شکریہ کیوی وزیراعظم جیسنڈا آرڈرن

ڈاکٹر حافظ اسامہ اکرم  جمعـء 22 مارچ 2019
نیوزی لینڈ کی وزیراعظم اور دوسرے غیرمسلموں کا رویہ دیکھ کراحساس ہوتاہے کہ جس اعلی اخلاق کا درس اسلام نے دیا ہے، اس پر عمل وہاں ہورہا ہے۔ (فوٹو: فائل)

نیوزی لینڈ کی وزیراعظم اور دوسرے غیرمسلموں کا رویہ دیکھ کراحساس ہوتاہے کہ جس اعلی اخلاق کا درس اسلام نے دیا ہے، اس پر عمل وہاں ہورہا ہے۔ (فوٹو: فائل)

ہم سے ہزاروں کوس دور نیوزی لینڈ ایک ایسا خطہ ہے جو ہماری دسترس سے کہیں دور رہا۔ تاریخ میں آج تک کسی بھی مسلم حکمران یا داعی نے اس طرف نہیں دیکھا، نہ ہی کبھی کوئی باقاعدہ دعوتی مشن اس طرف روانہ کیا گیا۔ 1850 میں جب برصغیر میں اسلامی حکومت پر زوال آیا، تب ایک ہندوستانی گجراتی مسلم خاندان، نیوزی لینڈ کے شہر کرائسٹ چرچ میں آن بسا۔ اس کے بعد کچھ دیگر ممالک کے مسلمان بھی اس طرف وقتاً فوقتاً رخ کرتے رہے۔ نیوزی لینڈ میں 1950 تک مسلمان بہت ہی معمولی تعداد میں رہے جن کی نہ تو کوئی شناخت تھی اور نہ عبادت گاہ۔ 1951 میں یوگوسلاویہ سے نقل مکانی کرکے انے والے ’’مظہر سکری‘‘ نے پہلی بار نیوزی لینڈ کے مختلف شہروں میں بکھرے ہوئے مسلمانوں سے رابطہ کرکے انہیں ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کیا جن میں زیادہ تر پاکستانی، لبنانی اور بھارتی مسلمان شامل تھے۔

1979 میں مظہر سکری نے فیڈریشن آف اسلامک ایسوسی ایشنز آف نیوزی لینڈ (FIANZ) کی بنیاد رکھی جس سے مسلمانوں کو وہاں قومی سطح پر ایک پہچان ملی، جس کے پلیٹ فارم سے مسلمانوں کےلیے ’’حلال غذا‘‘ (حلال فوڈ) اور دیگر مسائل کے حل کی کوششیں شروع کی گئیں۔ 1984 میں ایک پاکستانی مسلمان سائنسدان ڈاکٹر اشرف چوہدری اسلامک ایسوسی ایشن (FIANZ) کے صدر منتخب ہوئے۔ ان کے دور میں ہی نیوزی لینڈ میں پہلی باقاعدہ مسجد بنائی گئی جس کا نام ’’النور مسجد‘‘ رکھا گیا اور باقاعدہ دعوتی سرگرمیاں شروع ہوئیں۔ ڈاکٹر اشرف صاحب نے نیوزی لینڈ کی لیبر پارٹی کے پلیٹ فارم سے قومی سیاست میں بھی قدم رکھا اور 2002 میں نیوزی لینڈ کے پہلے مسلمان سینیٹر منتخب ہوئے۔ ان کے حلف اٹھانے کےلیے نیوزی لینڈ کی پارلیمنٹ میں پہلی دفعہ قرآن پاک لایا گیا۔ 9/11 کے بعد یہاں کے باشندوں میں بھی اسلام کے بارے میں مزید تجسس پیدا ہوا جو بہت سے لوگوں کے اسلام قبول کرنے کا پیش خیمہ ثابت ہوا۔

مجموعی طور پر نیوزی لینڈ ایک پرامن ملک ہے جہاں مختلف رنگ، نسل اور مذاہب سے تعلق رکھنے والے لوگ خوش و خرم بس رہے ہیں۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ یہاں کی پولیس بھی عام طور پر اسلحے کے بغیر ہوتی ہے۔ ملک میں عدل و انصاف کا مثالی نظام قائم ہے۔ لوگ ایک دوسرے کو برداشت کرتے اور جینے کا مکمل حق دیتے ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے 15 مارچ 2019 کو ایک سفید فام صلیبی دہشت گرد، نیوزی لینڈ کی سب سے بڑی اور پرانی مسجد ’’النور‘‘ میں گھستا ہے اور جمعہ کی نماز کےلیے آنے والے نہتے مسلمانوں پر اندھا دھند فائرنگ شروع کر دیتا ہے، جس کے نتیجے میں پچاس کے لگ بھگ شہادتیں موقعے پر ہوجاتی ہیں اور دنیا کے مختلف ممالک کی طرف میتیں روانہ کی جاتی ہیں۔

تمام عالم اسلام غم و غصے کی کیفیت میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ مگر نیوزی لینڈ کی حکومت اور مقامی آبادی اس موقعے پر بہترین کردار ادا کرتے ہوئے، کھل کر اقلیتی مسلمانوں کا ساتھ دیتے ہیں۔ مساجد میں شہریوں کا تانتا بندھ جاتا ہے۔ لوگ شہداء کے لواحقین کو پھولوں کے گلدستے پیش کرتے ہیں۔

وزیراعظم نیوزی لینڈ جیسنڈا آرڈرن اس واقعے کو دہشت گردی قرار دیتے ہوئے مسلمانوں کے غم کو اپنا غم قرار دیتی ہیں۔ حتی کہ سر پر دوپٹہ اوڑھے اسلامی لباس میں مسجد النور میں تعزیت کےلیے جاتی ہیں اور روتی بیواؤں اور یتیم بچوں کو اپنے گلے سے لگاتی ہیں۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ فوراً مجرم کو پکڑ کر اس پر فرد جرم عائد کرکے عدالتی کارروائی شروع کردی جاتی ہے؛ اور ملکی اسلحے کے قوانین میں ترمیم کر دی جاتی ہے جس پر عمل درآمد بھی شروع کردیا جاتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کی مزید دلجوئی کےلیے پارلیمنٹ کا اجلاس شروع کرنے سے پہلے تلاوت قرآن کا اہتمام کیا جاتا ہے۔

نیوزی لینڈ کے ریڈیو اور ٹی وی اسٹیشنوں سے جمعے کی اذان بطورِ خاص نشر کی جاتی ہے تاکہ وہاں معمولی تعداد میں موجود مسلمانوں سے اظہارِ یکجہتی کیا جائے۔

بین الاقوامی طور پر مسلمانوں کو اسلاموفوبیا کے نتیجے میں ہونے والی دہشت گردی کا شکار سمجھا جاتا ہے۔ یہ سب دیکھ کر دل میں وزیراعظم جیسنڈا کےلیے عزت و احترام بہت بڑھ جاتا ہے کہ انہوں نے کتنے احسن طریقے سے اس سانحے کا سامنا کیا۔ اللہ تعالی کا بھی الگ ہی قانون ہے کہ اس حملے سے سفید فام دہشت گرد کی خواہش مٹی میں مل جاتی ہے۔

ایک مرتبہ پھر نیوزی لینڈ کے مسلمان مساجد کا رخ کرتے ہیں لیکن اس بار مسلمانوں کے ساتھ ساتھ اظہار یکجہتی کےلیے نیوزی لینڈ کے دیگر لوگ بھی مسجد پہنچتے ہیں۔ مسلمان نماز پڑھتے ہیں اور دیگر مذاہب کے ماننے والے ان کی حفاظت کےلیے صفوں کے پیچھے کھڑے نظر آتے ہیں۔ کچھ اطلاعات کے مطابق تو غیر مسلم، مسجد میں اسلام کے بارے میں متجسسانہ رویہ اختیار کرتے ہوئے سوالات کر رہے ہیں۔ اقبالؒ کا شعر ملاحظہ کیجیے:

ہے عیاں یورشِ تاتار کے افسانے سے
پاسباں مِل گئے کعبے کو صنَم خانے سے

نیوزی لینڈ کی وزیراعظم اور وہاں کے غیر مسلموں کا رویہ دیکھ کر احساس ہوتا ہے کہ جس اعلی اخلاق کا درس اسلام نے ہمیں دیا ہے، اس پر عمل وہاں ہورہا ہے۔

شکریہ کیوی وزیراعظم جیسنڈا آرڈرن… ہماری فراموش کردہ اخلاقی اقدار، اپنے کردار و عمل سے، ہمیں ایک بار پھر یاد کروانے کےلیے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔