عید الفطر: تاریخی پس منظر، عظمت اور فلسفہ

مفتی منیب الرحمن  جمعـء 9 اگست 2013
مسلمانوں کا آپس میں مل بیٹھنا، نفرتوں ، عصبیتوں اور کدورتوں کو مٹانا اور محبتوں کی خوشبوؤں کو قلب و نظر میں بسانا اگر غلامان مصطفیٰ کو عید کے دن میسر ہو جائے، تو یہ معراجِ عید ہوگی۔ فوٹو : فائل

مسلمانوں کا آپس میں مل بیٹھنا، نفرتوں ، عصبیتوں اور کدورتوں کو مٹانا اور محبتوں کی خوشبوؤں کو قلب و نظر میں بسانا اگر غلامان مصطفیٰ کو عید کے دن میسر ہو جائے، تو یہ معراجِ عید ہوگی۔ فوٹو : فائل

روح کی لطافت، قلب کے تزکیہ، بدن و لباس کی طہارت اور مجموعی شخصیت کی نفاست کے ساتھ انتہائی عجز و انکسار اور خشوع و خضوع کے ساتھ تمام مسلمانوں کا اسلامی اتحاد و اخوت کے جذبے سے سرشار ہوکر اللہ رب العزت کی بارگاہ میں سجدئہ بندگی اور نذرانہء شکر بجا لانے کا نام عید ہے۔

سال میں چند ایام جشن، تہوار اور عید کے طور پر دنیا کی تمام اقوام و ملل اور مذاہب میں منائے جاتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ ہر قوم، مذہب و ملت کے لوگ اپنے ایامِ عید کو اپنے اپنے عقائد، تصورات، روایات اور ثقافتی اَقدار کے مطابق مناتے ہیں، لیکن اس سے یہ حقیقت ضرور واضح ہوتی ہے کہ تصور ِعید انسانی فطرت کا تقاضا اور انسانیت کی ایک قدر مشترک ہے۔ مسلمان قوم چوں کہ اپنی فطرت، عقائد و نظریات اور ملی اقدار کے لحاظ سے دنیا کی تمام اقوام سے منفرد و ممتاز ہے۔ اس لیے اس کا عید منانے کا انداز بھی سب سے نرالا ہے۔ دیگر اقوام کی عید محافل ناؤ نوش و رقص و سرود بپا کرنے، دنیا کی رنگینیوں اور رعنائیوں میں کھو جانے کا نام ہے۔ اس کے برعکس اسلام میں روح کی لطافت، قلب کے تزکیے‘ بدن و لباس کی طہارت اور مجموعی شخصیت کی نفاست کے ساتھ انتہائی عجز و انکسار اور خشوع و خضوع کے ساتھ تمام مسلمانوں کے اسلامی اتحاد و اخوت کے جذبے سے سرشار ہو کر اللہ رب العزت کی بارگاہ میں سجدئہ بندگی اور نذرانہء شکر بجا لانے کا نام عید ہے۔

قرآن مجید میں ذکرِ عید
قرآن مجید میں سورئہ مائدہ میں حضرت عیسٰی علیہ السلام کی ایک دعاء کے حوالے سے عید کا ذکر موجود ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ترجمہ: ’’ عیسٰی ابن مریم (علیہ السلام) نے عرض کیا کہ اے اللہ! ہمارے پروردگار! ہم پر آسمان سے کھانے کا ایک خوان اتار دے (اور اس طرح اس کے اترنے کا دن) ہمارے لیے اور ہمارے اگلوں، پچھلوں کے لیے (بطور) عید (یادگار) قرار پائے اور تیری طرف سے ایک نشانی ہو اور ہمیں رزق عطا فرما اور تو بہترین رزق عطا فرمانے والا ہے۔‘‘ (المائدہ :114)
اس سے اگلی آیت میں ارشاد خداوندی ہے: ترجمہ: ’’ اللہ نے فرمایا کہ میں یہ (خوان) تم پر اتار تو دیتا ہوں مگر اس کے بعد تم میں سے جو کفر کرے، تو میں اسے ایسا عذاب دوں گا جو سارے جہانوں میں اور کسی کو نہ دیا ہو۔‘‘

اسلام میں عید کا آغاز
خالص اسلامی فکر اور دینی مزاج کے مطابق اسلامی تمدُّن، معاشرت اور اجتماعی زندگی کا آغاز ہجرت کے بعد مدینۂ منوّرہ میں ہوا۔ چناںچہ رسول اللہ ﷺ کی مَدَنی زندگی کے ابتدائی دور میں عیدین کا مبارک سلسلہ شروع ہوگیا تھا، جس کا تذکرہ سنن ابی داؤد کی مندرجہ ذیل حدیث میں ملتا ہے۔ ’’ حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ اہل ِمدینہ دو دن بطور ِتہوار منایا کرتے تھے جن میں وہ کھیل تماشے کیا کرتے تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے ان سے پوچھا: ’’یہ دو دن جو تم مناتے ہو، ان کی حقیقت اور حیثیت کیا ہے؟‘‘ (یعنی ان تہواروں کی اصلیت اور تاریخی پس منظر کیا ہے؟)، انہوں نے عرض کیا کہ ہم عہد ِجاہلیت میں (یعنی اسلام سے پہلے) یہ تہوار اسی طرح منایا کرتے تھے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’ اللہ تعالیٰ نے تمہارے ان دونوں تہواروں کے بدلے میں تمہارے لیے ان سے بہتر دو دن مقرر فرما دیئے ہیں، یوم

(عید) الاضحی اور یوم (عید) الفطر۔‘‘
غالباً وہ تہوار جو اہل ِمدینہ اسلام سے پہلے عہد ِجاہلیت میں عید کے طور پر منایا کرتے تھے وہ ’’نو روز‘‘ اور ’’ مہرجان‘‘ کے ایام تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے یہ تہوار منانے سے منع فرما دیا اور فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے بدلے میں اپنے خصوصی انعام و اکرام کے طور پر عیدالفطر اور عیدالاضحی کے مبارک ایام مسلمانوں کو عطا فرمائے ہیں۔

عیدین کا پس منظر
جس طرح ہر قوم و ملت کی عید اور تہوار اپنا ایک مخصوص مزاج اور پس منظر رکھتے ہیں، بالکل اسی طرح اسلامی عیدین کا بھی ایک حسین، دل کش اور ایمان افروز پس منظر ہے۔
رمضان المبارک ایک انتہائی با برکت مہینہ ہے ۔ یہ ماہ مقدس اللہ تعالیٰ کی خصوصی رحمتوں ، مغفرتوں اور عنایات و برکات کا خزینہ ہے۔ جب بندۂ مومن اتنی بے پایاں نعمتوں میں ڈوب کر اور اپنے رب کی رحمتوں سے سرشار ہوکر اپنی نفسانی خواہشات، سفلی جذبات، جسمانی لذّات، محدود ذاتی مفادات اور گروہی تعصبات کو اپنے رب کی بندگی پر قربان کر کے سرفراز و سربلند ہوتا ہے، تو وہ رشکِ ملائک بن جاتا ہے، اللہ کی رحمت جوش میں آتی ہے، ازراہِ کرم عنایتِ باری تعالیٰ کا یہ تقاضا بن جاتا ہے کہ وہ پورا مہینہ اپنی بندگی میں سرشار، سراپا تسلیم و اطاعت اور پیکر صبر و رضا بندے کے لیے اِنعام و اِکرام کا ایک دن مقرر فرما دے۔ چناںچہ یہ ماہ ِ مقدس ختم ہوتے ہی یکم شوال کو وہ دن عید الفطر کی صورت میں طلوع ہو جاتا ہے ۔

رمضان کی آخری رات فرمانِ رسولؐ کے مطابق ’’یومِ الجزاء‘‘ قرار پائی ہے اور اللہ کے اس اِنعام و اِکرام سے فیض یاب ہونے کے بعد اللہ کا عاجز بندہ سراپا سپاس بن کر شوال کی پہلی صبح کو یومِ تشکُّر کے طور پر مناتا ہے۔ بس یہی حقیقت ِ عید اور روحِ عید ہے، چناںچہ فرمانِ رسول ﷺ ہے: ترجمہ: ’’حضرت ابو ہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’ رمضان کی آخری رات میں آپ کی امت کے لیے مغفرت کا فیصلہ (بارگاہِ الوہیت سے ) کر دیا جاتا ہے۔ صحابہؓ نے عرض کیا کہ یارسول اللہ ﷺ ! کیا وہ (رات) شبِ قدر ہے؟، حضور نبی اکرمؐ نے فرمایا : شبِ قدر تو نہیں ہے لیکن عمل کرنے والا جب عمل پورا کر دے تو (رحمتِ الٰہی کا تقاضا اور سنت ِ جاریہ یہ ہے کہ ) اسے پورا اجر عطا کیا جاتا ہے۔

نمازِ عید
نمازِ عید کا ثبوت صحیح احادیث سے ملتا ہے۔ احناف کے نزدیک عید کی نماز ہر اس شخص پر واجب ہے جس پر جمعہ فرض ہے، دیگر ائمہ میں سے بعض کے نزدیک فرضِ کفایہ ہے اور بعض کے نزدیک سنتِ مؤکَّدہ ۔ نمازِ عید بغیر اذان و اقامت کے پڑھنا حدیث سے ثابت ہے۔ نمازِ عید کا وقت چاشت سے لے کر نصفُ النّہار شرعی تک ہے۔ عید الفطر ذرا تاخیر سے پڑھنا اور عید الاضحی جلدی پڑھنا مستحب ہے۔ نمازِ عید کے بعد امام کا دو خطبے پڑھنا سنت ہے۔ احناف کے نزدیک نمازِ عید میں چھ زائد تکبیریں ہیں جو پہلی رکعت میں سورۂ فاتحہ سے پہلے تین اور دوسری رکعت میں رکوع سے پہلے تین زائد تکبیریں امام کے ساتھ پڑھنی چاہئیں۔ دیگر ائمہ کے نزدیک ان زائد تکبیرات کی تعداد چھ سے زائد ہے۔ عید کی نماز آبادی سے باہر کھلے میدان میں پڑھنا سنت ہے۔ البتہ بارش، آندھی یا طوفان کے سبب مسجد میں بھی پڑھی جا سکتی ہے۔ عیدالفطر میں نماز سے پہلے کچھ کھا پی لینا سنت ہے ۔

یوم ِعید کے مستحبات
عید کے دن یہ امور مستحب ہیں:
۱۔ حجامت بنوانا ۲۔ ناخن تراشنا ۳۔ غسل کرنا ۴۔ مسواک کرنا ۵۔ خوشبو لگانا ۶۔ اچھے صاف ستھرے ( اگر دستیاب ہوں تو) کپڑے پہننا ۷۔ صبح کی نماز مسجد میں پڑھ کر عیدگاہ چلے جانا۔ فقہا نے نمازِ عید سے پہلے اور فوراً بعد عید گاہ میں نفل پڑھنے کو مکروہ لکھا ہے، شاید اس کا سبب یہ ہو کہ نماز سے پہلے لوگ مختلف جہات سے کثرت سے آتے ہیں اور اسی طرح نماز کے بعد ہر طرف منتشر ہوتے ہیں، لہٰذا اس طرح کے ہجوم میں نہ نماز میں یکسوئی قائم رہ سکتی ہے اور نہ ہی نماز کا تقدس و احترام باقی رہ سکتا ہے، البتہ ان اوقات میں گھر پر نفل پڑھنے کی کوئی ممانعت نہیں ہے۔

٭ سنت یہ ہے کہ جس راستے سے عیدگاہ جائے، نماز پڑھ کر اس راستے کے بجائے دوسرے راستے سے گھر واپس جائے۔ بخاری شریف میں حدیث ہے: ترجمہ: حضرت جابرؓ بیان کرتے ہیں کہ عید کے دن نبی اکرمؐ (عیدگاہ آتے جاتے میں) راستہ تبدیل کرتے تھے۔‘‘

عید نہ منانا
قوموں کی زندگی میں المیے، حوادث اور مصائب پیش آتے رہتے ہیں اور بدقسمتی سے گزشتہ برسوں سے اس طرح کے الم ناک واقعات ہماری روزمرہ زندگی کا ایک معمول بن چکے ہیں۔ ایسے حوادث کے پیش نظر اکثر اوقات بعض افراد یا حلقوں کی جانب سے یہ سننے میں آتا ہے کہ اس سال ہم عید نہیں منائیں گے۔ اس طرح کے بیانات کے پیچھے یقیناً نیک نیّتی‘ حُبُّ الوطنی، اُخُوَّتِ اسلامی اور انسانیت دوستی کا جذبہ کار فرما ہوتا ہوگا، لیکن سوال یہ ہے کہ عید نہ منانے کا مطلب کیا ہے؟ یہ کوئی جشن یا تہوار تو ہے نہیں، یہ تو عبادت اور سنت ِمصطفیؐ ہے، اخوت ِاسلامی اور اتحادِ امت کا مظاہرہ ہے، جمعیّتِ قومِ ِمسلم کا ایک حسین منظر ہے، اللہ کی بارگاہ میں دوگانہ نمازِ عید کی ادائیگی کا نام ہے، شرافت، متانت اور نفاست ایسی انسانی خصوصیات کا مظہر ہے۔

ان میں سے کوئی چیز اور کوئی بات ایسی نہیں جو عُسر و یُسر اور رنج و راحت ہر حال میں منائے جانے کے قابل نہ ہو۔ باقی رہا لہو و لعب میں مشغولیت، رقص و سرود کی محافل برپا کرنا، ناؤ نوش اور مُحرَّماتِ شرعیہ کا ارتکاب اور ہوس ِنفس کی تسکین کے سامان بہم پہنچانا، یہ ایسے امور ہیں جن کا اسلامی تصورِ عید سے کوئی تعلق نہیں ہے اور جو ایک مسلمان کو نہ صرف عید کے مُقدَّس موقع پر بلکہ زندگی کے ماہ و سال کے ہر لمحہ و لحظہ میں ہمیشہ کے لیے چھوڑ دینے چاہئیں بلکہ ان محرمات و منکَراتِ شرعیہ کو چھوڑنا ہی ایک مومن ِکامل کی حقیقی عید ہے اور ایسی عید اللہ تعالیٰ ہر بندئہ مومن کو نصیب فرمائے۔

اس سے ہٹ کر کہ مسرت کا موقع ہو یا رنج و غم کا، مسلمانوں کا آپس میں مل بیٹھنا، نفرتوں ، عصبیتوں اور کدورتوں کو مٹانا اور محبتوں کی خوشبوؤں کو قلب و نظر میں بسانا اگر غلامان مصطفیٰ کو عید کے دن میسر ہو جائے، تو یہ معراجِ عید ہوگی۔ لہٰذا قومی، ملّی اور ملکی سانحات کے موقع پر اور ضروری ہو جاتا ہے کہ ہم اجتماعی طور پر اللہ تعالیٰ سے رجوع کریں، استغفار کریں اور اس کی رحمتوں کو اپنی جانب متوجہ کرنے کے ساتھ ساتھ آفات و بلیّات کے ٹلنے کی دعائیں کریں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔