کامیاب گندم خریداری عثمان بزدار کی نجات دہندہ بن سکتی ہے

رضوان آصف  بدھ 20 مارچ 2019
ترقیاتی منصوبے اور حکومتی معاملات کی رفتار سست ہوتی ہے لہذا سردار عثمان وہاں کوئی ہنگامی اقدام نہیں کر سکتے۔ فوٹو: فائل

ترقیاتی منصوبے اور حکومتی معاملات کی رفتار سست ہوتی ہے لہذا سردار عثمان وہاں کوئی ہنگامی اقدام نہیں کر سکتے۔ فوٹو: فائل

 لاہور: وزیر اعلی پنجاب سردار عثمان بزدار کا مشکل وقت ختم ہونے میں نہیں آرہا جس دن سے وزیر اعلی بنے ہیں، میڈیا، اپوزیشن، عوام کے ساتھ ساتھ تحریک انصاف کی کڑی تنقید کا شکار ہیں، اسی دوران سردار عثمان بزدار سے دانستہ یا نادانستہ طور پر بعض ایسی غلطیاں بھی سرزد ہوئی ہیں جنہوں نے وزیر اعظم عمران خان کے مزاج کو بھی برہم کر دیا ہے۔

ان تمام حالات نے ایک بار پھر پنجاب کی وزارت اعلی پر تبدیلی کے حوالے سے پشین گوئیوں اور تجزیوں میں اضافہ کردیا ہے اور اس حوالے سے ہاشم جواں بخت اور سبطین خان کا نام اہمیت اختیار کر رہا ہے۔اس کنفیوژڈ اور کٹھن صورتحال سے نکلنے کیلئے سردار عثمان بزدار کو اپنی کارکردگی کے حوالے سے کوئی غیر معمولی کارنامہ انجام دینا ہوگا۔

ترقیاتی منصوبے اور حکومتی معاملات کی رفتار سست ہوتی ہے لہذا سردار عثمان وہاں کوئی ہنگامی اقدام نہیں کر سکتے لیکن ان کے پاس یہ سنہری موقع موجود ہے کہ وہ آئندہ ماہ شروع ہونے والی گندم خریداری مہم کو ملکی تاریخ کی سب سے شفاف اور کسان دوست مہم بنا کر اپنی ساکھ کو بہتر بناتے ہوئے کپتان کو بھی راضی کر سکتے ہیں جبکہ عوام بالخصوص کسان حلقوں میں بھی حکومت اور عثمان بزدار کی ’’بلے بلے‘‘ ہو سکتی ہے۔

پاکستان بالخصوص پنجاب میں زراعت کے حوالے سے پالیسی سازی اور سرکاری محکموں کے ساتھ ملکر اقدامات کرنے کی ذمہ داری عمران خان نے جہانگیر خان ترین کو سونپی ہے جنہوں نے مختلف محکموں اور تنظیموں کے ساتھ ملاقات کی ہے اور اس وقت گندم خریداری پالیسی کو حتمی شکل دی جا رہی ہے۔ پنجاب سب سے زیادہ گندم پیدا کرنے والا، اسے استعمال کرنے والا صوبہ ہے اور گندم کی خریدو فروخت بھی سب سے زیادہ پنجاب میں ہی ہوتی ہے جس کا  مالیاتی حجم کھربوں روپے سالانہ ہے۔ شریف برادران کے بارے میں عمومی تاثر ہے کہ وہ تاجر دوست ہیں اور کسانوں کے ساتھ ان کی خاص دلچسپی نہیں ہے۔ شاید اسی وجہ سے گزشتہ دس برس میں پنجاب کے کاشتکار اپنی ہر فصل میں مالی نقصان برداشت کرتے رہے ہیں۔

عمران خان کے ساتھ وابستہ عوام کی امیدیں فی الوقت تو کانٹوں پر گھسٹتے ہوئے لہولہان ہو رہی ہیں اور حکومت عوام کو ریلیف دینے میں مکمل طور پر کامیاب نہیں ہو پا رہی ہے لیکن سب سے زیادہ مشکل وقت زراعت اور کسان پر آیا ہوا ہے جس کیلئے اپنی سفید پوشی کا بھرم قائم رکھنا ناممکن ہوگیا ہے۔ سردار عثمان بزدار خود بھی کاشتکار ہیں جبکہ جہانگیر خان ترین کو پاکستان کی زراعت کی سب سے بڑی اور کامیاب مثال قرار دیا جاتا ہے، اس لئے تحریک انصاف حکومت کی پہلی گندم خریداری مہم کے حوالے سے کسانوں میں بہت امید پائی جاتی ہے اور کسان سمجھتا ہے کہ ماضی کی نسبت اس مرتبہ اسے پیداوار کی بہترین قیمت ملے گی اور سرکاری محکموں کی کارکردگی اور برتاو میں بھی مثبت تبدیلی آئے گی۔

پنجاب میں صوبائی محکمہ خوراک پنجاب اور وفاقی محکمہ پاسکو کسانوں سے گندم خریدتے ہیں۔ پنجاب میں ایک ضلع(حافظ آباد) اور 13 تحصیلوںگوجرہ، اوکاڑہ، پاکپتن،میلسی،بورے والا، میاں چنوں،لودھراں،کروڑ پکا، منچن آباد، بہاولنگر، خان پور، علی پور اور لیہ میں گندم خریداری پاسکو کرتا ہے جبکہ دیگر علاقوں میں محکمہ خوراک پنجاب گندم خریدتا ہے۔ پاسکو کا اس مرتبہ پورے ملک کیلئے خریداری ہدف گیارہ لاکھ  ٹن مقرر کر دیا گیا ہے۔ پاسکو کی نسبت محکمہ خوراک پنجاب تین گنا زیادہ مقدار میں گندم خریدتا ہے۔

اس لئے کسانوں کو محکمہ خوراک کے حوالے سے زیادہ دلچسپی ہے۔محکمہ زراعت پنجاب کا تخمینہ ہے کہ اس مرتبہ گندم کی بمپر فصل ہو گی۔ محکمہ خوراک کے حکام 30 لاکھ ٹن گندم خریدنے کی سفارش کر رہے ہیں لیکن بعض وفاقی حکام اور حکومتی شخصیات کی رائے ہے کہ 40 لاکھ ٹن خریداری ہدف مقرر کیا جائے۔ میری رائے میں 35 لاکھ ٹن خریداری ہدف مقرر کرنا حکومت کیلئے مناسب رہے گا اس طرح اس کے پاس کم یا زیادہ خریدنے کیلئے 5 لاکھ ٹن کا مارجن بھی موجود رہے گا۔ معلوم ہوا ہے کہ آئندہ چند روز میں پنجاب کابینہ کی گندم کمیٹی کے اجلاس میں خریداری پالیسی کو حتمی شکل دی جائے گی ۔

جہانگیر ترین کی یہ تجویز قابل عمل ہے کہ وفاقی حکومت  گندم کی کمرشل ایکسپورٹ پر پابندی عائد کر دے اور  خریداری مہم شروع ہونے سے قبل 10 لاکھ ٹن یا اس سے زائد کی گندم و گندم مصنوعات کی ایکسپورٹ کیلئے درخواستیں طلب کر لی جائیں اور منظور ہونے والی درخواستوں کو ’’پرو ڈیٹا‘‘ فارمولہ کے تحت کوٹہ مختص کر کے عالمی منڈی کی قیمت کے مطابق فی من ریبیٹ پہلے ہی طے کردی جائے اور ایکسپورٹرز سے کہا جائے کہ وہ پنجاب میں کسانوں سے براہ راست اپنے کوٹہ کے مطابق گندم خریدیں اور کراچی پورٹ پر لے جائیں یا افغانستان بارڈر پر لے جائیں اور اسے ایکسپورٹ کریں، محکمہ خوراک اس بات کو یقینی بنانے کیلئے کہ یہ گندم پنجاب کی حدود سے باہر جا چکی ہے سرحدی چیک پوسٹس قائم کرے۔

محکمہ اس تجویز پر بھی غور کر رہا ہے کہ گندم پالیسی کا اعلان کرتے وقت ساتھ ہی سرکاری گندم کی قیمت فروخت کا اعلان بھی کردیا جائے کیونکہ ماضی میں ایشو پرائس کا اعلان نہ ہونے سے نجی شعبہ ہچکچاہٹ اور مالی نقصان کے خوف سے کسانوں سے زیادہ گندم نہیں خریدتا تھا۔ محکمہ خوراک کا تخمینہ ہے کہ ان اقدامات کے ذریعے مارکیٹ میں 20 سے 25 لاکھ ٹن کی اضافی طلب پیدا ہونے سے کسانوں کو پیداوار کی عمدہ قیمت ملے گی اور محکمہ پر خریداری کیلئے زیادہ دباؤ نہیں آئے گا۔ گزشتہ برس اپریل میں محکمہ خوراک نے 36 لاکھ ٹن گندم کے کیری اوور سٹاکس کے ساتھ نئی خریداری شروع کی تھی اور 36 لاکھ23 ہزار ٹن نئی گندم خریدنے کے بعد اس کے پاس 72 لاکھ ٹن سے زائد گندم کے غیر معمولی سرپلس ذخائر تھے جن میں سے ابتک محکمہ 50 لاکھ ٹن گندم فروخت کر چکا ہے۔

گزشتہ دو برسوں کے دوران محکمہ خوراک نے گندم کاشتکاروں کا کمپیوٹرائزڈ ڈیٹا حاصل کر کے بہت حد تک خریداری مہم کو بہتر بنایا ہے لیکن ابھی بہت کچھ درست کرنا باقی ہے۔ خریداری مراکز پر تعینات عملہ کا کرپشن فری ہونا ایک بڑا چیلنج ہے۔ سیکرٹری فوڈ پنجاب شوکت علی پر ٹرانسفر پوسٹنگ کے حوالے سے بھی  سیاسی دباؤ موجود ہے،کئی ارکان اسمبلی اپنے رشتے داروں کو ڈپٹی ڈائریکٹر لگوانے کی جدوجہد کر رہے ہیں۔ وزیر اعلی پنجاب کو چاہیئے کہ وہ اپنے وزیر خوراک اور سیکرٹری خوراک کو مکمل سپورٹ فراہم کریں اور سو فیصد میرٹ پر ٹرانسفر پوسٹنگ کی جائے ، جن لوگوں نے ’’کسٹمر سروس سنٹرز‘‘ کھول لیئے ہیں ان کی بیخ کنی اشد ضروری ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔