دل کے خوش رکھنے کوغالبؔ…

سعد اللہ جان برق  بدھ 20 مارچ 2019
barq@email.com

[email protected]

ایسی بہت ساری چیزیں دنیا میں پائی جاتی ہیں جن کی ’’شہرت‘‘ بڑی خراب ہے لیکن اصل میں نہایت ہی اچھی، معصوم اور فائدہ مند ہوتی ہیں۔ ڈریے مت، ہم کرپشن، مک مکا یا لیڈروں کی بات نہیں کر رہے ہیں کیونکہ ان چیزوں کے بارے میں تو اتنی باتیں ہو چکی ہیں، ہو رہی ہیں اور ہوتی رہیں گی کہ وہ ان سے شرمانے لگی ہیں اور ان کو شرم تو……

جیتے ہیں آرزو میں’’مرنے‘‘ کی

موت آتی ہے پر نہیں آتی

بلکہ ہم کچھ اور چیزوں کے بارے میں بتانا چاہتے ہیں جو بری لگتی ہیں لیکن بری ہوتی نہیں ہیں، مثلاً یہ جو غلط فہمیاں، خوش فہمیاں، کم فہمیاں وغیرہ۔ مطلب کہ یہ سارا خاندان ’’فہیماں‘‘ ویسے بری مشہور ہیں، اصل میں ’’بد‘‘ سے بدنام والی بات ہے۔ یہ ’’فہمیاں‘‘ اگر نہ ہوتیں تو انسان اب تک مر چکا ہوتا۔ یا ڈر ڈر کر ’’تھر تھر‘‘ ہو چکا ہوتا اور یا ’’غم‘‘ سے اتنا ’’بھر‘‘ چکا ہوتا کہ ’’سب کچھ‘‘ کر چکا ہوتا یا کچھ بھی نہ کر چکا ہوتا۔ مثلاً ہر کسی کو خاص طور پر پاکستان میں ہر ہر اور پھر ہر ہر کسی کو اپنے بارے میں کوئی  نہ کوئی فہمی لاحق ہوتی ہے ۔کوئی اپنے آپ کو سب سے عقل مند، کوئی دولت مند، فائدہ مند، دانش مند، غیرت مند، عزت مند اور نہ جانے کیا کیا ’’مند‘‘ سمجھتا ہے۔ لیکن یہ ’’مند‘‘ کا لفظ سارا پول کھول اور پھر پول کا ڈھول کر دیتا ہے۔

پڑوسی ملک کی زبان میں ’’مندیدھی‘‘ اس شخص کو کہتے ہیں جس کی ’’بدھی‘‘ بھر شٹ ہو۔ اس طرح ’’مندا‘‘ بازاری مندی کا رجحان یعنی منڈی کی ’’ہر مندی‘‘ کا مطلب’’مندی‘‘ ہی ہوتا ہے۔ اب اگر اس ’’مند‘‘ کو ہر کسی ’’مند‘‘ کے ساتھ لگایا جائے گا تو وہ ’’مند‘‘ ہی ہو گا چاہے وہ لفظ کتنا بڑھیا کیوں نہ ہو۔ عقل، دانش، دولت، علم، شہرت غیرت سب کا بیڑا یہ ’’مند‘‘ غرق کر دیتا ہے لیکن جب بدھی ہی ’’مند‘‘ ہو تو وہ اس ’’مند‘‘ کے ساتھ لگا ہوا ’’الف‘‘ دیکھ ہی نہیں پاتا اور ’’مندا‘‘ کی ’’مند‘‘ سمجھنے کی ’’فہمی‘‘ میں مبتلا ہو کر مندی کرتا رہتا ہے۔

اسی طرح کسی بھی ’’فہمی‘‘ کولے لیجیے اور پھر خاص طور پر اہل پاکستان یہ سب کچھ ’’فہمیوں‘‘ کی برکت ہے کہ ابھی تک جی رہے ہیں کھا پی رہے ہیں اور اپنے لیے ہر خوشی کو ’’خوش‘‘ خوش دیکھ رہے ہیں۔ اس لیے ہم کہنا چاہتے ہیں کہ ’’فہمیوں‘‘ کو برا مت کہو کہ فہمیاں ہی تمہاری سب سے بڑی ’’محسن‘‘ ہیں، ذرا سوچیے اگر کسی کو یہ خوش فہمی نہ ہوتی کہ ہم خدا کے لاڈلے ہیں اگر یہ خوش فہمی نہ ہوتی کہ صرف ’’کلمہ‘‘ پڑھ کر ہم دھنیہ ہو گئے اور باقی کچھ کرنے کی ضرورت نہیں ہے تو کتنی بڑی مشکل ہوتی اس بچارے کو ’’کام‘‘ بھی کرنا پڑتا، رزق حلال کے پیچھے ڈوڑنا پڑتا، بہت ساری’’لذیذ‘‘ چیزوں کوترک کرنا پڑتا اور نہایت ہی مشکل اور جاں جو کھم کے کام کرنا پڑتے۔ کچھ سال بھر پہلے ایک ایسی خاتون فوت ہو گئی جس نے شمالی علاقہ جات میں ’’جزام‘‘ کے مریضوں کے لیے زندگی وقف کی ہوئی تھی۔

مغرب کی رہنے والی ’’میم‘‘ تھی لیکن زندگی کی سہولتیں، ضرورتیں اور خواہشیں تیاگ کر ان بے سہارا مریضوں پر اپنا سب کچھ نچھاور کیا، بعد از مرگ پاکستانیوں نے حسب عادت حسب روایت اور حسب فطرت اس کی موت پر’’واویلے‘‘ بھی بہت کیے تھے۔ نام اب یاد نہیں لیکن موت کے بعد اچھی خاصی نامدار ہو گئی تھیں۔ لیکن ہمیں اس کے بارے میں بہت پہلے معلوم تھا اور اس سے ملاقات بھی ہوئی تھی، واپس آتے ہوئے ہم نے اپنے ساتھی سے پوچھا جو مقامی اور نہایت بڑا ’’مذہبی‘‘ شخص تھا بلکہ سارے علاقے کی دینی وشرعی مسائل کا رہبر و رہنماء بھی تھا۔

اس عورت سے ملنے کے بعد ہم بہت زیادہ متاثر ہوئے کہ یہ ایک ایسے علاقے میں پیدا ہوئی ہے جہاں جانے اور پھر رہنے کو ہم جنت سے کم نہیں سمجھتے۔ جہاں انسانوں کو ہر سہولت ہر رعایت اور زندگی کی تعیشات میسر ہیں لیکن یہ عورت وہ سب کچھ چھوڑ کر یہاں ان برف زاروں میں اور ویران بستیوں میں خدمت کر رہی ہے۔ وہ بھی ستائش کی تمنا نہ صلے کی پروا۔ اس لیے ہمارے ذہن میں ایک سوال اٹھا اور اپنے ساتھی سے اس کے بارے میں پوچھا۔کہ یہ عورت جنت جائے گی یا دوزخ؟ بلا توقف بولا۔ جنت میں جانے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ کلمہ پڑھ کر مسلمان نہیں ہوئی ہے لیکن اس یہ اتنی انسانی خدمت گزاری تیاگ اور قربانی۔

بولے، ایک ہی صورت میں جا سکتی ہے اگر یہ کسی مسلمان کے حبالہ عقد میں آ جائے۔ یہ بات بلکہ ’’حبالہ عقد‘‘کا لفظ کہتے ہوئے اس نے اپنے لباس اپنے چہرے وغیرہ پر ہاتھ پھیرا تھوڑا سنوارا بھی تھا۔ بات پھر غلط کوچے میں جانکلی، ہمارے محلے میں ایک خدائی خوار تھا جو ایک وقت اگر کھا لیتا تو دوسرے وقت بھوکا رہتا۔ ایک دن بات چلی عورتوں کے پردے اور شرم و حیاکی۔ پھر اس سے ان لوگوں کی طرف مڑی جن کی عورتیں بے پردہ گھومتی ہیں۔

مہنیوں سالوں گھر یا شوہر سے دور غیر  مردوں کے درمیان رہتی ہیں۔ بولا ، کیا ہوا اگر ان لوگوں کے پاس دولت ہے اور ہم کنگال ہیں لیکن ’’غیرت والے‘‘ ہیں ، مجال ہے جو ہماری عورتوں کا پلو بھی کوئی غیر مرد دیکھے۔ انھوں نے دولت لی اور غیرت گنوائی جب کہ ہم کو خدا نے غیرت اور عزت دی ہوئی ہے، بے غیرت نہیں ہیں۔

یہ صرف یہ ہی ایک ’’فہمی‘‘ نہیں ہے جس پر بہت سارے لوگ جی رہے ہیں اور بھی بہت ساری فہمیاں ہیں جو اگر نہ ہوتیں تو۔ مثلاً کیا ہوا اگر ان ’’کافروں‘‘ کے پاس دنیا ہے ہمارے پاس…آگے آپ جانتے ہیں کہ فہمیاں تو ہر کسی کے گھر کی لونڈیاں ہوتی ہیں۔

باندھ رکھا ہے کسی سوچ نے ہم کو گھر سے

ورنہ گھر کے در و دیوار میں رکھا کیا ہے

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔