بہن بھائی نہیں میاں بیوی

سعد اللہ جان برق  جمعرات 21 مارچ 2019
barq@email.com

[email protected]

لوگ کہتے ہیں کہ’’خوشی اور غم‘‘ دونوں’’بہن بھائی‘‘ ہیں خاص طور پر پڑوسی ملک میں تو اس پر فلم بھی بنی ہے ’’کبھی خوشی کبھی غم‘‘۔شاید وہاں ایسا ہی ہوتا ہوگا۔ہمارا تو ہمیشہ اس کم بخت اور دل سخت ’’غم‘‘ ہی سے واسطہ رہاہے، اس کی سوکال بہن سے کبھی ملاقات نہیں ہوپائی۔ یہ غم انفرادی اور اجتماعی سطح پر بھی ہوتے ہیں کیونکہ ہم الیکشنوں میں بھی غموں ہی کو منتخب کرتے ہیں کیونکہ ’’خوشی‘‘ کے پاس اتنے پیسے کہاں جو نومن تیل خریدے اور پھر الیکشن کی ’’رادھا‘‘ کو اپنے آنگن میں نچائے۔

ہم بھی کیا بات لے بیٹھے۔بات ہم ان دونوں یعنی’’شادی اور غم‘‘ کے رشتے کی کرنا چاہتے ہیں جو عام طور پر’’بہن بھائی‘‘ مشہور ہیں یہاں تک کہ ہمارے دوست ڈاکٹر اسرار کا اصرار ہے کہ،کیاہی اچھا ہوتا اگر یہ ’’بھائی‘‘ بچپن ہی میں نمونیے کا شکار ہوکر مرگیا ہوتا۔

ڈاکٹر اسرار تو نرے شاعر ہیں اور شاعروں کو تحقیق کرنے سے کیا واسطہ وہ تو محبوب کو چاند سے بھی تشبیہ دے دیتے ہیں جو بدصورت ہی نہیں چیچک زدہ بھی ہے لیکن سورج سے میک اپ کا سامان لے کر شاعروں کو ہراساں کرتارہتاہے۔ ڈاکٹر اسرار کی سادگی کا اندازہ اس کے سوا کچھ اور شعروں سے بھی ہوتاہے۔ مثلاً میں آخرت میں مجنوں سے کہوں گا کہ میں بھی تیری طرح عاشق تھا لیکن کچھ زیادہ’’مزا‘‘ میرا نہیں تھا یا یہ کہ، یا خدا مجھ سے زندگی کا حساب مت مانگ۔کہ پہلی ’’زندگی‘‘ تھی اس لیے تجربہ نہیں تھا۔ اور پھر یہ کہ اگر منکر نکیر مجھ سے سوال وجواب کریں گے تو میں کہہ دوں گا کہ میں پشتون تھا یعنی میرا کوئی نام ہی نہ تھا۔

اب ایسے نرے شاعر سے تحقیق کی توقع کی ہی نہیں جاسکتی اس لیے اس کی یہ بات سرے ہی سے غلط ہے کہ ’’خوشی اورغم‘‘ آپس میں بہن بھائی ہیں۔

آپ تو جانتے ہیں کہ ہم محقق ہیں اچھے خاصے کوالیفائڈ کہ پشتو اکیڈیمی کی دیوار سے پورا ایک دن ٹیک لگاکر گزار چکے ہیں اور قانون نافذکرنے والے اداروں سے بھی ہم مستقل ٹیوشن لیتے رہتے ہیں اس لیے ہم نے اس غلط العام کی تحقیق کرنے کی بھی ٹھان لی کہ ہر دو خواتین وحضرات یعنی خوشی اور غم کا آپسی رشتہ کیاہے اور آپ یہ سن کرحیران بلکہ پریشان یعنی ناطقہ سربگریباں اور انگشت بدندان رہ جائیں گے کہ یہ دونوں آپس میں بہن بھائی نہیں بلکہ ’’زن وشو‘‘ ہیں یعنی میاں بیوی۔بلکہ ایم بی بی ایس کیونکہ ان میاں بیوی کی اولاد بھی تو پیدا ہوتی رہتی ہے۔

آپ پوچھیں گے کہ یہ بات ہمیں کیسے پتہ چلی تو وہ ان دونوں کی پوزیشن اور کٹے دھرے سے معلوم ہوئی۔

بیچاری خوشی تو آپ کو معلوم ہے کہ بیوی ہونے کے ناتے محض ہاؤس وائف ہوتی ہے آتی بھی ہے تو تقریباً نہ آئے کے برابر۔

ہماری سادگی تھی التفات نازپرمرنا

تیرا آنا نہ تھا ظالم مگر تمہید جانے لگی

گھریلو عورت،باپردہ خواتین اور بچوں کی ماں ہے اس لیے اتنی فرصت ہی کہاں کہ کہیں زیادہ دیر ٹھہر سکے بس آتی ہے ’’پون‘‘اورجاتی ہے پون ہوتی ہے صرف چہرہ کراکر فوراً چلی جاتی ہے یا وہ نکما نکھٹو آوارہ بدمعاش شوہر آکر اسے لے جاتاہے مطلب یہ کہ

چھپ جاتی ہیں آئینہ دکھاکرتری یادیں

سونے نہیں دیتیں مجھے شب بھر تری یادیں

اور غم وہ تو آوارہ جہاں گشتہ ہر جگہ موجود رہتاہے اوپر سے اس کی مفت خوری کی اور دوسروں کے گھر مہمان بن کرنازل ہونے کی عادت۔اور بھلکڑ بھی ہے کہ آ تو جاتاہے لیکن پیشہ ورمہمان کی طرح جانا بھول جاتاہے ایسے ’’جمائی‘‘ قسم کے مہمانوں کے لطیفے تو آپ نے بہت سنے ہوں گے جن کو گھر سے نکالنے کے لیے بعض اوقات میزبانوں کو طرح طرح کے جتن کرنا پڑتے ہیں لیکن پھر بھی وہ جانے کانام نہیں لیتے۔

ہمارے ایک بزرگ شاعر نے دوسرے بزرگ شاعر جو اب دونوں ہی گزرگ ہوچکے ہیں، کے بارے میں بتایا کہ وہ اتنے زیادہ اور مستقل مہمان طبع تھے کہ آپ کے پاس دوچار مہینے کے بعد نازل ہوں تو آپ سوچیں گے کہ اپنے گھر سے آیا ہوگا لیکن وہ آپ کے گھر سے چار مہینے پہلے وداع ہوکر مہمانی ہی مہمانی کے دوران دوسرا چکر لگاکر آیاہوتا تھا۔

سب سے بڑی دلیل’’خوشی اورغم‘‘ کے ’’زن وشو‘‘ ہونے کی یہ ہے کہ خوشی مسلسل بچے جنتی رہتی ہے اور وہ سب کے سب باپ پر گئے ہوتے ہیں

خوشی کے ساتھ شامل غم بھی ہوتاہے

جہاں بجتی ہے شہنائی وہاں ماتم بھی ہوتاہے

اس میں تھوڑی ترمیم کرکے ’’بھی‘‘ کی جگہ’’ہی‘‘ پڑھیے تو وہی ہوگی کیونکہ خوشی جب بھی ’’جنتی‘‘ ہے غم ہی جنتی ہے اور غم؟ وہ تو اپنی اولاد بھی خوشی سے جنواتاہے۔ آگر کوئی کہے کہ محترمہ آدھے گھر میں چھوڑے ہوتے تو کہتی ہے وہ ہی تو کرکے آئی ہوں آدھے گھر میں بھی چھوڑ آئی ہوں گھر کا کباڑہ اور برتن بھانڈوں کی ایسی کی تیسی کرنے کے لیے۔ ان دونوں میاں بیوی کی شاید جسمانی و روحانی و رومانی ساخت ہی ایسی ہے کہ آج تک ایسا کبھی نہیں ہواہے جب خوشی کی گود کسی’’بچی‘‘ سے ہری ہوئی ہو یا کوئی بچہ اپنی ماں پر گیا ہو بلکہ بیوی کی جسمانی ساخت میں کچھ ایسی’’گڑبڑ‘‘(شاید غم ہی کی ہو)کہ سنگل پھیرا تو لگاتی ہی نہیں،ہمیشہ جڑواں تڑواں ’’غم‘‘ جنتی ہے بلکہ بعض اوقات تو پوری جھول بھی جنتی ہے جنھیں دودھ پلا کر خوشی کی رہی سہی جان بھی نکل جاتی ہے۔ اس مسلسل زچگی اور دودھ پلانے اور پالنے پوسنے سے بیچاری خوشی اتنی پیلی پڑگئی ہے اور اتنی کمزور اور ساتھ ہی بیزار بھی ہوچکی ہے کہ کہیں مشکل سے دکھائی دیتی ہے بس پڑی رہتی ہے غم کی اولاد پالنے کے لیے گھر میں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔