22-A اور 22- B کے ساتھ دیگر اصلاحات بھی ناگزیر ہیں

مزمل سہروردی  جمعـء 22 مارچ 2019
msuherwardy@gmail.com

[email protected]

ملک میں نظام انصاف میں اصلاحات کا عمل شروع ہوا ہے۔ بے شک اس کی رفتار کم ہے۔ اس ضمن میں عدلیہ کو حکومت کا تعاون بھی حاصل نہیں ہے تاہم پھر بھی چیف جسٹس پاکستان نے عدالتی نظام میں اصلاحات اور نظام عدل کو فعال کرنے کے لیے کام شروع کیا ہے۔

ابتدائی مراحل میں رکاوٹیں بھی سامنے آرہی ہیں۔ لیکن پھر بھی کام شروع ہوا ہے۔ پاکستان میں جھوٹی ایف آئی آر ایک کینسر جیسا موذی مرض بن گیا ہے۔ نئی جوڈیشل پالیسی کے تحت عدالت نے ایف آئی آ ر کے اندراج کے لیے 22-Aکی درخواستیں لینا بند کر دی ہیں۔ بلکہ پولیس کو کہا ہے کہ اگر تھانہ میں ایف آئی آر درج نہ ہو تو ایس پی کے پاس ایک کمپلینٹ سیل بنایا جائے اور وہاں ایف آئی آر درج کی جائے۔ وکلا برداری نے اس کی مخالفت شروع کر دی ہے۔ لیکن مجھے یہ بات سمجھ نہیں آرہی۔ 22-Aاور22-Bکی درخواستیں عدالتوں پر ایک اضافی بوجھ تھیں۔ یہ بھی جھوٹی ایف آئی آر درج کرانے کا ایک شارٹ کٹ تھیں۔

لیکن یہ مرض کا آدھا علاج ہے۔ صرف 22-Aاور 22 – Bکی درخواستوں کا راستہ بند کر دینے سے مرض کا علاج ممکن نہیں۔ سیکشن 154کو بدلنے کی بھی ضرورت ہے۔یہ پرانا اور فرسودہ قانون ہے۔ یہ تب بنایا گیا تھا جب لوگ قانون کا دروازہ کھٹکھٹانے کے بجائے قانون ہاتھ میں لینے کے عادی تھے۔ تب لوگوں کو نظام انصاف اور قانون کی طرف راغب کرنے کے لیے یہ قانون بنایا گیا تھا۔ لیکن بدلتے وقت میں معاشرہ کی ترقی کے ساتھ ترقی یافتہ اور مہذب ممالک نے اس قانون میں بڑی تبدیلیاں کر دی ہیں۔

آج پاکستان میں نظام انصاف میں سے جھوٹی ایف آئی آر کا کینسر ختم کرنے کے لیے اس قانون کو بھی ساتھ تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ پولیس کو درخواست وصول کرتے ہی پرچہ درج کرنے پر مجبور کرنا غلط ہے۔ پولیس کو پہلے تفتیش کرنی چاہیے پھر پرچہ درج کرنا چاہیے۔ اینٹی کرپشن اور ایف آئی اے میں ایسا ہی ہے۔

چند شہروں میں پولیس نے ایسا کرنا شروع بھی کیا ہے۔ لیکن ابھی ایسا کرنا خلاف قانون ہے۔ قانون کے تحت پولیس درخواست وصول کرنے کے بعد آنکھیں بند کر کے پرچہ درج کرنے کی پابند ہے۔ اس لیے جھوٹا پرچہ درج کرانے کے خواہش مند اس کو خلاف قانون ہونے کا شور مچا دیتے ہیں۔ آج پرچہ درج کرنے کے بعد پولیس پر گرفتاری کا دباؤ شروع ہوجاتا ہے۔ جب قانون میں گرفتاری کی اجازت نہیں ہوگی تو دباؤ بھی نہیں ہو گا۔

حکومت کے پاس تو سی آر پی سی میں اصلاحات کرنے کا وقت ہی نہیں ہے۔ یہ ان کی ترجیحات میں شامل ہی نہیں ہے۔ آپ سوال کر سکتے ہیں کہ اگر پولیس کسی کی سچی ایف آئی آر درج نہ کرے تو وہ کیا کرے۔ قانون میں استغاثہ دائر کرنے کی اجازت موجود ہے۔ لوگ استغاثہ اس لیے نہیں دائر کرتے اس میں پہلے دن ثبوت عدالت کے سامنے رکھنے پڑتے ہیں۔ عدالت ثبوتوں کی بنیاد پر استغاثہ منظور کرتی ہے اور ملزم کو طلب کرتی ہے۔ استغاثہ میں بھی عدالت ملزم کو وہی سزا دیتی ہے جو ایف آئی آر میں دیتی ہے۔بلکہ یہ ملزم کو سزا دلوانے اورا نصاف حاصل کرنے کا شارٹ کٹ ہے۔ لیکن اس میں جھوٹ کا راستہ بند ہے۔

صرف سچے لوگ اپنے سچے مقدمہ لے کر ہی استغاثہ دائر کرتے ہیں۔ اس لیے وکلا بھی اس کا راستہ نہیں دکھاتے۔ ورنہ جب کوئی کسی کے خلاف ایف آئی آر درج کرانے کے لیے عدالت میں آتا ہے تو اس کی ایف آئی آر درج کرنے کے بجائے اس کو استغاثہ دائر کرنے کا مشورہ دینا چاہیے۔ جب آپ کسی کے خلاف اپنی ایف آئی آر میں کوئی الزام لگا رہے ہیں تو آپ اس پر استغاثہ کیوں نہیں دائر کرتے۔  سزا تو عدالت نے ہی دینی ہے۔

چیف جسٹس پاکستان نے عدالتوں میں جھوٹی گواہی دینے کے خلاف سخت فیصلہ دیا ہے۔ یہ بہت خوش آیند ہے۔ اب پیشہ وارانہ گواہی دینے والوں کا راستہ رک سکے گا۔ جھوٹے گواہوں کا راستہ رک سکے گا۔لیکن میں نے پہلے بھی درخواست کی ہے میں اب بھی درخواست کرتا ہوں کہ جھوٹے گواہ کو سزا دینے کا عمل برق رفتار ہونا چاہیے۔ جس مقدمہ میں جہاں پر جھوٹی گواہی دی جائے وہیں ساتھ ہی سزا دی جائے۔ جب عدالت یہ قرار دے کہ گواہی جھوٹی تھی وہیں ساتھ سزا دے۔ اس ضمن میں نئے مقدمہ کا اندراج اور اس کا نیا ٹرائل نہ صرف عدلیہ پر اضافی بوجھ ہوگا۔ بلکہ جھوٹے گواہ کو سزا دینے کا عمل بھی مشکل ہو جائے گا۔ کون جئے گا تیری زلف کے سر ہونے تک کے مصداق کون جھوٹے گواہ کے دوبارہ ٹرائل کے چکر میں پڑے گا۔ اس لیے ساتھ ہی سزا دینا بہتر ہوگا۔

ایسے ہی جب عدالت یہ قرار دے کہ درج کرائی جانے والی ایف آئی آر جھوٹی تھی تو ساتھ ہی جھوٹی ایف آئی آر درج کرانے والے کو سزا دینی چاہیے۔ پولیس کو بھی اس بات کاپابند بنانے کی ضرورت ہے۔ اس کو گرفتار کیا جائے۔ اس طرح جھوٹی ایف آئی آر درج کرانے والے کو علم ہوگا کہ دوسروں کے لیے کھائی کھودنے کے چکر میں وہ خود اس میں گر سکتا ہے۔ غلط تفتیش پر بھی تفتیشی افسر کو عدالت سے موقع پر سزا ملنی چاہیے۔ جب ایک مقدمے کا ٹرائل عدالت کے سامنے آتا ہے تو اس میں سچے اور جھوٹے کا مکمل فیصلہ ہونا چاہیے۔

مدعی جھوٹا ہے تو اسے سزا ملنی چاہیے۔ تفتیش غلط ہوئی ہے تو موقع پر سزا ملنی چاہیے۔ جھوٹی گواہ کو موقع پر سزا ملنی چاہیے۔ اگر ملزم مجرم ہے تو اسے سزا ملنی چاہیے۔ سارا کام ایک ہی مقدمہ میں ہونا چاہیے۔عدالت کی نظر میں تمام فریقین برابر ہوتے ہیں۔ اس نے انصاف کرنا ہے۔ یہ کیسا نظام ہے جس میں ایک کو تو موقع پر انصاف ملتا ہے باقی کو نیا مقدمہ کرنے کا کہہ دیا جاتا ہے۔ ہر کام کے لیے دوبارہ علیحدہ مقدمہ انصاف سے انکار اور نظام انصا ف پر بوجھ بھی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔