بھارت سے تعلقات کی کہانی

نصرت جاوید  جمعرات 8 اگست 2013
nusrat.javeed@gmail.com

[email protected]

اس کالم کے ذریعے کئی بار آپ کو بڑی تفصیل سے بتاچکا ہوں کہ ستمبر 2008ء میں پاکستان کا صدر منتخب ہونے سے پہلے آصف علی زرداری بھارت سے تعلقات کو معمول پر لانے کے بڑے منصوبے بنائے بیٹھے تھے۔ ان میں سے چند ایک کا ذکر انھوں نے اُس وقت کے بھارتی وزیر خارجہ پرناب مکھرجی سے بھی کیا جو اِس وقت اُس ملک کے صدر ہیں۔ آصف علی زرداری کے ایوان صدر پہنچ جانے کے بعد البتہ پے در پے ایسے واقعات ہوئے جنہوں نے ان کے ارادوں کو پروان چڑھانے کے تمام امکانات ختم کر دیے۔ 11 مئی 2013ء کے انتخابات سے پہلے نواز شریف اپنی نجی محفلوں میں نہیں بلکہ انتخابی مہم کے دوران ہونے والے جلسوں سے خطاب کرتے ہوئے بھارت سے تعلقات کو نہ صرف معمول پر لانے بلکہ اس ملک کے ساتھ معاشی اور تجارتی تعلقات کو بڑھانے اور مستحکم کرنے پر زور دیتے رہے۔ ان کے اس موضوع پر ٹھوس بیانات کے باوجود پاکستان کے عوام نے ان کی جماعت کو بھاری تعداد میں ووٹ دے کر قومی اسمبلی میں اکثریت کی حامل جماعت بنا دیاجس کی بدولت نواز شریف اس ملک کے تیسری مرتبہ وزیر اعظم بنے۔

بھارت اپنی آبادی کی وجہ سے دُنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے کا دعویدار ہے، میں اس دعویٰ کو جھٹلانے والا کون ہوتا ہوں۔ مگر جمہوریت کی واقعتاََ قدر کرنے والوں کو اس امر کا اعتراف تو کرنا چاہیے کہ ایک نفسانفسی والی انتخابی مہم کے دوران بھارت کے ساتھ بہتر تعلقات قائم کرنے کے عزم کا اظہار کرنے کے باوجود اگر نواز شریف اور ان کی جماعت کو اکثریتی ووٹ ملتے ہیں تو اس کا ایک واضح مطلب بھی ہے اور وہ یہ کہ ہمارے سادہ لوح، پسماندہ اور اَن پڑھ سمجھے جانے والے عوام اتنے ’’جنونی‘‘ بھی نہیں جیسے انھیں بھارتی اور دوسرے بین الاقوامی میڈیا میں دکھایا جاتا ہے۔ 11 مئی 2013ء کے انتخابی نتائج ایک حوالے سے پاکستانی عوام کی سیاسی بلوغت کا بھرپور اظہار تھے۔ میں ایک پاکستانی ہونے کی وجہ سے اس پر فخر کرتا ہوں۔ مگر پاکستان سے تعلق نہ رکھنے والے صحافیوں اور سیاسی مبصرین کو اس بلوغت کا کھلے دل سے محض اعتراف کرنے میں کیا چیز مانع ہے؟

1984ء سے بھارت کے کئی سفر کرنے کے بعد میں یہ بات کہنے پر مجبور ہوں کہ وہاں کے صحافیوں اور دانشوروں نے پاکستان کے بارے میں ایک مخصوص تصور بنارکھا ہے۔ ٹھوس اور نت نئے اُبھرنے والے حقائق کی روشنی میں صرف چند لوگ ہی اس تصور کا از سرِ نو جائزہ لینے کی جرأت کرتے ہیں۔ ’’ہمت کفر‘‘ کرنے والے ان لوگوں کو مگر بھارت کا اپنے تئیں بڑا بالغ بنا مین اسٹریم میڈیا اپنے صفحات اور اسکرینوں پر کوئی جگہ نہیں دیتا۔ وہ بے چارے انٹرنیٹ پر بلاگ لکھتے ہیں اور کسی نہ کسی NGO کے ساتھ پاکستان کا سفر کرتے اور دل کی بات دل میں رکھے رہنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔

نواز شریف کو وزیر اعظم بنے چند روز بھی نہیں گزرے تھے تو ہمارے ہاں کے چند خود ساختہ محب وطن لوگوں نے واویلا مچا دیا کہ وہ پاکستان کے قومی مفادات کو بالائے طاق رکھ کر بھارت سے جپھیاں ڈالنے کو مرے جا رہے ہیں۔ بھارتی میڈیا میں نواز شریف کو اس سلسلے میں دیے جانے والے طعنوں کا ذکر ہرگز نہیں ہوا۔ وہاں کے پھنے خان قسم کے دانشوروں نے بلکہ بڑی تمکنت سے اپنی حکومت اور لوگوں کو سمجھانا شروع کر دیا کہ نواز شریف کی ’’اچھی اچھی‘‘ باتیں اپنی جگہ مگر انھیں ’’بھارت کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کی اجازت نہیں دی جائے گی‘‘۔ بغیر کھل کر بات کیے یہ فرض کر لیا جاتا ہے کہ جمہوری طریقے سے تیسری بار پاکستان کے وزیر اعظم بنے نواز شریف کو ’’اصل قوتیں‘‘ آگے نہیں بڑھنے دیں گی۔

میرے باقاعدہ قاری اس امر سے بخوبی واقف ہوں گے کہ میں بھارت کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے کوئی سخت گیر موقف نہیں رکھتا۔ اپنی صلح جویانہ طبیعت کے باوجود بھارت کے متعدد دوروں اور وہاں کے میڈیا کے باقاعدہ مطالعہ نے مگر مجھے مایوس بنا دیا ہے۔ جو بات سب سے زیادہ میری ذہنی اذیت کا سبب بنتی ہے وہ بھارتی دانشوروں کا رعونت بھرا رویہ ہے جو طے کر بیٹھا ہے کہ پاکستان کے عوام اپنے طور پر کچھ سوچنے کے قابل نہیں اور وہ جن لوگوں کو منتخب کرتے ہیں وہ خارجہ امور کے شعبے میں اہم اور ٹھوس اقدامات اٹھانے کی سکت ہی نہیں رکھتے۔ جب یہ رعونت ایک حد سے بڑھ جاتی ہے تو مجھے بہت کچھ یاد آ جاتا ہے۔ بڑا دل کرتا ہے کہ ہذیانی ہو کر ایک ایک بات تفصیل سے لکھ ڈالوں۔ مگر پھر خیال آتا ہے کہ سوکنوں والی لڑائی لڑنے کا کیا فائدہ۔ رعونت کا جواب رعونت سے کیا دینا۔

اصل بات یہ ہے کہ لوگوں کے جذبات کو بھڑکا کر اپنا دھندا چلانے والے بھارتی میڈیا سے متعلق لوگوں کی اکثریت نے اپنی سیاسی قیادتوں کو مفلوج کر رکھا ہے۔ اگلے سال مئی میں بھارت کے عام انتخابات ہونا ہیں۔ منموہن سنگھ صاحب دو باریاں لے کر اب تھک چکے ہیں۔ بہت سارے کانگریسی رہنمائوں کی کرپشن کہانیاں بھی زبان زدِ عام ہیں۔ ایسے ماحول میں عام انتخابات سے کئی ہفتے پہلے بھارت کی دو اہم ریاستوں دلی اور راجستھان کے صوبائی انتخابات ہونا ہیں۔ یہ دونوں صوبے اس نام نہاد ’’ہندی بیلٹ‘‘ کا بڑا تگڑا حصہ ہیں جہاں کے انتخابی نتائج عام انتخابات پر زبردست طریقے سے اثر انداز ہوں گے۔ اسی لیے تو حال ہی میں لائن آف کنٹرول پر جب کچھ ناخوش گوار واقعات ہوئے تو ایک طوفان کھڑا کر دیا گیا۔ بھارتی جتنا پارٹی کے یشونت سنہا حرکت میں آئے اور اپنی حکومت سے ہذیانی کیفیات میں سوال کرنا شروع ہو گئے کہ وہ پاکستان کی دوست ہے یا بھارت کی دشمن۔ اب سارا زور اس جانب منتقل کیا جا رہا ہے کہ کچھ ایسا ماحول بنایا جائے کہ ستمبر میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر بھارت اور پاکستان کے وزرائے اعظم کے درمیان ملاقات نہ ہوپائے۔ بدقسمتی سے بھارتی میڈیا کی اکثریت اس مطالبے پر زور دینے میں BJP کے پوری طرح ساتھ ہے۔

آئیے فرض کر لیتے ہیں کہ بھارت کے آیندہ انتخابات تک پاکستان اور بھارت کے وزرائے اعظم کے درمیان کوئی ملاقات نہیں ہوتی۔ دونوں ملک ایک دوسر ے سے روٹھے رہتے ہیں۔ لیکن اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ اس سب کے نتیجے میں بالآخر بی جے پی کا کوئی رہنما مئی 2014ء میں بھارت کا وزیر اعظم بن گیا تو وہ بھی پاکستانی وزیر اعظم سے مذاکرات نہیں کرے گا۔ میں شرطیہ کہتا ہوں کہ وہ اس ضمن میں ’’تاریخی پہل‘‘ کرے گا۔ اس لیے نہیں کہ نواز شریف چاہتے ہیں۔ ’’دُنیا کی سب سے بڑی جمہوریت‘‘ کا نیا وزیر اعظم پاکستان سے تعلقات بہتر کرنے کی کوششوں میں اگر مصروف نظر آئے گا تو امریکا اور یورپی ملکوں کی نظر میں اچھا نظر آنے کے لیے۔

میری بات پر شک ہے تو 2002ء کے وہ دن یاد کر لیجیے جب پاکستان اور بھارت کی فوجیں کئی ماہ سے سرحد پر ایک دوسرے پر بندوقیں تانیں کھڑی تھیں۔ برطانوی وزیر اعظم اور امریکی وزیر خارجہ ماحول کو ٹھنڈا کرنے کے لیے کئی دورے کرتے رہے۔ دہلی میں کوئی سننے کو تیار نہ ہوا تو اچانک اسرائیل نے بھارت میں موجود اپنے سیاحوں کو لینے کے لیے جہاز بھیج دیے تا کہ انھیں ’’ممکنہ ایٹمی جنگ‘‘ سے محفوظ رکھا جا سکے۔ اسرائیل سے جہاز اُڑے تو بھارتی وزیر اعظم واجپائی نے جن کا تعلق بھی بی جے پی سے تھا صدر مشرف کو مذاکرات کے لیے چٹھی لکھ ڈالی اور ’’خطے میں امن‘‘ قائم ہو گیا۔ اپنے تئیں بڑے سقراط بنے ہم جنوبی ایشیاء کے لوگ امریکی اور یورپی ملک اور بالآخر اسرائیل کے دبائو پر ہی ’’بندے کا پتر‘‘ کیوں بنتے ہیں۔ ہماری اپنی عقل کیوں کام نہیں کرتی؟!!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔