خوبصورت مسکراہٹ سے تمام مسائل حل ہوسکتے ہیں، منہ کے امراض بڑا چیلنج

اجمل ستار ملک / احسن کامرے  بدھ 20 مارچ 2019
ایکسپریس میڈیا گروپ اور کولگیٹ پامولیو پاکستان لمیٹڈ کے زیراہتمام ’’ورلڈ اورل ہیلتھ ڈے‘‘ کے موقع پر منعقدہ سیمینار۔فوٹو: وسیم نیاز

ایکسپریس میڈیا گروپ اور کولگیٹ پامولیو پاکستان لمیٹڈ کے زیراہتمام ’’ورلڈ اورل ہیلتھ ڈے‘‘ کے موقع پر منعقدہ سیمینار۔فوٹو: وسیم نیاز

ایکسپریس میڈیا گروپ اور کولگیٹ پامولیو پاکستان لمیٹڈ کے اشتراک سے لاہور کے مقامی ہوٹل میں ’’ورلڈ اورل ہیلتھ ڈے‘‘ کے حوالے سے ایک سیمینار کا انعقاد کیا گیا جس میں مختلف ڈینٹل کالجز کے سربراہان،ڈینٹسٹ، ڈاکٹرز اور ڈینٹل کالجز کے طلباء و طالبات سمیت شہریوں کی کثیر تعداد نے شرکت کی۔ اس موقع پر سینئر ڈاکٹرز نے خطاب کیا اور شرکاء کی رہنمائی کی۔ سیمینار کی رپورٹ نذر قارئین ہے۔

پروفیسر ڈاکٹر محمد سعید
(پروفیسر آف اورل اینڈ میگزیلوفیشل سرجری، پرنسپل کالج آف ڈینٹسٹری، بی اے ایم ڈی سی، ملتان)

’’پرہیز علاج سے بہتر ہے‘‘ اور ہم سب اس پر کام کرنے کی کوشش کرتے ہیں مگر اس میں ایک چیز اہم ہے۔ ہم لوگوں کو بتاتے ہیں کہ یہ عمل کریں تاکہ آپ کو اچھا نتیجہ ملے مگر یہ نہیں بتاتے کہ ایسا کیوں کریں۔ جب تک انہیںا س بارے میں آگاہی نہیں دی جائے گی تب تک مسائل زیادہ رہیں گے۔تعلیمی نظام، ثقافت وغیرہ منہ کی صحت پر اثر انداز ہوتی ہیں۔سوال یہ ہے کہ مسائل کیا ہیں؟ ہر کوئی جانتا ہے کہ ڈینٹل کیریز، مسوڑھوں کا مسئلہ، منہ کا کینسر ودیگر بڑی بیماریاں ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ ان بیماریوں کی وجوہات کیا ہیں اور ان کے بارے میں آگاہی کیلئے کیا کرنا چاہیے؟اوورل ہائی جینک فوڈ اور کھانے کی عادت کے حوالے سے پہلے ہی بات ہوچکی ہے۔ کھانا ایک نشست میں ہی کھانا چاہیے، بار بار کھانے کی عادت کو ترک کیا جائے۔ شوگر والی چیزیں اور بوتلیں بھی مسائل پیدا کرتی ہیں۔

ان کا جتنا کم استعمال کریں گے دانتوں کی صحت اتنی اچھی رہے گی۔ دانتوں کی حفاظت اور صفائی کیلئے دن میں دو مرتبہ برش کرنا چاہیے۔ بچے کو پیدائش کے بعد جلد از جلد ڈینٹسٹ کے پاس لے کر جانا چاہیے۔ 3 سال کی عمر میں بچوں کو نرم برش کے ساتھ تھوڑی سی توتھ پیسٹ لگا کر برش کریں تاکہ اس کاذائقہ بچے کے منہ کو لگ جائے۔ 6 برس تک بتدریج توتھ پیسٹ کی مقدار بڑھانی چاہیے، والدین کو سپروائز کرنا چاہیے اور بچوں کو برشنگ کی اہمیت بھی بتانی چاہیے۔ ترقی یافتہ ممالک میں 26 فیصد بچے سکول سے غیر حاضر ہوتے ہیں۔

اوسطاََ 3 دن بچے دانت درد کی وجہ سے سکول سے غیر حاضر رہتے ہیں۔ 67 فیصد والدین نے رپورٹ کیا کہ بچوں کو درد تھا جبکہ 38 فیصدبچوں کو رات کو نیند نہیں آتی۔ یہ مسائل ایسے ہیں جن کی وجہ سے والدین بھی پریشان ہوتے ہیں۔ اگر والدین کو اس بارے میں آگاہی دی جائے تو یقینا اس سے بہتری آئے گی۔ کھانے میں احتیاط ضروری ہے۔ معیاری اشیاء کا استعمال کیا جائے۔ کھانے کو منہ کی ایک طرف سے چبانے سے اس طرف کے دانتوں کو زیادہ نقصان ہوتا ہے لہٰذا دونوں اطراف سے ہی چبانا چاہیے۔ منہ میں زیادہ دیر کے لیے کھانے کی چیزیں رکھناجس میں ٹافی وغیرہ شامل ہیں سے دانت خراب ہوتے ہیں۔ رات کو برش کیے بغیر سونا نقصان دہ ہے۔ کھانے سے پہلے اور بعد میں ہاتھ دھونے چاہئیں۔ ٹائلٹ کے استعمال کے بعد لازمی ہاتھ دھونے چاہئیں۔

ہاتھوں پر جراثیم ہوتے ہیں جو دوسروں کو بھی منتقل ہوتے ہیں۔ مغربی ممالک ہینڈ ہائی جین کے حوالے سے سنجیدہ ہیں۔ ہمیں بھی اس طرف توجہ دینی چاہیے۔ مریض کے علاج سے پہلے اور بعد میں ہاتھ لازمی دھوئیں اور بغیر دستانے پہنے مریض کو ہاتھ نہ لگائیں۔ مجھے یاد ہے کہ ہم ننگے ہاتھوں سے علاج کرتے رہے ہیں مگر وہ ماضی کی باتیں ہیں، اب دنیا میں بہت بہتری آچکی ہے، ہر سہولت میسر ہے اور دستانے بھی سستے ہیں۔ صابن سے ہاتھ دھوئیںاچھی طرح رگڑیں اور خشک کریں۔ اپنے ہاتھ سے نل بند نہ کریں بلکہ ٹشو سے کریں۔ اب سینسر والے نل آرہے ہیں جس سے مزید بہتری آرہی ہے۔ مریضوں کے چیک اپ میں بار بار ہاتھ دھونا مشکل ہوتا ہے۔ اس کے لیے Gel موجود ہے جو نان الکوحلک ہوتی ہے، اس سے ہاتھ صاف کرکے دستانے پہن لیں اور مریض کا چیک اپ کریں۔

پروفیسر ڈاکٹر کرنل عفت بتول
(پرنسپل کالج آف ڈینٹسٹری، شریف میڈیکلاینڈ ڈینٹل کالج، لاہور)

“Smile is a curve that sets everything straight” یہ اسی وقت ممکن ہے جب آپ کی مسکراہٹ میں ہر چیز متوازن ہو۔ ڈاکٹر امجد وائیں نے کہا کہ بچے کو پیدائش کے 6ماہ، ایک سال بعد ڈینٹسٹ کے پاس لے کر جانا چاہیے کیونکہ بچے کی پیدائش کے بعد جبروں، مسوڑھوں کا ٹھیک ہونا، دودھ کے دانت نکلنا اور پھر مستقل دانتوں کا آنا سب آرتھوڈونٹکس ہے لہٰذا آرتھوڈونٹسٹ ان سب چیزوں کو سپروائز کرتا ہے اور اس میں خرابیوں کو دور کرتے ہوئے دانتوں اور مسوڑھوں کی صحیح نشونما یقینی بناتا ہے۔ آرتھوڈونٹک ٹریٹمنٹ کیا ہے؟ یہ حقائق جاننے کے بعد کی منصوبہ بندی ہے۔ ڈیٹا اکٹھا کرنا اور اسے ٹھیک سے ترتیب دینا تاکہ علاج کے نتائج اچھے نکلیں اور ہڈیاںایک جگہ رک جائیں ، دانت سیدھے رہیں اور دوبارہ نہ ہلیں۔

یہ بھی ایک نظریہ ہے کہ علاج کے بعد دانت ایک جگہ ہمیشہ کیلئے برقرار رہتے ہیں۔ اگر آرتھو ڈونٹکس کے قوانین کو سامنے رکھتے ہوئے دانتوں کی ہڈیوں کے حساب سے الائنمنٹ ٹھیک کردی جائے تو یہ ہمیشہ کیلئے ہی ایک جگہ برقرار رہیں گے۔ مسکراہٹ صرف جذبات کا نام نہیں ہے بلکہ ٹیشوز، پٹھے و دیگر اعضاء مل کر ایک اچھی مسکراہٹ بناتے ہیں۔ Facial asthetics، Gingival asthetics، Macro asthetics اور Micro asthetics مسکراہٹ کے اہم اجزاء ہیں۔ علاقہ، کلچر، نسل وغیرہ کی وجہ سے یہ مختلف ہوتے ہیں۔ ہر کلچر میں خوبصورتی کا معیار مختلف ہوتا ہے۔ مسکراہٹ کو مثبت بنانے کیلئے مختلف قوانین موجود ہیں، Golden proportion ان میں سے ایک ہے۔ سوال یہ ہے کہ مونا لیزا کی پینٹنگ مشہور کیوں ہوئی؟جواب یہ ہے کہ اس کی مسکراہٹ منفرد ہے۔

وہ ایک خوبصورت مسکراہٹ ہے جس میں گولڈن پروپورشن کی تمام خصوصیات شامل ہیں۔ انسان کا جسم بھی گولڈن پروپورشن میں ہے۔ سمائل ڈیزائن میں gingival asthetics کا خاص خیال رکھنا ضروری ہے۔ Macro asthetics رنگ، شکل، طول و عرض، دانتوں کے سٹرکچر وغیرہ پر مبنی ہے جو ہر مریض کے حساب سے مختلف ہوتی ہیں۔ Micro asthetics کی بات کریں تو یہاں بھی گولڈن پروپورشن کے قانون کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ ہر آرتھو ڈونٹک ٹریٹمنٹ کا مقصد مریض کو winning smile دینا ہونا چاہیے۔

 پروفیسر ڈاکٹر امجد ایچ وائیں
(پریذیڈنٹ پاکستان اکیڈیمی آفپیڈیاٹرک ڈینٹسٹری )

منہ کی حالت اور ڈینٹل کیریز انسان کی پوری زندگی پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ عالمی ادارہ صحت کی جانب سے ایک تحقیق کی گئی جس کا نام “Global burden of dental disease” ہے۔ اس کے مطابق دنیا کی آبادی کا 50 فیصد دانتوں کی بیماریوں کا شکار ہے۔ ہمارے ملک میں dental caries ایک بڑا چیلنج ہے۔ ہمارے پاس خراب دانتوں کو ٹھیک کرنے کیلئے وسائل اور افرادی قوت ناکافی ہے۔ ایسے بے شمار سماجی عوامل ہیں جو دانتوں کی خرابی کا باعث بنتے ہیں لہٰذا خراب دانتوں کی بحالی اور بچاؤ دونوں ہی چیلنج ہیں۔

ڈاکٹر محی الدین اور ان کے ساتھیوں نے کراچی میں تحقیق کی جو 2015ء میں پاکستان جرنل آف ڈینٹل ایسوسی ایشن میں شائع ہوئی۔ اس تحقیق کے مطابق سکول کے 75 فیصد بچوںکو dental  caries ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ کراچی کے ہر 4میں سے 3 بچوں کے دانت خراب ہیں۔ اس رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ اوسطاََ ہر بچے کے منہ میں 3 دانت خراب تھے۔ اس سے یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کتنی بڑی خرابی ہے۔ امریکن اکیڈمی آف پیڈیاٹرک ڈینٹسٹری کے مطابق وہ بچہ جس کے منہ میں ایک خراب دانت ہے، اسے severe early childhood caries ہے جس کے بے شمار اثرات ہوتے ہیں۔

بچے کو درد ہوتا ہے، وہ ٹھیک سے بول نہیں سکتا، اسے سکون کی نیند نہیں آتی، اس کی نشو نما درست نہیں ہوتی، ذہن پر اثر پڑتا ہے وغیرہ۔ ایسے بچوں کا علاج جنرل انستھیزیا کے تحت کیا جاتا ہے، جس کے منفی اثرات میں موت بھی شامل ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ دانتوں کا علاج مہنگا ہوتا ہے۔ دنیا کی کوئی بھی حکومت دانتوں کا مفت علاج فراہم نہیں کرسکتی چاہے وہ کتنی ہی بڑی معیشت کیوں نہ ہو۔ میرے نزدیک دانتوں کی بیماریوں سے بچاؤ کا بہترین طریقہ احتیاط ہے۔ میری رائے ہے کہ ہمیں پالیسی میں بنیادی تبدیلیوں کی ضرورت ہے، انڈر گریجوایٹس کے نصاب میں پریوینٹیو اینڈ کمیونٹی ڈینٹسٹری کا حصہ موجود ہے۔ میرے نزدیک کلینکل نصاب میں بھی اسے شامل کرنا چاہیے۔ اسی طرح پوسٹ گریجوایٹ پروگرامز میں بھی پریوینشن کو شامل کیا جائے۔

ان طلبہ کو عوامی مباحثوں میں حصہ لینا چاہیے، منہ کا کینسر ہو یا کوئی اور بیماری، انہیں آگے آکر اس پر بات کرنی چاہیے۔ ہمارے ملک میں میڈیکل ڈاکٹر کو دانتوں کی بیماریوں کے بارے میں بہت کم علم ہوتا ہے۔ ہمیں اس پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ اس میں فائنل ایئر کے طلبہ کے لیے ایکسچینج پروگرامز کروائے جاسکتے ہیں تاکہ انہیں دانتوں کے امراض کے حوالے سے بہتر آگاہی ہوسکے۔ فیملی فزیشنز، گائناکولوجسٹ پہلا یونٹ ہوتے ہیں جہاں مریض سب سے پہلے آتا ہے۔ اگر انہیں دانتوں کے امراض اور احتیاط کے بارے میں آگاہی دی جائے، تو اس کا فائدہ ہوگا۔

ہمیں اس حوالے سے اقدامات کا آغاز کرنا ہوگا۔ ہمیں اپنی ورکشاپس، سیمینارز اوراداروں میں انہیں دعوت دینا ہوگی۔ ہمیں خصوصی طور پر ان کے لیے پروگرامز کا انعقاد کرنا چاہیے تاکہ وہ دانتوں کے امراض کے قومی بوجھ سے مقابلہ کرنے میں اپنا کردار ادا کرسکیں۔ پرنٹ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ ایکسپریس میڈیا گروپ نے اس حوالے سے قدم اٹھایا ہے جو بہترین ہے۔ سوشل میڈیا کی اہمیت زیادہ ہے۔ ہمیں فیس بک، واٹس ایپ وغیرہ کے استعمال سے اپنے مریضوں اور پاکستانیوں کو آگاہی دینی چاہیے۔ کمیونٹی آؤٹ ریچ پروگرام میںوقت کے ساتھ ساتھ بہتری آرہی ہے۔ حکومت اور نجی تنظیمیں اس پر کام کر رہی ہیں۔ انڈر گریجوایٹ سٹوڈنٹس کو یہ تربیت دی جاسکتی ہے کہ وہ سکولوں، شاپنگ مالز، ایونٹس وغیرہ کا دورہ کریں اور لوگوں کو دانتوں کی صحت کے حوالے سے آگاہی دیں۔

پروفیسر ڈاکٹر خرم عطاء اللہ
(سربراہ شعبۂ پریوڈنٹالوجی اینڈ امپلانٹالوجی فاطمہ میموریل ہسپتال کالج آف میڈیسن اینڈ ڈینٹسٹری پاکستان)

90 فیصد افراد کسی نہ کسی طرح مسوڑھوں کی بیماری کا شکار ہوتے ہیں مگران میں سے بیشتر لوگ علاج نہیں کرواتے جس سے مرض پیچیدہ ہوجاتا ہے۔صرف 5 سے 20 فیصد افراد ایسے ہیں جو مسوڑھوں اور دانتوں کے مسائل کے حل کیلئے ڈینٹسٹ کے پاس جاتے ہیں لہٰذا ہمیں لوگوں میں آگاہی پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ اس حوالے سے میڈیا کا کردار بھی انتہائی اہم ثابت ہوگا۔ بدقسمتی سے ڈاکٹرز کی بھی یہ عادت بن گئی ہے کہ جب تک مریض آکر کسی ایسی بیماری کی نشاندہی نہ کرے جو نظر آرہی ہو، ہمیں اس کا کھوج لگانے کی کوشش نہیں کرتے۔ مسوڑھوں کی بیشتر بیماریاں لوگوں کو لاحق ہوتی ہیں لہٰذا ہمیں ان بیماریوں کو تلاش کرنا ہوگا۔ ڈینٹسٹ نے دانتوں کے ایکسرے کو مرض سمجھنے کا ذریعہ بنا لیا ہے۔

ستم ظریفی یہ ہے کہ صرف ایکسرے دیکھ کر ادویات لکھ دی جاتی ہیں اور ڈینٹسٹ مریض کے منہ کا معائنہ کرنا بھی گوارا نہیں کرتے، ہمیں اس رویے کی حوصلہ شکنی کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر کوئی ایسا مریض آتا ہے جسے سکیلنگ ٹریٹمنٹ کی ضرورت ہو تو میرے نزدیک اس کی فوری سکیلنگ کے بجائے مزید معائنہ کریں۔ اس معائنہ کو ریکارڈ کا حصہ بنائیں تاکہ علاج میں مزید مدد مل سکے اور مرض کی تہہ تک پہنچا جا سکے۔ مسوڑھوں کا علاج صرف ایک گولی سے نہیں کرنا چاہیے بلکہ اس کے لیے مکمل تشخیص اور تحقیق کی جائے۔

ریڈیو گراف کی کوالٹی ہائی ہونی چاہیے کیونکہ اس سے تشخیص میں بہتری آئے گی۔ بلا ضرورت ریڈیو گراف کروانے کی عادت کو بھی ختم کرنا چاہیے۔ مریض کو فوری طور پر ہی سرجری کیلئے نہیں بھیجا جاتا بلکہ ایک پورا عمل ہوتا ہے۔ مریض کو یہ بتانا چاہیے کہ وہ خود اس علاج کا انچارج ہے۔ یہ اس پر منحصر ہے کہ اس نے اس سے کیا نتائج لینے ہیں۔ اس کیلئے مریض کی رہنمائی کی جائے اور اسے بتایا جائے کہ کس طرح اس نے منہ کی صفائی کرنی ہے۔ ایک اور اہم چیز “plaque control” ہے۔ 90 فیصد لوگ 20 سے 30 سیکنڈ کیلئے دانتوں کو برش کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں یہ پلاک کنٹرول کرنے کیلئے کافی ہے۔ اگر کوئی شخص 2 سے اڑھائی منٹ تک برش کرتا ہے تو اس سے 50 فیصد plaque ختم ہوتا ہے جبکہ باقی کے 50 فیصد کو ختم کرنے کیلئے interproximal cleaning لازمی ہے۔

اس بارے میں مریض کو بتانا چاہیے۔ Professional dental prophylaxis سادہ سکیلنگ نہیں ہے۔ یہ ہر طرح کی صفائی کرتا ہے چاہے یہ plaque ہو یا calculus۔ اگر ہم صرف سکیلنگ کریں اور پالش نہ کریں تو پہلے سے 100 گنا زیادہ خرابی کا خطرہ پیدا ہوجاتا ہے۔ اگر plaque و دیگر خرابیوں کو الٹرا سونک سکیلرز سے ختم کردیں تو بہتری آسکتی ہے، اس سے مریض کا اعتماد بھی بحال ہوگا۔

ڈینٹل ہائی جین کے طلباء مارکیٹ میں آرہے ہیں مگر ابھی ان کے لیے ملازمتیں نہیں ہیں، انہیں اپنے ساتھ منسلک کیا جاسکتا ہے، یہ حفظان صحت کے اصولوں کو بھی قائم رکھیں گے اور ڈیٹا بھی ریکارڈ کریں گے، اس طرح علاج موثر بنایا جاسکتا ہے۔ نان سرجیکل تھراپی بنیادی حیثیت رکھتی ہے۔ ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ سرجری پہلا حل نہیں ہے۔ اگر ایسا لگتا بھی ہے تو فوری سرجری نہیں کرنی چاہیے بلکہ پہلے نان رجیکل تھراپی کرنی چاہیے۔

پری ڈونٹل تھراپی کے حوالے سے ذکر کرنا ضروری ہے۔ مریض کو ذہنی طور پر تیار کریں کہ اسے senstivity کے مسائل ہوسکتے ہیں لیکن اگر ان کی حفاظت کی جائے تو اس پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ اس کے لیے گولگیٹ موجود ہے۔ ہر ایک کو senstivity toothpaste کی ضرورت نہیں ہے ، جسے ضرورت ہے اسے بتایا جائے کہ پہلے دانت صاف کرے اور پھر پیسٹ لگایا جائے۔90 فیصدمریضوں کو دانتوں کی صفائی جیسے نارمل طریقہ علاج کی ضرورت ہوتی ہے لہٰذا علاج کے ساتھ ساتھ مریضوں کی رہنمائی کی جائے۔

ڈاکٹر محمد عمران نصیر
(پرنسپل ڈینٹل سرجن، سرگنگا رام ہسپتال، لاہور)

ڈینٹین ہائپر سینسٹی ویٹی آج کل بہت عام ہے اور بے شمار افراد اس مرض میں مبتلا ہیں۔ یہ مرض ٹھنڈی یا گرم خوراک، ترش کھانوں، مٹھائیوں اور برش نہ کرنے سے ہوتا ہے۔ اعداد و شمار کی بات کریں تو 14.3فیصد مریض ہائپر سینٹی ویٹی میں مبتلا ہیں۔ 72 سے 98 فیصدپیری ڈونٹل مریضوں کو بھی ڈینٹین ہائپر سینسٹی ویٹی ہوتی ہے۔ 20 سے 50 برس عمر کے لوگوں میں سے 30 سے 40 برس کی عمر کے افراد اس مرض کے حوالے سے حساس ہیں ، انہیں یہ مرض لاحق ہوتا ہے۔ مسئلہ تب ہوتا ہے جب ڈینٹین کا Stimuli کے ساتھ رابطہ ہوتا ہے۔

سکیلنگ اینڈ روٹ پلاننگ،جوس، دہی، شراب کے اثرات، گیسٹرک رفلکس،نفسیاتی امراض و دیگر خرابی کی وجوہات ہیں۔ سیمنٹم اور انیمل کی خرابی کی وجہ سے ڈینٹین ایکسپوز ہوجاتی ہے جس سے سینسٹی ویٹی ہوتی ہے۔ ہائپر سینسٹی ویٹی کی علامات پر بات کریں تو اس میں شدید درد ہوتا ہے۔ ہائپر سینسٹی ویٹی شدید ہوتو برش کرنے سے بھی درد ہوتا ہے۔ اس کی تشخیص کیلئے ہسٹری ، نیچر اور درد کی شدت و غیرہ کا معلوم ہونا ضروری ہے۔اس کی تشخیص کلینکل ایگزامینیشن تھرمل ٹیسٹ، الیکٹریکل ٹیسٹ اور ریڈیو گرافی سے ہوتی ہے۔ اسی طرح اسکی مینجمنٹ کے بھی مختلف طریقے ہیں۔ ڈی سینسٹیائزیشن پوٹاشیم نائٹریٹ اور ڈی فلیمیٹری ایجنٹس سے کی جاسکتی ہے۔ ڈینٹل ٹربیول کو کور کرنا سب سے عام طریقہ علاج ہے۔ اس میں مختلف نمکیات سے فلنگ کی جاسکتی ہے۔

علاج کے بعد روٹ ہائپر سینسٹی ویٹی ہوسکتی ہے لہٰذاعلاج سے پہلے ہی مریض کو بتا دیا جاتا ہے۔ Plaque کنٹرول ضروری ہے۔ اس کے علاوہ ڈی سینسٹیائزیشن ایجنٹ استعمال کرنا بھی ضروری ہے۔ یہ مریض خود بھی کر سکتا ہے اورڈینٹسٹ سے بھی کروا سکتا ہے۔ آئیونیفکیشن سے بھی علاج ممکن ہے جس کے لیے مختلف سالٹس ہیں جو امریکن ڈینٹل ایسوسی ایشن نے منظور کیے ہیں۔ آج کل لیزر ٹریٹمنٹ بھی ہورہا ہے جو جدید اور اہم ہے۔ ڈی سینسٹائزینگ ایجنٹس با آسانی استعمال کیے جاسکتے ہیں، ایکشن تیزی سے کرتے ہیں اور یہ موثر بھی ہوتے ہیں۔ ان کی کچھ خرابیاں بھی ہیں کہ انہیں بار بار لگانا پڑتا ہے اور یہ عارضی ریلیف کیلئے ہیں۔ اب ایک نئی ٹیکنالوجی آئی ہے جسے Pro-Argin technology کہتے ہیں ۔

یہ سپیشل ٹیکنالوجی ہے جس کا تعلق آرجینین اور کیلشیم کاربونیٹ سے ہے۔ آرجینین قدرتی امائنو ایسڈ ہے جو بہت سارے بائیولوجیکل عوامل میں پایا جاتا ہے۔ یہ تھوک میں بھی موجود ہوتا ہے۔ آرجینین بائی پولر مالیکیول ہے۔ یہ کیلشیم اور فاسفیٹ کی پریسی پیٹیشن میں مدد کرتا ہے، کیلشیم کی جھلی بن جاتی ہے جو stimuli سے شیلڈ کا کام کرتی ہے۔ الیکٹران مائیکرو سکوپ سے سکیننگ کرنے کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ پرو آرجن کے اپلائی کیے بغیر ڈینٹینل ٹربیول میں سوراخ نظر آتے ہیں مگر جب اسے اپلائی کیا جاتا ہے تو یہ سوراخ ختم ہوجاتے ہیں۔ پروآرجن ٹیکنالوجی جدید اور بہترین ہے جو ڈینٹین ہائپر سینسٹی ویٹی سے بچاتی ہے۔ مریضوں کیلئے تجاویز یہ ہیں کہ توتھ پیسٹ، پاؤڈر و دیگر دانت صاف کرنے والی اشیاء کا زیادہ استعمال نہ کریں، اور برش کے دوران دوبارہ پیسٹ نہ لگائیں۔

مریض کونرم برش استعمال کرنا چاہیے۔ تیزابی کھانا ، کھانے کے فوری بعد برش نہ کریں کیونکہ اس وقت اینیمل کمزور ہوتی ہے، اگر برش کریں گے تو خراب ہوجائے گی۔ زور سے برش کرنا اور زیادہ دیر کیلئے کرنا بھی نقصان دہ ہے۔ زیادہ فلاسنگ کرنا بھی غلط ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔