کیا اور پھر بلوچستان یونیورسٹی سے شعبہ صحافت میں 1995ء میں ایم اے کیا۔

اس دوران اخبارات میں بلوچستان کے مختلف سماجی سیاسی مسائل پر لکھنا شروع کیا، پھر پرویز مشرف دور میں ڈیرہ مراد جمالی میں یوسی ناظم بن گئے۔ 2009ء سے پاکستان زرعی ریسرچ ڈیپارٹمنٹ ایڈمن آفیسر کی حیثیت سے ملازمت اختیار کی اور وہیں کام کر رہے ہیں۔ زمانہ طالب علمی سے ہی بلوچی اکیڈمی سے وابستہ ہوگئے تھے، ان کا کہنا تھا کہ ادب کے شعبے میں کام کرنا چاہتا تھا۔ دادی اور اماں کی سنی ہوئی کہانیاں بلوچوں کے تاریخی واقعات شاعری کی شکل میں سنے، تو شوق پیدا ہوا کہ سینہ بہ سینہ چلنے والی ان چیزوں کو باقاعدہ طور پر عام لوگوں تک پہنچایا جائے۔

پناہ بلوچ کہتے ہیں کہ بلوچستان کی سرزمین تہذیبوں کی امام کہلاتی ہے۔ مہر گڑھ سے کونے کونے تک ہزارہا سال کی بکھری ہوئی تاریخ ہے، جب ہم قدیم کتابوں، نوشتوں کو دیکھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ بلوچوں کے روشن خیال کو مسخ کر کے پیش کیا گیا۔ میں نے بلوچی اکیڈیمی کے پلیٹ فارم سے مختلف تحقیقی رسائل میں مقالے لکھے اور بلوچ ثقافت میں روشن خیالی خواتین کے ساتھ رویے، خواتین کے تاریخی کردار کو اجاگر کرنے کی کوشش کی۔

2012ء میں پہلی کتاب بلوچی زبان  میں ’بولان تھنگ‘ لکھی، جس میں درہ بولان کی تاریخ اس کے پہاڑ اور چوٹیاں، زیارات، ریلوے لائن، مچھ جیل، یہاں تک کہ درہ بولان کے درخت جھاڑیوں تک کے حوالے سے لکھا گیا ہے۔ اس کتاب کو ’اکادمی ادبیات‘ کی طرف سے بہترین بلوچی کتاب کا ایوارڈ دیا گیا۔ اسی طرح حکومت بلوچستان کی جانب سے بھی بہترین تحقیقی کتاب کا ایوارڈ دیا گیا۔ اس کے بعد ایک اردو میں کتاب، بلوچی ادب، ایک تاریخ ایک تسلسل 2016ء میں چھپی، جس میں بلوچی ادب میں نثر نگاری شاعری اور لوک ادب کی اصناف اور تاریخ وضع کی گئی۔

اس کتاب میں بلوچی ادب کے فروغ کے لیے  ادبی اداروں سے رجوع کیا گیا۔ 2016ء حکومت بلوچستان کی جانب سے اس کتاب کو علامہ اقبال ایوارڈ دیا گیا، لاحوت یامکان، تیسری کتاب سیہون شریف سے بلوچستان کا 200 کلو میٹر سفر بنتا ہے، سیہون شریف کے میلے کے بعد لوگ ٹولیوں کی شکل میں لاحوت پہنچتے ہیں، اسے لاحوتی کہا جاتا ہے، اس کتاب میں سیہون شریف سے لاحوت تک جو مقامات ہیں، ان کی تاریخی ثقافتی مذہبی رسومات کو اجاگر کیا گیا۔ یہ کتاب 2017ء میں لوک ورثہ اسلام آباد نے شائع کی۔ اس سے قبل 2016ء میں تربت میں ثقافتی میلے کے سلسلے میں دو روزہ سیمینار بعنوان کیچ، ماضی حال اور مستقبل کے تحت منعقد کیا جس میں ملک بھر کی نام وَر شخصیات نے شرکت کی۔

ان کا کہنا ہے کہ موجودہ دور میں اس طرح کی تقریبات کی اشد ضرورت ہے جس سے ہمارے ملک کے دانش وَروں بلوچستان کے ادیبوں اور یونیورسٹیوں کے طلبا وطالبات کے درمیان روابط پیداہوتے ہیں۔ موجودہ حالات میں بلوچستان کی ثقافت کو اجاگرکرنا بہت ضروری  ہے۔ ہماری نئی نسل جس نے عالم گیریت کے یلغار میں اپنے وجود ثقافت اور تشخص کو قائم رکھنے کا فریضہ انجام دینا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ ’راستوکہیک‘ حقائق پر مبنی براہوی کی کتاب ’براہوی ادبی سوسائٹی‘ کی جانب سے 2017ء میں شائع ہوئی۔ اس کتاب میں بھی بلوچستان کی تاریخ ثقافت اور بلوچستان کے لوگوں کے بارے میں مضامین شامل کیے گئے ہیں۔ 2018ء میں بلوچی اکیڈمی کی جانب سے بلوچستان میں جانوروں کی نسلوں کے بارے میں بلوچی میں کتاب تحریر کی۔

اس میں بلوچی تھریم ڈائینوسار کے بلوچستان میں موجودگی کے آثار بلوچستان میں اونٹوں، بیلوں، گائے، گھوڑوں، بھیڑ بکریوں کی تاریخ اور موجودہ صورت حال بیان کی گئی ہے۔

اس کے علاوہ تین کتابیں اشاعت کے لیے تیار ہیں۔ ایک رموزعشق درگاہ فتح پور کے صوفیا کے اردوکلام پر مشتمل ہے، جو 1840ء تا 1980ء کے صوفیا کے اشعار پر مشتمل ہے۔ اسی طرح بلوچی اور براہوی شاعری کوگفتار فتح پور کے نام سے مرتب کر دیا ہے۔ ایک اور اردوکتاب، بلوچ خواتین کا تاریخی کردار اور اس میں 16ویں صدی سے 20 ویں صدی تک چند نامی گرامی خواتین جنہوں نے مختلف جنگی محاذوں پر کام کیا اورحکومت سے بات چیت کے ذریعے خواتین کے حقوق کے لیے گفتگو کے ذریعے سفارت کاری کے فرائض انجام دیے ہیں۔ ان تمام پہلوؤں کو اجاگر کر کے لوگوں کو پیغام پہنچانے کی کوشش کر رہا ہوں، جب کہ ایک بلوچی، سندھی، اردو اور انگریزی کی جامع لغت مرتب کر رہا ہوں۔

محمد پناہ بلوچ نے2018ء کو نصیرآباد کے علاقے ڈیرہ مراد جمالی میں ادبی میلے کا انعقاد کرایا، جو بقول ان کے بلوچستان میں اپنی نوعیت کا پہلا میلہ تھا، جو دو دن چلا جس میں چھ لیٹریسی سیشن منعقد ہوئے پہلے کی اختتامی تقریب میں ملک بھر سے ادیب شاعر اور دانش وَر شریک ہوئے۔

انہوں نے مشرقی بلوچستان میں پہلی مرتبہ بلوچی کتاب میلہ منعقد کرایا، جس میں 35 کے قریب مختلف موضوعات پر مقالے پیش کیے گئے۔ ان کا کہنا ہے کہ میں یکم اگست 2010ء سے 13 اگست 2013ء تک بلوچی اکیڈمی کا جوائنٹ سیکرٹری پھر 4 اگست 2013ء سے 6 اگست 2016ء تک بلوچی اکیڈمی کا جنرل سیکرٹری اور 7 اگست تاحال جوائنٹ سیکرٹری کے فرائض انجام دے رہا ہوں۔ میں نے بین الاقومی اور قومی کانفرنس میں مقالے بھی پیش کیے۔ میں نے بچپن میں مال مویشی بھی چرائے، کاشت کاری بھی کی۔ معاشی حالات ٹھیک نہیں تھے۔

بچپن میں کھیلنے کا موقع بہت کم ملا اس وقت ریڈیو کے پروگرام سنتا۔ موسیقی میں بلوچ ثقافت کے ساتھ ساتھ لطیف سرمچل، بھلے شاہ، وارث شاہ، میاں محمد بخش کے کلام کو شوق سے سنتا ہوں۔ لتا، رفیع، کشور، مہدی حسن کے گانے بلوچستان کی موسیقی میں مریدی، مراد پارکوئی، اختر چنال اور نوراحمد نورل کو بڑے شوق سے سنتا ہوں۔ صوفیانہ کلام مٹی سے  جڑا ہوا ہے اور یہ لوگوں کے اندر کی آواز ہے اور آفاقی پیغام ہے یہ صوفی ہی  ہیں جن کی وجہ سے سی پنوں کی داستان ہے۔

محمد پناہ بلوچ نے دو شادیاں کیں، پانچ بیٹے اور پانچ بیٹیاں ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ بچوں کو اب وقت نہیں دے پا رہا، لیکن لکھنے لکھانے کا کام ان کے سنگ ہی کرتا ہوں۔ کام کرنے سے کبھی نہیں تھکتا، جب پریشان ہوتا ہوں تو قلم کاغذ اٹھا لیتاہوں۔ میں ایک محقق کی حیثیت سے بلوچی زبان تاریخ اور ادب کے فروغ اور 80 فی صد لوگوں کے حقیقی مسائل کو اجاگر کرتا ہوں۔ بلوچی ادب میں افسانہ نگاری، ناول نگاری ڈراما، انشائیہ، مزاح، تنقید ودیگر اصناف پر نصف صدی سے کام جاری ہے۔ نوجوان کتابوں کی طرف راغب ہوں، تاکہ  اپنی تاریخ اور روایات کو جان سکیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔