پاک بھارت کشیدگی کا خاتمہ، سفارتی رابطے بڑھانا ہوں گے

ارشاد انصاری  بدھ 20 مارچ 2019
بھارتی حکمراں جماعت فوجیوں کی بڑی بڑی تصاویر سے اپنی جلسہ گاہوں کو سجا کر انتخابی مہم کیلئے استعمال کرتی تھی۔ فوٹو: فائل

بھارتی حکمراں جماعت فوجیوں کی بڑی بڑی تصاویر سے اپنی جلسہ گاہوں کو سجا کر انتخابی مہم کیلئے استعمال کرتی تھی۔ فوٹو: فائل

 اسلام آباد:  پاکستان کی موثر و مربوط کاوشوں اور دوست ممالک کے مثبت کردار کے باعث دو ایٹمی طاقتوں کے درمیان تناو میں کمی واقع ہوئی جس س سے تیسری عالمی جنگ کے بڑھتے ہوئے خطرات ٹل گئے ہیں اور نہ صرف جنوبی ایشیاء بلکہ دنیا پر چھائے ایک بڑی تباہی کے بادل چھٹ گئے ہیں لیکن بھارت کی جانب سے الیکشن کارڈ کے طور پر رچایا جانے والا کھیل اب خود مودی سرکار کے گلے کی ہڈی بن چکا ہے کیونکہ بھارتی فوجی جارحیت پر پاکستان کے منہ توڑ جواب اور گرفتار پائلٹ کی رہائی نے جہاں مودی کے خواب کو چکنا چور کیا وہیں ازلی دشمن بھارت اور اس کے حواریوں کی عالمی سطح پر جاری پاکستان کے خلاف گریٹ گیم کو بھی ناکام بنایا ہے جس کے بعد بی جے پی کی نئی قلابازی نے تضحیک کا سامان فراہم کردیا، رہی سہی کسر عالمی سطح پر ہونیوالی بھارتی جگ ہنسائی نے پوری کردی ہے۔

عالمی برادری میں سبکی کے بعد خود بھارت کے اندر سے مودی سرکاری کیلئے شدید مسائل جنم لے رہے ہیں اور اگلا الیکشن مودی کے ہاتھ سے نکلتا دکھائی دے رہا ہے اور خوف کا عالم یہ ہے کہ بھارتی وزیراعظم نریندرا مودی نے متوقع انتخابی شکست سے خوفزدہ ہو کر ٹویٹر پر اپنے نام میں تبدیلی کرتے ہوئے ’چوکیدار نریندرا مودی‘ رکھ لیا ہے۔ بھارت میں آئندہ ماہ ہونیوالے لوک سبھا کے انتخابات میں اپنی ناقص کارکردگی پر پریشان اور متوقع انتخابی شکست سے خوف زدہ بھارتی وزیراعظم مودی کی ہر چال ناکام ہوتی نظر آرہی ہے۔

بھارتی وزیراعظم اور حکمراں جماعت فوجیوں کی بڑی بڑی تصاویر سے اپنی جلسہ گاہوں کو سجا کر انتخابی مہم کیلئے استعمال کرتی تھی۔ بھارتی الیکشن کمیشن کی طرف سے سابق فوجی افسران کی درخواست پر سیاسی جماعتوں کو فوجیوں کے نام، تصاویر اور جنگی ترانوں کے استعمال سے روکنے کے بعد بھارتی حکمراں جماعت نے اپنے لیے ’چوکیدار‘ یعنی سپاہی کا نام استعمال کرنے لگی ہے اور یہ سب اس بات کی عکاسی ہے کہ بھارتی حکمران جماعت شدید نفسیاتی دباو کا شکار ہے اور اس دباو میں انتہاء پسند ذہنیت رکھنے والی مودی سرکار کسی بھی حد تک جا سکتی ہے، اس لئے بڑے تصادم کے بادل چھٹنے کے باوجود بھارت کے آئندہ عام انتخابات تک سرحدی کشیدگی اور کسی بڑے سانحہ کے خطرات بدستور موجود رہیں گے۔

اب حال ہی میں جو اسلامو فوبیا کی جو لہر اٹھی ہے اس میں پاکستان کا کردار مزید بڑھ گیا ہے اور نیوزی لینڈ میں انچاس نمازیوں کی شہادت کے واقعہ نے مغربی ممالک میں بڑھتے ہوئے فاشسٹ رویہ کا پردہ چاک کردیا ہے اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اس سانحہ پر آنے ولاے بیان نے جلتی پر تیل کا کام کیا ہے جس نے مسلم ممالک کی قیادت کو جھنجھوڑا ہے اور حالات جو رُخ اختیار کرتے جا رہے ہیں اس میںامت مسلمہ کو ایک لڑی میں پرونے کے حوالے سے مسلم ممالک کی قیادت کی ذمہ دار بڑھ گئی ہے اور شائد مسلم قیادت کو اس کا احساس بھی ہو رہا ہے یہی وجہ ہے کہ اسلامک دنیا کے پلیٹ فارم بھی اب فعال ہو رہے ہیں۔

پلوامہ واقعہ کے بعد جس طرح او آئی سی کے اجلاس میں بھارت کی دہشت گردی کی کاروائیوں کی نہ صرف مذمت کی گئی ہے بلکہ باقاعدہ اعلامیہ کا حصہ بنا کر دنیا کو ایک پیغام دیا گیا اور اب سانحہ نیوزی لینڈ کے بعد پاکستان اور ترکی نے جمعہ کو استنبول میں اسلامی تعاون تنظیم کا ہنگامی اجلاس طلب کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس میں مغربی ممالک میں اسلام کے خلاف بڑھتے ہوئے منفی رویے کی بنیادی وجوہات پر غور کیا جائے گا اور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے باقاعدہ اعلان بھی کردیا ہے۔

اس کے علاوہ امریکہ اور طالبان کے درمیان جاری مذاکرات کی بیل بھی منڈھے چڑھتے دکھائی نہیں دے رہی ہے اور شکوک و شبہات کے سائے پھیلتے دکھائی دے رہی ہیں جس کا اندازہ افغان حکومت کے حالیہ الزامات سے لگایا جا سکتا ہے جس میں افغان حکومت نے الزام عائد کیا ہے کہ امریکی خصوصی ایلیچی زلمی خلیل زادہ خود افغان عبوری حکومت کے سربراہ بننے کے خواہاں ہیں اور طالبان کے ساتھ امن مذاکرات میں افغان حکومت کو مسلسل اندھیرے میں رکھا جا رہا ہے۔

دوسری جانب اسٹیٹ دیپارٹمنٹ کے ترجمان نے افغان قومی سلامتی کے مشیر کے الزامات مسترد کرتے ہوئے موقف اختیار کیا ہے کہ چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ اور افغان صدر اشرف غنی زلمی خلیل زادہ سے مسلسل رابطے میں ہیں جبکہ کابل میں امریکی سفیر بھی افغان حکومت کو طالبان کے ساتھ بات چیت کے حوالہ سے پیشرفت سے آگاہ رکھتے ہیں۔ پاکستان عالمی سطع پرلمحہ لمحہ بدلتی صورتحال سے کسی طور بھی غافل نہیں ہے پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت تمام اہم قومی و عالمی ایشوز پر ایک پیج پر ہیں، صورتحال کے تقاضوں کے عین مطابق پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی بھی غیر معمولی طور پر متحرک ہیں اور ابھی بھی وزیر خارجہ تین روزہ دورہ پر چین میں موجود ہیں اور پاک چین وزرائے خارجہ سٹریٹجک ڈائیلاگ میں شرکت کریں گے۔

وزیر خارجہ کے اس دورہ کے دوران طرفین باہمی تعلقات بشمول چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) پر جامع تبادلہ خیال کریں گے۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اس دورہ کے دوران سی پیک پر پولیٹیکل پارٹیز فورم سے خطاب کریں گے۔ وہ پاکستان تحریک انصاف اور کمیونسٹ پارٹی آف چائنا کے درمیان رولنگ پارٹیز ڈائیلاگ میں بھی شرکت کریںگے۔ اس کے ساتھ ساتھ خارجی سطح پر دشمن ملک بھارت کی جانب سے پاکستان کے خلاف کی جانیوالی سازشوں کو ناکام بنانے کیلئے خارجی محاذ کے ساتھ ساتھ داخلی سطح پر بھی حکومت کمربستہ ہے اور وزیر اعظم عمران خان کی خصوصی ہدایت پر وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی نے اہم قومی امور اور نیشنل ایکشن پلان پر پارلیمانی پارٹیوں سے مشاورت کا فیصلہ کرتے ہوئے پارلیمانی جماعتوں کی مشاورتی کانفرنس طلب کر لی ہے۔

جولائی 2018 میں قائم ہونے والی تحریک انصاف کی نئی حکومت پاکستان کی معاشی بہتری کیلئے بھرپور کوششیں جاری رکھے ہوئے ہے جس میں بڑی حد تک کامیاب بھی ہوئی ہے مگر ابھی کڑا امتحان باقی ہے اور آئندہ مالی سال کے وفاقی بجٹ کے پیش ہونے تک آئی ایم ایف سے بیل آوٹ پیکج اور اس کے نتیجے میں متوقع مہنگائی کے سیلاب سے عوامی و سیاسی ردعمل سمیت حکومت کو بہت سے کٹھن مراحل سے گزرنا ہوگا جس سے سیاسی و عوامی حلقوں میں حکومت کیلئے مشکلات کا سونامی آنے کو ہے، یہ سب سے بڑا سوال ہے کہ کیا حکومت اس سونامی کا مقابلہ کر پائے گی اور اس کے سامنے ٹھہر پائے گی یا مسائل کا سونامی حکومت کو بہا لے جائے گا یہ وہ سوالات ہیں جو سیاسی، سماجی و سفارتی اور عوامی حلقوں میں اٹھائے جا رہے ہیں شائد اسی وجہ سے پاکستان مسلم لیگ (ن) کا دوبارہ انتخابات کا بیانیہ عوام میںزیر بحث ہے، اب اس بارے میں آگے کیا صورتحال بنتی ہے یہ تو وقت بتائے گا۔

یہ بھی خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ آئی ایم ایف سے 12 ارب ڈالر کے بیل آوٹ پیکیج کیلئے پاکستان کو ابھی مزید مشکل فیصلے کرنا ہیں۔آئی ایم ایف کی طرف سے بیل آوٹ پیکیج کیلئے توانائی کے شعبہ میں گردشی قرضے کے خاتمہ کیلئے تمام اقسام کی حکومتی اعانتیں ختم کرنے اور اسٹیٹ بینک سے قرضوں کا حصول بند کرنے کے مطالبات سرفہرست ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔