بڑھتی ہوئی گاڑیوں کے مقابلے میں پنجاب کی سڑکین سکڑنے لگیں

رضوان آصف  بدھ 20 مارچ 2019
نئی موٹر وہیکلز کیلئے گنجائش تیزی سے ختم ہو رہی ہے، فوٹو: ایکسپریس

نئی موٹر وہیکلز کیلئے گنجائش تیزی سے ختم ہو رہی ہے، فوٹو: ایکسپریس

 لاہور: پنجاب کی سڑکیں بڑھتی ہوئی موٹر سائیکلز کے مقابلے میں سکڑنا شروع ہو گئی ہیں اور وہاں نئی موٹر وہیکلز کیلئے گنجائش تیزی سے ختم ہو رہی ہے۔

صوبے میں رجسٹرڈ موٹر سائیکلز کی تعداد 1 کروڑ57 لاکھ سے تجاوز کر گئی ہے جبکہ کاروں کی مجموعی تعداد 17 لاکھ ہے،ایک کار کے مقابلے میں 9 موٹر سائیکل کے تناسب نے ٹریفک کے مسائل کو بڑھا دیا ہے ۔

پنجاب کی سڑکوں پر یومیہ ہونے والے 500 سے زائد ٹریفک حادثات میں سے 400 سے زائد موٹر سائیکل سواروں کے ساتھ پیش آتے ہیں،والدین کی جانب سے تعلیمی اداروں میں جانے والے بچوں کو بڑی تعداد میں پاکستانی ساختہ کم قیمت موٹر سائیکلزکی فراہمی ،یومیہ معمولی قسط پر بائیک خریدنے کے رحجان میں اضافہ نے ٹریفک پولیس کیلئے سڑکوں پر ٹریفک کو نارمل بہاو پر چلانا مشکل بنا دیا ہے جبکہ سڑک پر چلتی کاروں کے درمیان سانپ کی طرح بل کھاتی موٹر سائیکلز کار ڈرائیوز کیلئے ذہنی پریشانی کے علاوہ ٹریفک میں خلل کا باعث بھی بن رہی ہیں۔

تفصیلات کے مطابق پاکستان کے سب سے بڑے صوبہ پنجاب میں ٹریفک مسائل بڑھتے جا رہے ہیں جس کے سبب لوگوں میں عدم برداشت بھی بڑھ رہی ہے اور اس کی وجہ سے ذہنی تناو اور چڑچڑا پن بھی بڑھ رہا ہے۔2010 ء میں پنجاب میں رجسٹرڈ موٹر سائیکل کی مجموعی تعداد 52 لاکھ53 ہزار تھی جو 2018 کے اختتام تک تین گنا اضافہ کے ساتھ 1 کروڑ57 لاکھ ہو چکی ہے اور اس میں سالانہ 15 لاکھ سے زائد کا اضافہ ہو رہا ہے۔

دوسری جانب 2010 میں پنجاب کی شاہراوں پر چلنے والی 10 لاکھ گاڑیوں کی تعداد اس وقت بڑھ کر 17 لاکھ30 ہزار ہو چکی ہے اور سالانہ ایک لاکھ کے لگ بھگ نئی گاڑیاں رجسٹر ہو رہی ہیں۔ان اعدادوشمار کا جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت سڑکوں پر ایک گاڑی کے مقابلے میں 9 موٹر سائیکلیں چل رہی ہیں۔

سڑکوں پر موٹر سائیکلز کی تعداد میں غیر معمولی اضافے کی متعدد وجوہات ہیں جن میں سب سے اہم وجہ مقامی طور پر تیار کردہ کم قیمت موٹر سائیکلز کی دستیابی ہے جس کی وجہ سے والدین نے اسکول،کالج جانے والے بچوں کو یہ موٹر سائیکلز فراہم کردی ہیں کیونکہ والدین سمجھتے ہیں کہ پنجاب کا پبلک ٹرانسپورٹ سسٹم اس قدر گنجائش اور دستیابی کے قابل نہیں ہے کہ ان کے بچے اپنے تعلیمی ادارےمیں آنے جانے کیلئے اسے استعمال کریں۔

غیر ملکی ساختہ موٹر سائیکل کی قیمت 70 ہزار سے 1 لاکھ30 ہزار تک ہے جبکہ مقامی ساختہ موٹر سائیکل 40 ہزار روپے کے لگ بھگ دستیاب ہوتی ہے،اس وقت ایک نیا کاروبار بھی زور پکڑ رہا ہے جس کے تحت بعض افراد یا کمپنیاں لوگوں کو یومیہ 50 سے100 روپے قسط پر موٹر سائیکلز فروخت کر رہی ہیں اور اس سہولت سے فائدہ اٹھانے والوں میں زیادہ تعداد مزدور پیشہ لوگوں کی ہے۔

ڈائریکٹر جنرل ریسکیو 1122 پنجاب ڈاکٹر رضوان نصیرکا بیان

ڈائریکٹر جنرل ریسکیو1122 ڈاکٹر رضوان نصیر کا کہنا ہے کہ پنجاب کی سڑکوں پر اوسطاً روزانہ 530 سے زائد ٹریفک حادثات ہوتے ہیں جن میں سے 430 سے زائد موٹر سائیکل سواروں کے ہیں۔حادثات کا شکار ہونے والے موٹر سائیکل سواروں میں اکثریت کم عمر نوجوانوں کی ہوتی ہے ۔ٹریفک حادثات میں مرنے والوں کی شرح میں بھی موٹر سائیکل سوار سب سے زیادہ ہوتے ہیں۔

ڈاکٹر رضوان نصیر نے کہا کہ ناقص معیار کی موٹر سائیکل کا بننا، ڈرائیونگ لائسنس اور تربیت حاصل کیئے بغیر نوجوانوں کا بائیکل چلانا، ہیلمٹ کا استعمال نہ کرنا ٹریفک حادثات کی بڑی وجہ ہیں۔والدین کی لاپرواہی سے 12 سال یا اس بھی کم عمر کے بچے سڑکوں پر بائیک چلاتے دکھائی دیتے ہیں جو اپنی زندگی کے ساتھ ساتھ دوسروں کی جان کو بھی خطرے میں ڈال دیتے ہیں۔

سٹی ٹریفک افسر (ایس ایس پی) ٹریفک لاہور کیپٹن(ر) ملک لیاقت علی کا بیان

لاہور ٹریفک پولیس کے سربراہ کیپٹن(ر) ملک لیاقت علی نے بتایا کہ سڑکوں کی گنجائش ختم ہو رہی ہے ،ٹریفک کے حوالے سے موٹر سائیکل ایک بڑی وجہ ہیں جو ٹریفک نظام کو ڈسٹرب کر رہی ہے ،موٹر سائیکلز کی تعداد کاروں کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ ہے جبکہ موٹر سائیکل کا سب سے زیادہ استعمال اس وقت نوجوان کر رہے ہیں ،قسطوں پر بائیک کی دستیابی نے بھی سڑکوں پر موٹر سائیکلز کا رش بڑھادیا ہے۔

ہم نے آزمائشی طور پر لاہور میں چند ایک سڑکوں کے ساتھ موٹر سائیکل سواروں کیلئے الف لین بنائی ہے لیکن موٹرسائیکل سوار اسے استعمال نہیں کرتے اور مادر پدر آزاد انداز میں سڑکوں پر رواں دواں رہتے ہیں جس کی وجہ سے ٹریفک کا بہاو متاثر ہوتا ہے۔ آپ کسی بھی شاہراہ کا جائزہ لے لیں ،موٹر سائیکل سوار لین کی پابندی نہیں کرتا اور جہاں دل چاہتا ہے بائیک چلاتا ہے۔

ہم ہر چوک یا سڑک پر وارڈن کھڑا نہیں کر سکتے، من الحیث القوم کچھ زمہ داری عوام کی بھی ہوتی ہے کہ وہ قانون کی پابندی کریں ،موٹر سائیکل سوار کو اگر وارڈن روکتا ہے تو وہ الجھ پڑتا ہے یا اس کے ساتھ سوار خاتون بدتمیزی شروع کر دیتی ہے اور سارا ملبہ وارڈن پر ڈال دیا جاتا ہے۔

گزشتہ برس 2018 ء میں لاہور میں 312 وارڈنز کو موٹر سائیکل سواروں نے تشدد کر کے زخمی کیا تھا۔70 فیصد سے زائد موٹر سائیکلز کے اوپر بیک ویو شیشے موجود نہیں ،ان کی عقبی اور سامنے کی ہیڈ لائٹس خراب ہیں جس کی وجہ سے رات کو زیادہ حادثات ہو تے ہیں ،ٹریفک پولیس نے گزشتہ 6 ماہ کے دوران لاہور کے سکولز اور کالجز میں سیمینار منعقد کر کے 5 لاکھ سے زائد لوگوں کو ٹریفک ڈسپلن بارے تربیت دی ہے لیکن ہم ساری قوم کو ڈنڈے سے ٹھیک نہیں کر سکتے ،جب تک والدین اپنے بچوں کو شعور نہیں دیں گے اور لوگ خود قانون کی عملداری نہیں کریں گے مسائل حل نہیں ہو سکتے۔

پنجاب سیف سٹی اتھارٹی کے چیف آپریٹنگ افسر اکبر ناصر خان کا بیان

پنجاب سیف سٹی اتھارٹی کے سی او اکبر ناصر خان نے کہا کہ سیف سٹی اتھارٹی کے کیمرے ٹریفک رولز پر عملدرآمد کروانے اور جرائم کی بیخ کنی میں اہم کردار نبھاہ رہے ہیں، ابتک سیف سٹی اتھارٹی نے 8 لاکھ سے زائد ٹریفک ای چالان جاری کیے ہیں لیکن موٹر سائیکل سواروں کے حوالے سے مزید کام کرنے اور نئی حکمت عملی بنانے کی ضرورت ہے کیونکہ موٹر سائیکل سوار طبقہ کی اکثریت ای چالان کا جرمانہ جمع نہیں کرواتی۔

سیف سٹی اتھارٹی کی مانیٹرنگ میں یہ واضح ہو چکا ہے کہ ٹریفک قوانین کی سب سے زیادہ خلاف ورزی موٹر سائیکل سواروں کی جانب سے کی جاتی ہے۔بیشتر موٹر سائیکلز پر کمپیوٹر نمبر پلیٹ نہیں لگی ہوتی یا ٹوٹی ہوتی ہے یا پھر فینسی پلیٹ لگائی ہوتی ہے جس کی وجہ سے کیمروں کے ذریعے شناخت کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔دہشت گردی اور جرائم کی وارداتوں میں زیادہ تر موٹر سائیکل کا استعمال ہوتا ہے لہذا یہ ضروری ہے کہ بغیر کمپیوٹرائزڈ نمبر پلیٹ والی موٹر سائیکل کو سڑک پر آنے سے روکنے کیلئے بھرپور حکمت عملی بنائی جائے۔

ڈائریکٹر جنرل محکمہ ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن پنجاب اکرم اشرف گوندل کا بیان

ڈی جی ایکسائز پنجاب اکرم اشرف گوندل نے کہا کہ ہمارے پاس رجسٹرڈ موٹر سائیکلز کی تعداد ڈیڑھ کروڑ سے زائد ہے اور ہمارے اندازے کے مطابق کم ازکم 1 کروڑ20 لاکھ کے قریب موٹر سائیکلز قابل استعمال حالت میں سڑکوں پر چل رہی ہیں۔گزشتہ چھ ،سات برس میں موٹر سائیکلز کی تعداد میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔

نئی رجسٹر ہونے والی موٹر سائیکل کو تو کمپیوٹرائزڈ نمبر پلیٹ ساتھ ہی فراہم کردی جاتی ہے لیکن 50 سے60 لاکھ موٹر سائیکلز ایسی ہیں جن کے مالکان نے کمپیوٹرائزڈ نمبر پلیٹ کے حصول کیلئے مقررہ فیس جمع کروا کر درخواست نہیں دی ہے،ہم متعدد بار میڈیا کے ذریعے عوام کو آگاہ کر چکے ہیں کہ وہ اپنی قومی ذمہ داری سمجھتے ہوئے کمپیوٹرائزڈ نمبر پلیٹ حاصل کریں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔