چاند رات‘ سویاں اور اچکن

انتظار حسین  جمعرات 8 اگست 2013
rmvsyndlcate@gmail.com

[email protected]

غم عشق اپنی جگہ‘ غم روز گار اپنی جگہ مگر عید کا دن سارے غموں کی تعطیل کا دن ہوتا ہے۔ عید کی رسم تو یہی کہتی ہے مگر اب کے ہوا یہ کہ عید بعد میں آئی، قیامت پہلے اٹھ کھڑی ہوئی۔ اصل میں موسم جسے ہم برکھا بہار کہتے ہیں بڑا بے اعتبارا موسم ہے۔ سب سے بڑھ کر اس موسم میں فطرت کی دو رنگی کا پتہ چلتا ہے۔ ساون کے بھی دو چہرے ہیں۔ ایک کتنا پُر بہار ہے کہ اِدھر ساون کا چھینٹا پڑا اور اُدھر باغ بغیچوں میں پارکوں میں جھولے پڑ گئے اور ساون کے گیت گائے جانے لگے۔ مگر دیکھتے دیکھتے فطرت کا خونخوار چہرہ ہمارے سامنے آ جاتا ہے۔ ڈونگرا آپے سے باہر ہو جاتا ہے اور سیلاب کا رنگ اختیار کر لیتا ہے۔ شہری علاقے یا شہر کے وہ علاقے جنھیں پوش علاقے کہا جاتا ہے بیشک محفوظ رہیں مگر جھونپڑیوں کچے گھروں میں بسی ہوئی خلقت سیلابی تباہی کی زد میں ہوتی ہے۔ سو یہ غم زدہ مخلوق عید اب جس طرح منائے گی اس سے تو ہم میرؔ کی زبان میں بس اسی طرح اظہار ہمدردی کر سکتے ہیں  ؎

ہوئی عید سب نے بدلے طرب و خوشی کے جامے

نہ ہوا کہ ہم بھی بدلیں یہ لباسِ سوگواراں

اور لیجیے اقبالؔ کی طرف سے بھی نوحہ سواگوارانِ عید سن لیجیے؎

خزاں میں مجھ کو رلاتی ہے یاد فصل بہار

خوشی ہو عید کی کیونکر کہ سوگوار ہوں میں

پیام عیش و مسرت ہمیں سناتا ہے

ہلالِ عید ہماری ہنسی اُڑاتا ہے

مگر جو لوگ ساون کی تباہ کاریوں سے محفوظ رہے، ان کی عید کیوں کھوٹی کی جائے۔ جن نئی نویلی دلہنوں نے اور لڑکیوں بالیوں نے عید کے جوڑے سلوا کر رکھے ہیں اور پیالیوں میں مہندی گھول رکھی ہے، ان کی عید تو کھوٹی نہیں ہونی چاہیے۔ ارے وہاں تو 29 کی شام ہی سے نظریں آسمان کی طرف اٹھ جاتی ہیں۔ عید وہ تیوہار ہے کہ جب تک اشارہ آسمان کی طرف سے نہ آئے اس وقت تک کلائیوں میں چوڑیاں چڑھتی ہیں نہ ہتھیلیوں پر مہندی رچائی جاتی ہے۔ مطلب یہ کہ عید بعد میں آتی ہے۔ پہلے چاند رات آتی ہے۔ اور چاند رات کی اپنی بہار ہوتی ہے۔ چاند رات جو ہوئی۔ ہر چند کہ چاند اس شام تو بس ہلکی سی روشنی کی لکیر کی صورت اپنا دیدار کراتا ہے۔ مگر مت پوچھئے کہ یہ دید کیا رنگ لاتی ہے۔ ذرا غالب کی طرف سے اس دید کا احوال سنئے۔ شاعر نے کیا کہا۔ چاند نے کیا جواب دیا   ؎

ہاں مہِ نو سنیں ہم اس کا نام

جس کو تو جھک کے کر رہا ہے سلام

بارے دو دن کہاں رہا غائب

بندہ عاجز تھا گردش ایام

چھپ کے جاتا کہاں کہ تاروں کا

آسمان نے بچھا رکھا تھا دام

عذر میں تین دن نہ آنے کے

لے کے آیا ہے عید کا پیغام

لیجیے پیغام عالم بالا سے آ گیا اور ہم زمین کے باسیوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔کتنی آس و یاس کے مرحلوں سے گزرنے کے بعد کان میں پڑی بالی کی شکل کا چاند نظر آیا ہے اور شور مچ گیا۔ چاند ہو گیا، چاند ہو گیا۔

کتنی صدیوں سے چاند کی دید کی یہ ریت چلی آ رہی ہے۔ کتنی صدیوں سے ہمارا آسمان سے‘ چاند تاروں سے زندہ رشتہ چلا آ رہا ہے۔ یعنی ٹیکنو لوجیکل زمانے کی فطرت کش روش کے باوجود ہم کسی نہ کسی حد تک فطرت سے جڑے ہوئے ہیں۔ یاروں کو اس پر اعتراض ہے کہ ارے اس نئے زمانے میں جب ٹیکنولوجی نے اتنی ترقی کر لی ہے چاند کو آنکھ سے دیکھنے پر کیوں اصرار ہے۔ مگر چاند رات کا سارا رومانس اسی رسم سے عبارت ہے کہ بچے بوڑھے لڑکیاں بالیاں سب کی نظریں 29 کی شام کو آسمان کی طرف اٹھی ہوتی ہیں  ؎

چاند جب صاف نظر آ گیا انتیس کی شام

جو امنگیں تھیں دلوں میں ہوئیں اک ساتھ تمام

کر لیا عید نے بے منت غیر آ کے سلام

چاند سے اس بے منت غیر رشتہ کو اگر ہم توڑ دیں اور بیچ میں مشین کو لے آئیں تو چاند رات کا سارا رومانس ہی غارت ہو جائے گا اور عید کی گہما گہمی گھٹ کر آدھی رہ جائے گی۔

عید کا چاند جن ماہ و سال کے جلو میں آ کر اپنا جلوہ دکھاتا ہے، وہ ماہ و سال ہی چاند کے مرہون منت ہیں جنھیں ہم قمری مہینے کہتے ہیں۔ آگے جب ہم ابھی عیسوی کیلنڈر کے اتنے محتاج نہیں ہوئے تھے اور قمری مہینوں کا بھی اچھا خاصا چلن تھا تو ہر مہینے کی آخری شام چاند کی دید کے لیے وقف تھی اور ہر مہینے کی دید اپنی الگ الگ رسم کے ساتھ جلوہ آرا ہوتی تھی۔ اب تو چھنٹ چھنٹا کر ڈھائی تین مہینوں کے چاند کو ہم گردانتے ہیں۔ باقیوں کو ہم نے فراموش کر دیا ہے۔ عید کے چاند کو بھی ہم فراموش کر دیں تو پھر تو چاند بس ہماری شاعری ہی میں رہ جائے گا۔ بس پھر ہماری قسمت میں بھی وہی گریہ لکھا جائے گا جو لارنس نے یورپ کی تہذیب کے حوالے سے کیا ہے کہ چاند سورج ستارے  ہمارے لیے زندہ و تابندہ تھے اب مردہ ہو چکے ہیں۔

خیر ذکر عید کا چل رہا تھا۔ تو لیجیے چاند رات اپنے رتجگے کے ساتھ گزر گئی۔ اب صبح عید ہے۔ سویوں نے اسے میٹھی عید کا رتبہ عطا کیا ہے۔ سویاں تو بہر حال اب بھی ہمارا منہ میٹھا کر رہی ہیں مگر وہ جو ہمارے بر میں اچکن سجی نظر آتی تھی کہ اس کے بغیر عید کی نماز نامکمل نظر آتی تھی وہ اچکن غائب ہو گئی سید محمد جعفری نے اس اچکن کی یاد  یا کہیے کہ اس کی شان میں ایک پوری نظم باندھی ہے؎

اس عید کی اچکن نے مچائی تھی بڑی دھوم

جب اس کو پہنتے تو چمک اٹھتا تھا مقسوم

جاتے جو کہیں، دور سے ہو جاتا تھا معلوم

ہم اس میں نظر آتے تھے جیسے کہ ہوں معصوم

اس عید کی اچکن میں بڑے لعل جڑے تھے

عیدی بھی ہمیں دیتے تھے جو ہم سے بڑے تھے

اور تان اس پر توڑی کہ؎

اے جعفری اچکن کو نہ لٹکا مرے آگے

اب قصہ ماضی کو نہ دہرا مرے آگے

اصل میں پوری عید ہی کا معاملہ یہ ہے کہ اس کی چمک دمک جو ماضی میں تھی اب کہاں۔ بلکہ اب تو عید کارڈ کی رسم بھی روبہ زوال ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔