بڑھتا ہوا عدم تحفظ کا احساس

نسیم انجم  جمعرات 8 اگست 2013
nasim.anjum27@gmail.com

[email protected]

دہشت گردی پاکستان کی شناخت بن چکی ہے، آئے دن تخریب کاری کے حوالے سے ایسے ایسے واقعات جنم لیتے ہیں کہ عقل حیران رہ جاتی ہے اور ان اداروں کی جو سیکیورٹی کے نام پر قائم ہوتے ہیں پول کھل جاتی ہے، اہم اور حساس اداروں کی کارکردگی ’’صفر‘‘ کے برابر ہو چکی ہے، اپنے فرائض سے چشم پوشی اختیار کرنے کا یہی نتیجہ ہے کہ اب جیلوں پر بھی حملے ہونے لگے ہیں۔ ملزمان اپنے اسیر ساتھیوں کو بڑی آسانی کے ساتھ چھڑا کر لے جاتے ہیں اور ساتھی بھی دو چار نہیں بلکہ سیکڑوں کے حساب سے، آزاد کرانے والوں کے نام ایسے پکارے جاتے ہیں جیسے امتحانات میں کامیاب ہونے والے امیدوارں کو اہم ذمے داریاں سونپنے کے لیے آخری انٹرویو کے لیے بلایا جاتا ہے۔

جیلوں پر متواتر حملے ہو رہے ہیں،15 اپریل 2012ء کو بنوں جیل پر طالبان نے حملہ کیا اور اپنے ساتھیوں کو چھڑا لیا، جن کی تعداد400 تھی اور فرار ہونے والے قیدیوں میں سے143 کو دوبارہ پکڑ کر جیل میں بند کر دیا گیا، اس واقعے کا پشاور ہائی کورٹ نے نوٹس بھی لیا اور متعدد افسران و اہلکاروں کو معطل کیا گیا۔

اب حال ہی میں ڈیرہ اسماعیل خان کی سینٹرل جیل پر حملہ کیا گیا، حملہ آور راکٹ لانچروں، دستی بموں اور خود کار ہتھیاروں سے لیس تھے اس حملے میں5 اہلکاروں سمیت 13 افراد ہلاک ہو گئے جب کہ طالبان اپنے248 قیدی چھڑانے میں کامیاب ہو گئے۔ مزید حیرت اس بات کی ہے کہ انھوں نے نہایت اطمینان اور منظم طریقے سے میگا فون کے ذریعے اپنے مخصوص اور اہم قیدیوں کے نام پکارتے رہے اور وہ ’’لبیک‘‘ کا عملی ثبوت پیش کرتے رہے، ان کی راہ میں کسی قسم کی رکاوٹ پیش نہیں آئی۔ جیسے وہ اپنے گھروں سے نکل رہے ہیں۔ اس کی وجہ 3 خودکش بمباروں نے خود کو اڑا لیا اور ان حالات میں جب کہ آگ اور دھواں پھیل گیا اور دہشت گردوں کی بڑی تعداد نے جو کہ وردی میں ملبوس تھے افرا تفری پیدا کر دی۔

اس واقعے سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ ہماری پولیس شب بیداری کی بجائے چین کی بانسری بجاتی ہے اور خواب خرگوش کے مزے لوٹتی ہے، اس قدر غفلت کی مثالیں کم ہی کم نظر آتی ہیں دوسرے ملکوں میں تو اس قسم کے افعال نا ممکنات میں سے ہیں، اگر ممکن ہوتا تو عافیہ صدیقی سمیت بے شمار بے قصور قیدیوں کو طالبان یا ان جیسی تنظیم رہا کرا لیتی، لیکن وہاں اس قسم کی لاپرواہی اور کوتاہ عقلی کے کام ہرگز نہیں ہوتے ہیں، اس کی وجہ عدالت اور اس کے فیصلے ہیں، رشوت اور سفارش کی کوئی اہمیت نہیں اسی وجہ سے دہشت گرد دیدہ دلیری کا مظاہرہ نہیں کرتے ہیں لیکن افسوس ہمارے یہاں تو زندگی کے تمام ہی معاملات ان کے برعکس ہیں۔

اس ملک کا معاملہ تو اندھیر نگری چوپٹ راج والا ہے، پاکستان کے دشمن جہاں چاہتے ہیں، اپنی سوچی سمجھے اسکیم کے تحت دھاوا بول دیتے ہیں، چند سال قبل کی ہی تو بات ہے جب تخریب کاروں نے رات کے اندھیرے میں پی ایس مہران کے علاقے میں شب خون مارا تھا۔ اس قدر حساس علاقے میں قدم رکھنا اپنی جانوں سے کھیلنا تھا۔ لیکن نہ کہ وہاں قدم رکھیں بلکہ نقصان بھی کیا گیا، رات بھر ملزمان اور قانون کے محافظوں میں آنکھ مچولی کا کھیل جاری رہا۔ اس سے قبل ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کے حوالے سے دیار غیر کے خاص آدمیوں نے کارروائی کی تھی۔ ہماری افواج اور فورسز کے دوسرے اداروں کو کانوں کان خبر نہ ہوئی، ان حالات و واقعات کو مد نظر رکھتے ہوئے یوں محسوس ہوتاہے کہ دشمن کے کئی روپ ہیں وہ حریف بھی ہے اور حلیف بھی وہ بہروپ بھرتا ہے اور سوانگ رچاتا ہے ورنہ تو اس قسم کے حساس ترین علاقوں میں دیدہ دلیری سے داخل ہونا اور پھر فتح کا پرچم لہرا کر واپسی کا رخ کرنا اتنا آسان کام نہیں ہے ان اداروں کو تو سابقہ تجربات کی روشنی میں چوکس رہنا چاہیے اور میلوں دور تک کے علاقوں کو ممنوعہ علاقہ قرار دینا ضروری ہے تا کہ حملہ آور اپنے مذموم مقاصد کو پایہ تکمیل تک نہ پہنچا سکیں۔

سابقہ حکومت میں جو کام نہیں ہو سکے خصوصاً اہم علاقوں کی حفاظت، وہ کام موجودہ حکومت انجام دینے کی مخلصانہ کوشش کرے۔ اور اس ملک کے محافظوں کے جان و مال کو تحفظ دے لیکن ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ اس حکومت نے بھی عوام کو ہر طرح سے پریشان کرنے کا ٹھیکہ لے لیا ہے اور اہم ترین امور سے اپنی توجہ ہٹالی ہے۔ جب حکومت نہیں آئی تھی تب بڑے بڑے دعویٰ کیے جا رہے تھے لیکن اب وہ دعوے مٹی کا ڈھیر ثابت ہوتے نظر آ رہے ہیں، ڈرون حملے بھی ہو رہے ہیں اور جیلوں پر بھی دھڑلے کے ساتھ حملے کیے جا رہے ہیں، جان و مال کا زیاں اپنی جگہ اور عدم تحفظ کا احساس خوب پروان چڑھ رہا ہے، سوچنے کی بات ہے کہ جب خطرناک قیدیوں کی ہی حفاظت نہ ہو سکے اور انھیں جیل سے ان کے ساتھی لے اڑیں تب مزید خطرات بڑھ جاتے ہیں، بنوں جیل سے رہا کرانے والے بقیہ قاتل اور دہشت گرد اب تک دوبارہ گرفتار نہیں ہو سکے ہیں تو کیا ان جیلوں سے چھڑائے جانے والے قیدی خدمت خلق کے کاموں میں اپنی زندگی تھوڑی گزار رہے ہیں وہ پاکستان کے حق میں برا سے برا کرنے کے لیے ہمہ وقت تیار ہیں اور جب موقع ملتاہے اپنا کام دکھا دیتے ہیں۔

یہ ایسے مسائل ہیں جن پر اہل اقتدار کو سنجیدگی سے نوٹس لینا چاہیے اور اس بات کو مد نظر رکھنا بھی نہایت ضروری ہے کہ پاکستان ایک ایسے دوراہے پر کھڑا ہے جہاں خطرات ہی خطرات ہیں کوئی راستہ فی الحال ایسا نظر نہیں آ رہا ہے کہ جہاں پاکستانی عوام کے لیے آشتی وسلامتی کے دیپ جلتے ہوں، لیکن حکمرانوں کا معاملہ یہ ہے کہ اپنی اور اپنی پارٹی کی کامیابیوں کے لیے جشن منائے جاتے ہیں، مٹھائیاں تقسیم کی جاتی ہیں۔ مبارکبادیوں کی صدائیں بلند ہوتی ہیں۔ اب نئے صدر پاکستان ممنون حسین کامیابیوں اور خوشیوں کے گیت الاپ رہے ہیں ان کے ساتھی خوش ہیں، ان کا خاندان خوش ہے لیکن صاحب اقتدار صرف ایک لمحے کے لیے رعایا کی طرف اور اس جلتے، سلگتے پاکستان کی طرف بھی دیکھ لیں کہ لوگوں کی آنکھوں میں آنسوئوں کی نمی اور دل زخمی ہے، پاکستان کی بنیادیں کمزور ہو چکی ہیں۔

پاکستان چاروں طرف سے خطرات و اندیشوں میں گھرا ہوا ہے اس کمزور پاکستان کو استحکام بخشنے اور رعایات کے آنسو پوچھنے کی بھی بات ہونی چاہے، کب تک عوام دکھ سہیں گے، لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ غم کے سائے بڑھ رہے ہیں اور امید کے چراغ گل ہوتے جا رہے ہیں کہ پیٹرول، ڈیزل اور مٹی کے تیل کی قیمتوں میں اضافہ کر دیاگیا ہے۔ ساتھ میں تجارتی و صنعتی استحکام کے لیے بجلی کے نرخ آج یعنی یکم اگست سے بڑھا دیے گئے ہیں جب کہ گھریلو صارفین پر اکتوبر سے بجلی گرے گی اور مسلسل گرے گی یقیناً لوگ اور ان کے گھر خاکستر ہوں گے اس بات کا احساس ذمے داران کو ہر گز نہیں ہے۔ مہنگائی بڑھتی جاتی ہے اور آمدنی گھٹتی جاتی ہے غریب عوام کریں تو کیا کریں؟ یہ بات حکومت کے سوچنے کی ہے کہ بڑھتی ہوئی گرانی کے لیے عوام کی تنخواہوں، مزدوروں اور محنت کشوں کی اجرت میں اضافہ ناگزیر ہے تا کہ لوگ مہنگائی، بجلی کے بل اور ایندھن کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کا مقابلہ کر سکیں۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان کو مستحکم اور خوشحال بنانے کے لیے موثر اقدامات کیے جائیں، اہم اداروں اور حساس علاقوں پر سخت ترین پہرہ اور ان کا تحفظ ضروری ہے۔ جب تک ان اداروںکو کالی بھیڑوں سے پاک نہ کیا جائے گا پاکستان اور اس کے عوام اسی طرح عدم تحفظ کا شکار رہیںگے۔ جیلوں، پولیس، چو کیوں رینجرز کی گاڑیوں اور دفاترپر حملے ہوتے رہیں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔