عوام کے سروں پر ایٹمی تلوار

ظہیر اختر بیدری  جمعـء 22 مارچ 2019
zaheer_akhter_beedri@yahoo.com

[email protected]

امریکا بھارت کا قریب ترین دوست ملک ہی نہیں ہے بلکہ اقتصادی پارٹنر ہونے کے علاوہ اس کے ساتھ فوجی معاہدوں میں بھی بندھا ہوا ہے۔ اس پس منظر میں امریکی حکمرانوں کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ بین الاقوامی سیاست میں وہ ممکن حد تک بھارت کی حمایت کرے لیکن کشمیر میں بھارت کے مظالم اب ان حدوں کو چھو رہے ہیں کہ بھارت اور بھارتی جمہوریت کا سب سے بڑا حامی ملک امریکا نہ صرف بھارت کی کشمیر کے حوالے سے پالیسیوں کا مخالف ہو گیا ہے بلکہ عالمی برادری سے مطالبہ کررہا ہے کہ وہ کشمیر میں بھارت کی طرف سے ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی تحقیقات بھی کرے۔

تفصیلات کے مطابق مقبوضہ کشمیر میں بھارتی جارحیت پر امریکی رپورٹ میں اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی تنظیم کی تیارکردہ رپورٹ میں صرف 2018 میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا ہے کہ 2018میں قومی اور بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیموں نے پیلیٹ گن کے استعمال پر تشویش کا اظہار کیا تھا۔

مقبوضہ وادی میں پیلیٹ گنز سے 6 ہزار 2 سو 21 افراد زخمی ہوگئے تھے۔ بھارت کے کالے قانون پبلک سیفٹی ایکٹ کا رپورٹ میں ذکرکرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ بھارت کا یہ کالا قانون صرف مقبوضہ کشمیر ہی میں لاگو ہے۔ جاری کردہ اس رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ بھارتی فوج کی جانب سے بغیر کسی کیس کے یعنی بغیر کسی الزام کے کشمیریوں کو 2 سال تک نظربند رکھا جاسکتا ہے اور اہل خانہ کو ملنے تک نہیں دیا جاتا۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مارچ 2016 سے اگست 2017 تک ایک ہزار سے زیادہ افراد اس کالے قانون کے تحت جیلوں میں قید ہیں جن میں آدھے سے زیادہ کشمیری سیاستدان ہیں۔ بھارت کی جانب سے قانون کی پاسداری کے لیے کسی بھی بے گناہ شہری کو گرفتار کرلیا جاتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق مقبوضہ کشمیر میں جاری تحریک کو عوامی حمایت حاصل ہے۔ جولائی 2016 سے فروری 2017 تک 51 افراد شہید اور 9 ہزار سے زیادہ زخمی جب کہ بھارتی فوج اور پولیس لاپتہ افراد کے متعلق معلومات دینے میں ناکام رہی ہیں۔ 2018میں لاپتہ افراد کی تلاش کے لیے 6 سو سے زیادہ درخواستیں جمع کرائی گئیں۔

بھارت کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت مانا جاتا ہے ۔ اس دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے بارے میں امریکا سے فوجی معاہدوں کا رشتے دار امریکا کیا کہتا ہے یہ آپ نے جان لیا۔ مسئلہ یہ ہے کہ کشمیر پر ناجائز اور طاقت کے بل پر قبضہ رکھنے کی بھارت کو بین الاقوامی برادری میں بدنامی کی کتنی بھاری قیمت ادا کرنی پڑرہی ہے۔

ابھی دو ہفتے پہلے دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کی سنگینی کا عالم یہ تھا کہ دونوں ممالک ایک دوسرے کے جنگی ہوائی جہاز گرا رہے تھے اصل میں کشمیر کے حوالے سے ابتدا ہی سے بھارت کی سیاست طاقت کی برتری کی سیاست ہے، مودی جیسے للو پنجو کا سرے سے کوئی وژن ہی نہیں وہ تو آنجہانی پنڈت نہرو کی حماقتوں کی آنکھ بند کرکے اتباع کر رہے ہیں۔ اصل مجرم آزادی کے بعد بھارت میں تشکیل پانے والی حکومت تھی جس کا سربراہ ایک آفاقی وژن رکھنے والا وزیر اعظم مانا جاتا ہے کہا جاتا ہے کہ کسی گھر کی تعمیر میں ابتدائی اینٹیں ٹیڑھی رکھی جائیں تو ساری عمارت انھی ٹیڑھی اینٹوں پر کھڑی رہتی ہے یہی بھارت کے ساتھ ہو رہا ہے نہرو کی پالیسی نے برصغیر کا مستقبل تباہ کردیا۔

بھارت کے مقابلے میں پاکستان ایک چھوٹا سا ملک ہے روایتی فوجی طاقت کے حوالے سے دونوں ملکوں کے درمیان1/5 کا فرق ہے جس کی وجہ سے پاکستان فطری طور پر بھارت کا ایک طرح سے زیردست ملک بنا ہوا تھا۔ دنیا میں جہاں کہیں کوئی طاقتور ملک کسی کمزور ملک کے خلاف غیر قانونی غیر اخلاقی دباؤ ڈالتا ہے تو کمزور ملک طاقتور ملک کے ناجائز دباؤ سے نکلنے کے لیے کوئی نہ کوئی راستہ نکال لیتا ہے ۔

بھارت نہ صرف روایتی ہتھیاروں کے حوالے سے پاکستان پر فوقیت رکھتا تھا بلکہ اس نے اسی برتری پر قناعت نہیں کی بلکہ ایٹمی ہتھیار بھی بنا لیے۔ اس نامنصفانہ صورتحال کا حل پاکستان نے یہ نکالا کہ اس نے بھی ایٹمی ہتھیار بنا لیے ظاہر ہے حالات حاضرہ کی روشنی میں اس اقدام کو سراسر غلط بھی نہیں کہا جاسکتا، پاکستان کا جوہری ہتھیار بنانا دونوں ملکوں کے درمیان تین بڑی جنگیں اور ہتھیاروں کی دوڑ پنڈت نہرو کی جارحانہ سیاست کا لازمی نتیجہ تھا۔روس اور امریکا طاقت کے توازن کے احمقانہ فلسفے پر چلتے ہوئے جس خطرناک صورتحال پر پہنچ گئے ہیں۔ ہندوستان اور پاکستان بھی انھی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے خودکشی کے راستے پر چل رہے ہیں۔ بہ ظاہر اس صورتحال کے ذمے دار دونوں ہی ملک نظر آتے ہیں لیکن اس خطرناک سچویشن کی اصل ذمے داری بھارتی حکومتوں پر اور بنیادی ذمے داری پنڈت نہرو پر عائد ہوتی ہے۔

بھارت میں ایک ارب سے زیادہ عوام اور پاکستان میں 22 کروڑ سے زیادہ غریب عوام رہتے ہیں ان کا مسئلہ بھوک ، بیروزگاری اور نہ رکنے والی مہنگائی ہے۔ کشمیر کے مسئلے کی وجہ سے دونوں ملکوں کی اولین ترجیح کشمیر اور ہتھیار بندی بن گئی ہے جب کہ دونوں ملکوں کی عوام کا 50 فیصد سے زیادہ حصہ غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزار رہا ہے اور عوام پر یہ ظلم صرف اور صرف مسئلہ کشمیر کی وجہ سے ہو رہا ہے۔ یہ کس قدر افسوس کی بات ہے کہ عوام دو وقت کی روٹی سے محروم ہیں اور حکمران اربوں ڈالر کا اسلحہ خرید رہے ہیں اور دھڑلے سے ایٹمی ہتھیار بنا رہے ہیں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ ایٹمی طاقتیں ایٹمی ہتھیار استعمال کرنے کی حماقت نہیں کریں گی۔ 1945 میں اہل نظر کا یہی خیال تھا کہ امریکا ایٹمی ہتھیار استعمال نہیں کرے گا لیکن امریکا نے ایٹمی ہتھیار استعمال کیا اور دنیا حیرت اور خوف سے امریکی صرف دو ایٹم بموں کی تباہ کاریاں دیکھتی رہی۔ ہندوستان اور پاکستان ایک سے زیادہ بار ایٹمی جنگ کے قریب پہنچ کر رک گئے ہیں لیکن یہ ضروری نہیں کہ ہمیشہ ہی اس احتیاط کا مظاہرہ کیا جائے جب تک دونوں ملکوں کے پاس ایٹمی ہتھیار رہیں گے اور کشمیر میں کشمیری عوام مرتے رہیں گے ایٹمی جنگ کا خطرہ دونوں ملکوں کے عوام کے سروں پر منڈلاتا رہے گا۔ دونوں ملکوں کے اہل فکر اہل دانش جب تک سڑکوں پر نہیں آئیں گے اور عوام کو ایٹمی جنگوں کی تباہ کاریوں سے واقف نہیں کرائیں گے احمق سیاست کاروں کی طرف سے ایٹمی جنگ کا خطرہ باقی رہے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔