وفاقی پی ایس ڈی پی کی مانیٹرنگ، کمیٹی کے قیام کی درخواست

رضا الرحمٰن  بدھ 20 مارچ 2019
یہ ایک اچھا موقع ہے کہ بلوچستان کی ترقی و خوشحالی کے حوالے سے وفاقی حکومت کی اپروچ مثبت ہے۔ فوٹو: فائل

یہ ایک اچھا موقع ہے کہ بلوچستان کی ترقی و خوشحالی کے حوالے سے وفاقی حکومت کی اپروچ مثبت ہے۔ فوٹو: فائل

کوئٹہ:  وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال نے وزیراعظم پاکستان عمران خان سے درخواست کی ہے کہ وفاقی پی ایس ڈی پی میں شامل بلوچستان کے ترقیاتی منصوبوں کی مانیٹرنگ کیلئے اسٹیرنگ کمیٹی کا قیام عمل میں لایا جائے تاکہ ان منصوبوں کی بروقت اور معیاری تکمیل کو یقینی بنانا ممکن ہو سکے۔

وزیراعظم پاکستان کے نام لکھے گئے اپنے ایک خط میں وزیراعلیٰ بلوچستان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم کی قیادت میں وفاقی حکومت بلوچستان کی ترقی پر خصوصی توجہ دے رہی ہے جس کیلئے وفاقی پی ایس ڈی پی میں بلوچستان کے ترقیاتی منصوبوں کو شامل کیا گیا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ان منصوبوں کے ثمرات جلد از جلد بلوچستان کے عوام تک پہنچیں۔

خط میں وزیراعلیٰ بلوچستان نے یہ تجویز بھی دی ہے کہ وفاقی پی ایس ڈی پی کی مانیٹرنگ کیلئے اسٹیرنگ کمیٹی کے چیئرمین وزیراعلیٰ بلوچستان اور دیگر ارکان میں چیف سیکرٹری، ممبر پلاننگ ڈویژن، ایڈیشنل چیف سیکرٹری بلوچستان، ممبر این ایچ اے (بلوچستان)، نمائندہ کمانڈر سدرن کمانڈ، نمائندہ فنانس ڈویژن، چیئرمین گوادر پورٹ اتھارٹی، ڈائریکٹر جنرل جی ڈی اے اور چیف ایگزیکٹو آفیسر کیسکو کو شامل کیا جائے۔ اُنہوں نے کمیٹی کے قیام کیلئے وزیراعظم کو درخواست کی ہے کہ وہ اس اسٹیرنگ کمیٹی کے قیام کیلئے پلاننگ کمیشن کو نوٹیفکیشن کے اجراء کی ہدایت جاری کریں۔

سیاسی حلقوں نے وزیراعلیٰ بلوچستان کی جانب سے وفاقی پی ایس ڈی پی میں بلوچستان کیلئے شامل ترقیاتی منصوبوں کی مانیٹرنگ  کیلئے کمیٹی کے قیام کو ایک مثبت اور صوبے کے مفاد میں بہترین فیصلے سے تعبیر کیا ہے۔

ان حلقوں کا کہنا ہے کہ وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال کو وفاقی پی ایس ڈی پی سے بلوچستان کی ترقی و خوشحالی کے حوالے سے اُن منصوبوں پر بھی وفاقی حکومت سے بات کرنی چاہیے جنہیں نکالا گیا ہے اس کیلئے انہیں اپنے اچھے تعلقات کو استعمال کرتے ہوئے وزیراعظم پاکستان عمران خان پر زور دینا چاہیے کیونکہ یہ ایک اچھا موقع ہے کہ بلوچستان کی ترقی و خوشحالی کے حوالے سے وفاقی حکومت کی اپروچ مثبت ہے اور وہ بلوچستان میں ترقی و خوشحالی کی راہ ہموار کرنے میں بھی دلچسپی رکھتی ہے۔ دوسری اہم بات مرکز میں بلوچستان  عوامی پارٹی اور قوم پرست جماعت بلوچستان نیشنل پارٹی بھی تحریک انصاف کی حکومت کی حمایت کر رہی ہیں، ان اچھے اور مثبت تعلقات سے جام کمال کی موجودہ صوبائی مخلوط حکومت کو بھرپور فائدہ اُٹھانا چاہیے اور وفاقی پی ایس ڈی پی میں صوبے کیلئے زیادہ سے زیادہ ترقیاتی منصوبوں کو شامل کرانے کی کوشش کرنی چاہیے ۔

ان سیاسی حلقوں کے مطابق جام کمال کی حکومت کی ان کاوشوں میں اپوزیشن جماعتوں کو بھی صوبے کے بہتر مفاد میں اُن کا بھرپور ساتھ دینا ہوگا خصوصاً اپوزیشن جماعت بی این پی کو تحریک انصاف کے ساتھ اپنے اچھے تعلقات کو بروئے کار لاتے ہوئے جام کمال کی آواز میں آواز ملانی ہوگی جس سے یقیناً ایک مثبت پیغام مرکز میں جائے گا ۔ بعض سیاسی حلقوں نے وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال کے اس بیان کو بھی صوبے کے بہتر مفاد میں قرار دیا ہے جس میں اُنہوں نے اپوزیشن کو مخاطب کرتے ہوئے اس نیک خواہش کا اظہار کیا ہے کہ اپوزیشن کا کام حکومت پر تنقید کرنا ہے لیکن بلوچستان کے مفاد میں جو بھی کام ہو اس پر حکومت اور اپوزیشن کو مشترکہ موقف اختیار کرنا چاہیے۔ سیاسی مبصرین کے مطابق بلوچستان کی موجودہ مخلوط حکومت کا یہ دعویٰ ہے کہ وہ صوبے میں ترقی و خوشحالی کیلئے جو اقدامات کر رہی ہے۔

اُس کے اثرات مستقبل میںدیرپا ہوں گے اور اس کے اچھے نتائج ہوں گے اور صوبے کے عوام ان اقدامات سے براہ راست مستفید ہوں گے ۔ صوبہ معاشی اور ترقی و خوشحالی کے لحاظ سے مضبوط ہوگا۔ اس میں کوئی شک و شبے والی بات نہیں کہ موجودہ صوبائی مخلوط حکومت جو اقدامات کر رہی ہے اور ترقی و خوشحالی کے لحاظ سے جو منصوبہ بندی کی جا رہی ہے اس میں کچھ وقت ضرور لگے گا لیکن ترقی و خوشحالی کی ڈگر پر صوبے کو ڈالنے کیلئے جام حکومت اور اپوزیشن جماعتیں مل کر کام کریں تو صوبے میں ایک بڑی تبدیلی کو کوئی نہیں روک سکتا آج جو جماعتیں اپوزیشن میں ہیں کل یہی جماعتیں اقتدار میں رہی ہیں اور دوبارہ بھی آسکتی ہیں۔

اگر حکومتی اور اپوزیشن جماعتیں صوبے کے بہتر مفاد اور ترقی و خوشحالی کے ایک نقطے پر اکٹھی ہو جائیں تو یقینا بلوچستان سے پسماندگی اور احساس محرومی کا خاتمہ ہو جائے۔ ان سیاسی مبصرین کے مطابق ترقی کے اس عمل میں شامل کرنے کیلئے صوبائی حکومت کو بڑا دل کرتے ہوئے آگے بڑھنے کی ضرورت ہے اور جس طرح سے صوبائی پی ایس ڈی پی 2018-19 کے حوالے سے اپوزیشن جماعتوں کو تحفظات اور شکایات ہیں انہیں دور کرنا چاہیے، بیانات کے بجائے صوبے کے بہتر مفاد میں ان دوریوں کو ختم کرنے کیلئے عملی طور پر کام کرنا وقت کا تقاضہ ہے۔

بعض سیاسی حلقوں کے مطابق بلوچستان اسمبلی کی19 مجالس قائمہ کی تشکیل میں ڈیڈ لاک سے بھی تشویش پائی جاتی ہے حالانکہ اپوزیشن جماعتوں نے سب سے اہم مجلس قائمہ پبلک اکائونٹس کمیٹی کی چیئرمین شپ کیلئے اپنا متفقہ نام دے دیا ہے حکومت کی طرف سے ان مجالس قائمہ کی تشکیل میں تاخیر کی وجہ بظاہر کوئی دکھائی نہیں دیتی لیکن بعض سیاسی حلقوں میں یہ بات گردش کر رہی ہے کہ اپوزیشن جماعتوں نے حکومت کو دیگر اہم مجالس قائمہ کی چیئرمین شپ دینے کا بھی مطالبہ کر رکھا ہے جس کیلئے حکومت کی جانب سے سوچ و بچار کیا جا رہا ہے جبکہ حکومت اپنی مرضی سے اپوزیشن کو6 یا7 بشمول پبلک اکائونٹس کمیٹی کی چیئرمین شپ دینا چاہتی ہے جوکہ ڈیڈ لاک  کا باعث بن گیا ہے۔

حکومت کی جانب سے یہ کوشش ہے کہ اپوزیشن کو مزید دو یا تین اہم مجالس قائمہ کی چیئرمین شپ پر آمادہ کر لیا جائے پیغام رسانی کا کام ابھی جاری ہے توقع ہے کہ جلد ہی اس حوالے سے حکومت اور اپوزیشن جماعتوں میں مذاکرات کا فائنل رائونڈ ہوگا ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔