عمران خان کی مشکلات !

علی احمد ڈھلوں  بدھ 20 مارچ 2019
ali.dhillon@ymail.com

[email protected]

1994ء میں فیفا ورلڈ کپ فٹ بال مقابلے میں ایک بہت بڑا اپ سیٹ ہوا جب کولمبیا کے مشہور کھلاڑی Escobar نے غلطی سے اپنی ہی ٹیم کے خلاف گول کر دیا جس کے نتیجے میں ان کی ٹیم ٹورنا منٹ سے آؤٹ ہو گئی۔ اس واقعے کا افسوسناک انجام ہماری اس تمثیل کا حصہ نہیں مگر یہ تاریخی حقیقت ہے کہ Escobar جب واپس کولمبیا پہنچے تو انھیں گولی مار کر قتل کر دیا گیا۔ہمیں یہ بات آج افسوس سے کہنا پڑ رہی ہے کہ آج عمران خان کی کابینہ اپنے خلاف ہی گول کر تی نظر آرہی ہے۔ پنجاب اور وفاق کے ترجمانوں کے بلنڈر تو اپنی جگہ مگر وزارت خزانہ سے بھی سنگین غلطیاں سر زد ہو رہی ہیں ۔

وزیر خزانہ اسد عمر نے پہلے بیان دیا کہ بہت مہنگائی ہوگی، لوگ بہت چیخیں گے۔ چند روز کے بعد تبدیلی والا بیان جاری کیا۔ فرمایا، سخت دن تو ہوں گے لیکن لوگوں کی چیخیں نہیں نکلیں گی۔ پھر پنجاب اسمبلی میں تنخواہوں میں اضافے کا بل ایک ایسے وقت پر آگیا جب وزیر اعظم عمران خان کفایت شعاری کی پالیسی پر گامزن ہیں۔معذرت کے ساتھ پنجاب اسمبلی کا بل یوں پاس ہوا یا عثمان بزدار نے اس حوالے سے اس قدر پھرتی دکھائی کہ عمران خان کی کم از کم یہ بات تو سچ ثابت ہوئی کہ یہ میرے وسیم اکرم ہیں!

لہٰذا اب کدھر گئے وہ لوگ جو یہ کہتے تھے کہ وزیر اعلیٰ عثمان کو فائل پڑھنی نہیں آتی یا یہ کہ بزدار صاحب کی حدود حکمرانی میں عمران خان کی مرضی کے بغیر پتہ نہیں ہل سکتا۔ عثمان بزدار نے ثابت کر دیا ہے کہ جب وسیع تر ذاتی مفاد کا معاملہ ہو تو وہ وزیر اعظم عمران خان سے کسی ڈکٹیشن کے پابند نہیں ہیں۔ یہ بل پاس کرا کر عثمان بزدار نے وہ کر دکھایا ہے جو حکومت کے خلاف نہ تو نریندر مودی کی جنگ کی دھمکیاں کر سکیں اور نہ ہی ن لیگ اور پیپلز پارٹی دباؤ بڑھانے کی پالیسی کے با وجود حکمران جماعت کو دیوار سے لگا سکے۔

یعنی عثمان بزدار، اسد عمروغیرہ نے کولمبیا کے Escobar کی طرح اپنی ہی ٹیم کے خلاف گول کر دیا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان سن کر حیرت زدہ ہیں بڑھتی ہوئی قیمتوں اور ٹیکسوں کے ہاتھوں جاں یہ لب عوام کو کوئی ریلیف دینے کے بجائے ان کی پیاری حکومت نے موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی تنخواہیں اور مراعات خود ہی ڈیڑھ گنا بڑھا لیں، ڈھٹائی کا یہ عالم ہے کہ میڈیا جس ممبر سے سوال کرتا ہے وہ آگے سے غصے سے لال پیلا ہوجاتے ہیں اور بڑے غصے سے جواب دیتے ہیں کہ ہم نے کیا غلط کیا ہے۔ایسے میں میڈیا، عوام اور ادارے عمران خان کی جانب تبدیلی کی نظر سے دیکھتے ہیں جس سے اُن کی مشکلات کم ہونے کے بجائے اضافہ ہوتا ہے۔

ہوا کچھ یوں کہ ایک مہینہ پہلے اسمبلی ممبران کی تنخواہوں، الاؤنسز میں اضافے پر کام جاری تھا، وہ کچھ یوں تھا، سابق وزیراعلیٰ کو 3گاڑیاں، 10سیکیورٹی گارڈز، 2کلرک، ایک پرسنل سیکریٹری، لاہور میں ایک گھر مع یوٹیلیٹی بلز، علاج کی سہولت، ٹیلی فون بل، دو گاڑیاں، دو ڈرائیور ملیں اور یہ سب عمر بھر کے لیے، یہ تمام سہولتیں عمر بھر ان سابق وزرائے اعلیٰ کو ملیں گی جو کم ازکم 6ماہ وزیراعلیٰ رہے ہوں، یہ ہو گیا، اب مرحلہ تھا وزیراعظم کے کان سے یہ بات گزارنے کا، کہا جاتا ہے کہ جب وزیراعظم لاہور آئے، میٹنگ ختم ہوئی تو اس وقت سرسری انداز میں بات کان س گزار ی گئے ، یار لوگوں نے اسے ہی منظوری قرار دیا۔

اس ’’قانون سازی‘‘سے یہ بات ثابت ہو گئی ہے کہ تحریک انصاف کے اندر تمام معاملات خصوصاً پنجاب پر حکمرانی میں عمران خان سے مائیکرو لیول پر مشاورت نہیں کی جاتی۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ صوبائی اور قومی وزیر اطلاعات دونوں حضرات نے پہلے تو اس ناقابل دفاع فیصلے کا دفاع کیا اور جب بات عمران خان تک پہنچی اور انھوں نے ایک غلط قانون کو روکنے کا کہا تو مذکورہ دونوں وزرائے اطلاعات نے انتہائی ذہانت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایسی فنکارانہ رفو گری کی کہ سب حیران رہ گئے۔

ممبران اسمبلی جواز یہ پیش کرتے ہیں کہ مہنگائی بہت زیادہ ہو گئی ہے 83 ہزار میں گزارا نہیں ہوتا۔چند تو مشکل میں ہیں کہ ہم اپنے محافظوں، مہمانوں اور حلقہ سے آئے ہوئے لوگوں کے اخراجات کہاں سے پورے کریں ۔گویا آپ چاہتے ہیں کہ آپ کے اگلے الیکشن کی راہ ہموار کرنے کے لیے بھی آپ کو سرکاری مال درکار ہے۔ یہ سارے ممبران اسمبلی کروڑوں روپے لگا کر منتخب ہوتے ہیں ، ان میں سے کوئی بھی کرائے کے مکان یا قسطوں کی موٹر سائیکل والا نہیں ہے۔ ان کو یہ بھی پتہ ہے کہ جس پیسے سے انھیں تنخواہ ملتی ہے یہ عوام کا خون نچوڑ کر نکالا جاتاہے لیکن 371 کے ایوان میں کوئی ایک بھی مائی کا لال ایسا نہیں تھا جس نے اس بل کی مخالفت میں ووٹ دیا ہو، سب کے ضمیر اس بات پر شادباد تھے کہ

’’مال مفت مل رہا ہے تو دل بے رحم کیوں نہ ہو‘‘

بہرکیف فیصل واؤڈا ہوں یا گورنر سندھ۔ صدر پاکستان ہوں یا وفاقی وزیر مراد سعید۔ وزیر اعلیٰ پنجاب ہوں یا گورنر پنجاب ۔ بیان بازی، پالیسی، گائیڈ لائن اور حکومتی اقدامات کے حوالے سے کسی قسم کا کنٹرول نہیں دکھائی دے رہا، نا کابینہ ہی اس حوالے سے خاموش دکھائی دے رہی ہے اور نہ ہی پارٹی کے افراد جس کا جو دل چاہتا ہے، وہ بول لیتا ہے، پارٹی کی کوئی پالیسی نظر نہیں آرہی ۔ اکیلے عمران خان ’’ون مین آرمی‘‘ کی شکل میں نظر آرہے  ہیں۔ وہ کچھ کر نا چاہتے ہیں مگر فی الوقت انھیں وہ کامیابی حاصل نہیں ہو پارہی جس کے لیے عوام نے انھیں ووٹ دیا تھا۔ عمران خانFBRکو ٹھیک کرنا چاہ رہے ہیں مگر افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ ٹیکس کولیکشن پہلے سے بھی 232ارب روپے کم ہوئی ہے۔ اگر عوام کی بات کی جائے تو عمران خان کا عوام کے لیے لگایا گیا اندازہ بھی بالکل غلط ثابت ہو رہا ہے۔ نہ اُن کے بانڈز فروخت ہو رہے ہیں، نا بیرون ملک سے امداد آرہی ہے اور نہ کوئی ٹیکس دے رہا ہے۔

ہم عوام کی مثال تو یوں بھی لی جا سکتی ہے ، پہلے زمانے میں بھی ایک بادشاہ گزرا، جسے یقین کی حد تک گمان تھا کہ اس کی رعایا بہت ایماندار اور پارسا ہے۔ بادشاہ کی اس بات سے اس کے وزیر کو اختلاف تھا۔ وہ سمجھتا تھا بادشاہ جیسا سوچتا ہے رعایا ویسی نہیں ہے۔ ایک دن بادشاہ کو جانے کیا سوجھی، اس نے سوچا رعایا کا امتحان لے کر دیکھتے ہیں۔ یہ خیال آتے ہی اس نے اپنے وزیر کو حکم دیا شہر کے بیچ درمیان ایک وسیع و عریض تالاب تعمیر کرائے۔ حکم کی جب تعمیل ہو گئی تو وزیر نے اطلاع دی، حضور تالاب تو بن چکا۔اب کیا حکم ہے؟ بادشاہ نے کہا! شہر میں منادی کرائی جائے کہ آج رات ہر شہری اس تالاب میں ایک گلاس دودھ لا کر ڈالے گا۔

صبح یہ تالاب مجھے دودھ سے بھرا ہوا چاہیے۔ سورج ڈھلا، اندھیرے نے پر پھیلائے تو شہری ایک ایک کر کے گلاس اٹھا کر آتے گئے اور اپنے حصے کا گلاس تالاب میں خالی کر کے واپس لوٹتے گئے۔ غرض رات پوری یہ سلسلہ یونہی چلتا رہا۔ صبح پو پھوٹتے بادشاہ تالاب کی طرف نکلا کہ جا کر دیکھے رعایا نے اس کے حکم پر کتنا عمل کیا۔ جب تالاب کے کنارے پر پہنچ کر اس نے جھانک کر دیکھا تو بہت حیران ہوا کہ تالاب تو سارا پانی سے بھرا ہوا تھا۔ اس کے اعتماد کو بہت دھچکا پہنچا کہ اس کی رعایا ساری بے ایمان نکلی۔ ہر شخص نے یہ سوچا کہ رات کی تاریکی میں مجھے کون دیکھ رہا ہے۔ میں دودھ کے بجائے پانی کا گلاس بھی ڈال دوں تو اتنے بڑے دودھ سے بھرے تالاب کو کیا فرق پڑے گا۔ اسی باعث صبح پانی سے بھرا تالاب بادشاہ کو ملا۔

لہٰذایہ کہنا بجا ہوگا کہ عمران خان صاحب بھی مزاجا بادشاہ آدمی ہیں۔ صرف مزاج ہی نہیں بلکہ ان کے افکار و خیالات بھی شاہانہ ہیں۔ لیلائے اقتدار کے وصال سے قبل ان کی سوچ بھی یہ تھی اور فرمودات بھی۔ کہا کرتے تھے آج تک پاکستانی قوم اس لیے ٹیکس نہیں دیتی رہی کہ انھیں خبر ہے ان کے خون پسینے کی کمائی چند بڑے خاندان ڈکار جائیں گے۔ جس دن ملک کی باگ ڈور کسی ایماندار شخص کے ہاتھ آئی اتنا ٹیکس اکٹھا ہو گا مملکت خداداد کے لیے کاسہ گدائی کی حاجت نہ رہے گی۔حکمرانوں کے اللوں تللوں اور عیاشیوں کے واسطے کون اپنی حلال کمائی دینے کو تیار ہو گا۔

وہ حکومت ملنے کے بعد آٹھ ہزار ارب ٹیکس اکٹھا کر کے دکھائیں گے۔ دو سو ارب ڈالرز کی جائیدادیں کرپشن کے ذریعے ملک سے باہر گزشتہ حکمران اور ان کے کاسہ لیس خرید چکے۔ وہ دنوں میں واگزار ہوں گی اور پیسہ قومی خزانے میں جمع ہو گا۔ سالانہ دس ارب ڈالرز کی منی لانڈرنگ ہوتی ہے اس پر تو پہلے مہینے میں قابو پا لیا جائے گا، ہمارا آدھا بجٹ خسارہ اسی سے پورا ہو سکتا ہے۔ سات آٹھ مہینے ہو چکے۔ آخری بات جو کہی، یہی اگر پوری کر دکھاتے اتنی رقم تو روک سکتے تھے جتنی ’’دوست ممالک‘‘ کے در پر کشکول لے جا کر استعمال نہ کرنے کی یقین دہانی اور ہزار ہا منت ترلوں کے بعد حاصل کی۔

لہٰذاعمران خان کا ’’ہنی مون ‘‘ پیریڈ ختم ہو چکا ہے۔ انھیں اپنی مشکلات کا ازالہ کرنا ہوگا، انھیں ان مشکلات اور مسائل کے حل کا تعین کرنا ہوگا تاکہ ایک ’’مکمل ٹیم ‘‘ کے ساتھ اس ملک کو ترقی کی راہ پر ڈالا جائے ورنہ ایسی صورت حال میں عمران خان کی ٹیم Escobarکی طرح اپنی ہی جانب گول کرتی رہے گی اور عمران خان مسائل کی دلدل میں پھنستے چلے جائیں گے!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔