کرائسٹ چرچ حملہ، مجرم ذہنی مریض کیوں نہیں؟

ابصار فاطمہ  جمعرات 21 مارچ 2019
مجرمانہ حملوں کی نوعیت کی بنیاد پر انہیں انتہاپسندی، ذہنی مرض، دہشت گردی یا بغاوت کا نتیجہ قرار دیا جاتا ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

مجرمانہ حملوں کی نوعیت کی بنیاد پر انہیں انتہاپسندی، ذہنی مرض، دہشت گردی یا بغاوت کا نتیجہ قرار دیا جاتا ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

نیوزی لینڈ، کرائسٹ چرچ کے علاقے میں دو مساجد پر حملے کے بعد زیادہ شور اس بات پر اٹھا کہ حملہ آور کو واضح الفاظ میں دہشت گرد قرار دیا جانا چاہیے۔ کم و بیش ہر شخص نے اس پر اپنی رائے کا اظہار کیا، لبرل یا مذہبی طبقات پر الزامات لگائے گئے۔ جبکہ سب ہی اس واقعے کی مذمت کررہے تھے۔ ہم یقین کرکے بیٹھے تھے کہ چونکہ نیوزی لینڈ ایک غیر مسلم ملک ہے اس لیے وہاں حملہ آور کو انتہاپسند یا ذہنی مریض گردانا جائے گا۔ جبکہ بطور مسلم، اکثریت کا یہ مطالبہ تھا کہ اسے دہشت گرد قرار دیا جانا چاہیے۔ اگلے دن یہ میں نے اپنی فیس بک وال پر یہی سوال پوچھا بھی کہ چلیے مان لیتے ہیں کہ دہشت گرد کہا جانا چاہیے۔ لیکن کیوں؟

عجیب بات یہ تھی کہ اسلام کے نام پر ہرجگہ جھگڑنے کو تیار عوام میں سے عموماََ نے جواب دینا مناسب نہ سمجھا۔ جبکہ عورت مارچ سے متعلق ایک نقطہ بھی لگایا جارہا تھا تو ڈھیروں مباحثے کو تیار تھے۔ سوچنے کی بات ہے کہ کیا واقعی ہمیں پتا بھی ہے کہ ایسے حملوں کو دہشت گردی کیوں کہنا چاہیے؟ صرف اس لیے کہ جب حملہ آور مسلمان ہوتا ہے تو اسے دہشت گردی سے منسوب کیا جاتا ہے؟ یعنی ہم پرائمری کلاس کے بچے ہیں کہ فلاں بھی شور مچا رہا تھا تو اسے بھی سزا دیں، صرف مجھے شور مچانے پر سزا کیوں؟ ہم نے یہ بھی دیکھا کہ مختلف ممالک میں ہونے والے پچھلے عموماََ حملوں میں مجرم کو نہ صرف پکڑ لیا گیا بلکہ سزا بھی ہوئی۔ پھر کیا فرق پڑتا ہے کہ اسے انتہاپسند کہا جائے، ذہنی مریض یا دہشت گرد؟ یقین مانیے اگر آپ کا مؤقف مذکورہ بالا ہے کہ کیوں کہ ہمیں بھی یہی کہا جاتا ہے تو یہ بچگانہ مؤقف ہے۔

ہمیں سمجھنا ہوگا کہ ایسے حملوں میں مجرم کو دہشت گرد قرار دینا یا نہ دینا اس سے کہیں زیادہ اہم مسئلہ ہے۔ اور اگر آپ سمجھنا چاہیں تو نیوزی لینڈ کی پرائم منسٹر کی تقریر غور سے سنیے اور حملے کے اگلے دو دن میں ہونے والے اقدامات کا جائزہ لیجیے۔ مجرمانہ حملوں کی مختلف نوعیت ہوتی ہیں، جن کی بنیاد پر انہیں انتہاپسندی، ذہنی مرض، دہشت گردی یا بغاوت کا نتیجہ قرار دیا جاتا ہے۔ مجرم کو سزا ہر صورت میں ہوتی ہے لیکن عدالت ہر قسم کے حملے کی صورت میں حفاظتی قوانین پر نظرِ ثانی کرنے اور انہیں بہتر بنانے کی ذمے دار ہوتی ہے۔ ذہنی مریض مسلح ہو، حملہ بہت خطرناک ہی کیوں نہ ہو، یہ انفرادی حملہ ہے۔ وہ بندہ پکڑ لیا گیا، مسئلہ ختم۔

قانون ساز ادارے اس کے ذہنی مرض کی بنیاد پر غور کریں گے۔ انتہاپسند شخص ہونے کی صورت میں اس نظریے سے متعلق اداروں پر توجہ بڑھائی جائے گی اور ان نظریات کی ترویج پر کنٹرول کیا جائے گا۔ بغاوت کی صورت میں انسانی حقوق کے اصولوں کی بنیاد پر بغاوت کی وجوہ اور ان کے مطالبات پر توجہ دی جانی ضروری ہوتی ہے۔

بات دہشت گردی کی ہو اور حکومت یہ مان رہی ہے کہ یہ شخص اکیلا ہرگز نہیں۔ اول تو یہ ایک مکمل نیٹ ورک ہے، دوسرا یہ کہ اس نیٹ ورک میں نہ صرف بین الاقوامی دہشت گرد تنظیم کے شامل ہونے کے امکانات ہیں بلکہ چند اہم طاقتور ممالک کی پشت پناہی کا امکان بھی ہے۔ اس بنیاد پر انہیں نہ صرف اپنے ملک کے قوانین کو اپ گریڈ کرنے کی ضرورت ہوتی ہے، بلکہ بڑے پیمانے پر مسائل کو دیکھنا ہوتا ہے۔ بار بار ہونے والے حملوں کو ذہنی مریضوں اور انتہاپسندوں سے جوڑنا، بغاوت کو بھی انتہاپسندی یا دہشت گردی کے کھاتے میں ڈال دینے سے وقتی طور پر مسئلہ حل ہوتا محسوس ہوتا ہے لیکن چونکہ مسئلے کی بنیاد پر بالکل توجہ نہیں دی گئی ہوتی اس لیے وہ مسئلہ جوں کا توں رہتا ہے اور کچھ عرصے بعد مزید شدت سے نظر آتا ہے۔ مختلف نوعیت کے مجرموں کو ان کی درست حدود کے مطابق سزا دینا اور فوراََ اس کی مناسبت سے قوانین میں بہتری لانا بہت ضروری ہے۔ اس پورے تناظر میں یہ مطالبہ کیا جانا ضروری ہے کہ نیوزی لینڈ میں ہونے والے حملے کو انفرادی طور پر نہ لیا جائے اور مختلف ممالک میں کسی بھی حوالے سے مساجد پر ہونے والے حملوں کو اس سلسلے کی کڑی سمجھ کر قانون سازی کی جائے، بلکہ ہر مذہبی عمارت پر۔ عالمی مسائل پر اعتراضات اور رائے دینے یا عالمی سطح پر اپنا احتجاج ریکارڈ کروانے کےلیے صرف اتنی وجہ کافی نہیں کہ کیوں کہ ’’ہم پر بھی یہی الزام لگایا جاتا ہے۔‘‘

جیسی بھیڑ چال کے ہم عادی ہوچکے ہیں، کچھ بعید نہیں کہ اگر ابتدائی پوسٹ اس طرح کی کردی جاتیں کہ اس مجرم کو اسی وقت مار دیا جانا چاہیے تھا تو عوام یہی مطالبہ کرتے نظر آتے۔ یہ سوچے بغیر کہ بنیادی بات مجرم کا پکڑے جانا اور صرف ایک شخص کو سزا دینا نہیں بلکہ جرم کی وجوہ کی تحقیقات کرنا اور اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ دوبارہ ایسے واقعات نہ ہوں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ابصار فاطمہ

ابصار فاطمہ

بلاگر پیشے کے اعتبار سے ماہر نفسیات ہیں۔ ان کا تعلق سندھ کے شہر سکھر سے ہے۔ بچوں پر جنسی تشدد کے خلاف کام کرنے والے ایک فلاحی ادارے ’’ساحل‘‘ سے بطور سینئر پروگرام آفیسر کاؤنسلنگ منسلک ہیں۔ نفسیاتی اور معاشرتی مسائل پر مضامین اور افسانے لکھتی ہیں۔ ان کا ایک ناول ’’افسانے کی حقیقی لڑکی‘‘ شائع ہوچکا ہے۔ بچوں کےلیے جنسی اور دوسرے اقسام کے تشدد سے بچاؤ کےلیے ایک سیریز ’’سروائیور لیگ‘‘ کے نام سے بھی لکھی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔