آخری فائدہ

ذیشان الحسن عثمانی  بدھ 20 مارچ 2019
وہ شہ رگ سے قریب ہے اور کل جہاں سے بے نیاز۔ اس سے باتیں کریں۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

وہ شہ رگ سے قریب ہے اور کل جہاں سے بے نیاز۔ اس سے باتیں کریں۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

دنیا میں تین طرح کے لوگ بستے ہیں۔ ایک وہ، جو فائدہ لیتے ہیں (نفع خور) اور ان کی اکثریت ہے۔ دوسرے جو نفع دیتے ہیں (نفع بخش) اور یہ تھوڑے ہیں۔ تیسرے وہ، جنہیں حالات کے جبر نے اس قابل ہی نہیں چھوڑا کہ کسی کو کچھ دے سکیں اور شرافت نے کچھ لینے سے روکے رکھا۔

نفع خور ہر وقت اپنے آپ کو ہر چیز کا مستحق گردانتے ہیں۔ ان کی entitlement کی فہرست لامتناہی ہوتی ہے۔ کھانا انہیں اچھا ملنا چاہیے، تنخواہ ان کی شاندار ہو، سب ان کی عزت کریں، بات ان کی سب سے بھاری، آن، بان، شان، گھر، گاڑی، اولاد، شجرہ نسب اور اہلیت و سند سب ان کی اونچی۔ پتا نہیں اتنی زیادہ بڑائیوں کے بعد سجدہ بھی شاید اپنے آپ ہی کو کرتے ہیں کہ دیکھو میں کتنا نیک ہوں۔ یہ لوگ و مکروا مکراً کبّارا کے مصداق روز نت نئی چالیں چلتے ہیں تاکہ ان کی بزرگی کا سامان مہیا ہو۔

دوسری قسم کے لوگ ہمہ وقت اس کوشش میں لگے ہوتے ہیں کہ ان کی ذات سے کسی کو نفع کیسے پہنچ سکتا ہے اور حتیٰ الامکان کوشش کرتے ہیں کہ کسی کو ان سے تکلیف نہ پہنچے۔

تیسری قسم کے لوگ شاید باقی دونوں کی آزمائش کےلیے بنائے گئے ہیں۔ انہیں زمانے کی ستم ظریفی نے اس حال میں پہنچادیا ہوتا ہے کہ یہ کسی کو زیادہ مدد نہیں دے سکتے (دعا کی کوئی قیمت تو ہے نہیں ناں آج کل)، اور خودداری یا خودشناسی انہیں کچھ مانگنے سے روکے رکھتی ہے۔

ہم میں سے ہر ایک عموماً نفع خور ہی ہوتا ہے۔ نفع بخش تو ہم کبھی ہوئے ہی نہیں۔ مگر قدرت کو کوئی نہ کوئی بہانہ چاہیے ہوتا ہے شاید ہمیں نوازنے یا آزمانے کا۔ تو کوئی ایک آدھ کام ہمارے واسطے رکھ چھوڑا ہوتا ہے کہ بندہ یہ کرتا رہے تو زندگی کا سلسلہ چلتا رہے اور ایسے میں وہ تیسری قسم کے کسی فرد کے ساتھ جوڑ دیتا ہے۔ میرا دوست عبداللہ کہتا ہے کہ میرے مال میں جتنی برکت آئی وہ قرض دینے سے آئی۔

آپ یوں سمجھ لیں کہ ڈاکیے کی جاب ہے، آپ کا کام ڈاک وصول کرکے آگے پہنچانا ہے۔ کیا آیا؟ کیوں آیا؟ کس کےلیے آیا؟ کہاں سے آیا؟ کتنا آیا؟ یہ جاننا آپ کا کام نہیں۔ آپ بس ان لوگوں کی خدمت کرتے رہیں۔ سوال پوچھنا تو عشق کی توہین ہے۔ سوال وہاں پوچھتے ہیں جہاں اعتبار نہ ہو، اور جہاں اعتبار نہ ہو وہاں عشق کا کیا کام؟

غور سے سوچئے کہ کتنے ہی ایسے لوگ آپ کے حلقہ احباب میں ہوں گے جن سے آپ کا صرف ایک فائدے کا تعلق ہوگا۔ وہ آپ کا آخری فائدہ ہوتا ہے۔ آپ کسی کا بجلی کا بل بھر دیتے ہیں، کسی کے موبائل فون کا ریچارج کروادیتے ہیں، کسی کی اسکول کی فیس، کسی کی دوا، کسی کو کچھ پڑھا دیا، کسی کو کچھ سمجھادیا، کسی کو کوئی مشورہ دے دیا تو کسی کا فقط حوصلہ بڑھا دیا۔ اور کچھ نہیں تو ایک آدھ مہینے میں فون کرکے پوچھ لیا کہ آپ کیسے ہیں؟ اس بات کا خصوصی خیال رکھیں کہ یہ آخری فائدہ چھٹنے نہ پائے۔ کم ظرفی کی نشانی ہے کہ ذرا سی بات پر آپ کسی کو اس کے آخری فائدے سے محروم کردیں۔ آپ کو پیسے دینے ہیں؟ وقت پر دے دیں، یہ دیکھے بغیر کہ اس کا رویہ کیا ہے۔ کسی کو محروم نہ کریں۔ پتا نہیں کب کس کے نصیب سے کون پا رہا ہوتا ہے۔ پیاسوں پر پانی بند کردینے سے کنواں سوکھ جاتا ہے۔

آپ سے کچھ عرض کروں؟ سجدہ صرف خدا کےلیے، بالکل اسی طرح رونا دھونا، شکوے شکایتیں لوگوں کی، رویوں کی، سب اس کے گوش گزار کردیں۔ مخلوق سے نہ الجھیں۔ قرب و دوری صرف ہمارے لیے ہے،اس کےلیے کیا قرب اور کیا دوری۔ وہ شہ رگ سے قریب ہے اور کل جہاں سے بے نیاز۔ اس سے باتیں کریں۔ وہ ایسا رنگریز ہے کہ آپ کو ہر صبح نیا اور ہر شام نیا رنگ دے گا۔ جس کی حیرت رنگی جائے اسے کیا پرواہ کوئی کیا کہتا پھرے۔ ہاں! یہ خیال رہے ادب نہ چھوٹے، نہ مالک کا، نہ مخلوق کا۔

آپ سے ایک دل کی بات کہوں؟ الله اگر ناراض ہوجائے تو بندہ کہیں کا نہیں رہتا، اور الله اگر راضی ہوجائے تو بھی بندہ کہیں کا نہیں رہتا۔

ایسے لوگوں کو تنگ نہ کریں جو کہیں کے نہ رہیں۔ جب دنیا چاروں طرف سے مار، مار کر کسی کو کارنر کردیتی ہے تو مالک کی رحمت کا ہاتھ اس کے سینے پر آ پڑتا ہے۔ اب لڑ لے جس نے لڑنا ہے۔ غلط صحیح سے کیا ہوتا ہے؟ یہ دیکھیں وہ کس کی سائیڈ پر ہے۔

گناہوں کی حد کے پار جو سرحد ہے وہاں سے اس کا فضل شروع ہوتا ہے۔ آخری فائدہ جاری رکھیں، زندگی چلتی رہے گی، کسی اور کے صدقے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ڈاکٹر ذیشان الحسن عثمانی

ذیشان الحسن عثمانی

ڈاکٹر ذیشان الحسن عثمانی فل برائٹ فیلو اور آئزن ہاور فیلو ہیں۔ ان کی تصانیف http://gufhtugu.com/authors/zeeshan-ul-hassan-usmani/ سے حاصل کی جاسکتی ہیں۔ وہ کمپیوٹر سائنس، مصنوعی ذہانت، ڈیٹا سائنس اور معاشرتی موضوعات پر باقاعدگی سے لکھتے ہیں۔ آج کل برکلے کیلی فورنیا، امریکہ میں ایک فرم میں چیف ٹیکنالوجی آفیسر ہیں۔ آپ ان سے [email protected] پر رابطہ کر سکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔