مہاتیر محمد اور طیب اردوان سے کیا سیکھا جا سکتا ہے؟

تنویر قیصر شاہد  جمعـء 22 مارچ 2019
tanveer.qaisar@express.com.pk

[email protected]

یومِ پاکستان کی پُر عزم اور پُر شکوہ تقریبات میں شرکت کے لیے ہمارے معزز مہمان ، ملائیشیا کے وزیر اعظم جناب مہاتیر محمد پاکستان تشریف لا چکے ہیں۔ ہم دل کی گہرائیوں سے انھیں خوش آمدید کہتے ہیں۔وزیر اعظم عمران خان اپنے اس ہم منصب سے دِلی محبت کرتے ہیں۔

اقتدار کے ایوانوں میں داخل ہونے سے پہلے بھی جناب عمران خان بکثرت ملائیشیا کے وزیر اعظم مہاتیر محمد اور ترک صدر طیب اردوان کے بارے میں رطب اللسان رہتے تھے۔ کہا کرتے تھے کہ اگر کبھی مجھے موقع ملا تو مَیں مہاتیر محمد اور طیب اردوان ایسی جرأتیں دکھاؤں گا اور پاکستان کو روشن کروں گا ، خوشحالی لاؤں گاکرپشن کا خاتمہ بھی کروں گا اور مالیاتی اداروں کی ڈکٹیشن لینے سے انکار کروں گا۔

خاتونِ اوّل، بشریٰ بی بی صاحبہ، نے بھی طیب اردوان کی تعریف کرتے ہُوئے تصدیق کی کہ اُن کے سرتاج وزیر اعظم بھی جناب اردوان کو بے حد پسند کرتے ہیں۔ جو 90سال سے زائد عمر ہونے کے باوجود ملائیشیا کے ایک بار پھر حکمران بنے ہیں۔ انھوں نے ملک میں پارلیمانی کے بجائے، صدارتی طرزِ حکومت کو رواج دیا ہے ۔ اب جب کہ عمران خان پاکستان کے وزیر اعظم بن چکے ہیں  بنیادی سوال یہ ہے کہ آیا وہ اب بھی مہاتیر محمد اور طیب اردوان کی پالیسیوں کے تتبع میں پاکستان کو آگے بڑھانے کا عندیہ رکھتے ہیں؟ اور یہ کہ وہ ان دونوں حکمرانوں سے کیا کیاسبق سیکھ سکتے ہیں؟

گزشتہ روز ایک خبر یوں شایع ہُوئی تھی:’’ ترک صدر طیب اردوان نے کہا ہے کہ ترکی نے آئی ایم ایف سے قرضے لینے کا رجسٹر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بند کر دیا ہے۔ اپنی پارٹی کے27ویں مشاورتی اجلاس سے خطاب کرتے ہُوئے انھوں نے کہا کہ ترکی کا اقتصادی اشاریہ بہت سے ممالک سے زیادہ اچھی سطح پر ہے، اس لیے عالمی مالیاتی فنڈ ز ( آئی ایم ایف) کا رجسٹر ہمیشہ کے لیے ہم نے بند کر دیا ہے۔

ترک معیشت اپنے پیروں پر کھڑی ہو چکی ہے۔ یہ قوم کے اعتماد اور پوری حکومتی ٹیم کی مشترکہ اور انتھک کاوشوں کا نتیجہ ہے۔‘‘ کیا ہمارے چیف ایگزیکٹو صاحب بھی اِسی طرح آئی ایم ایف کے بارے میں ایسا ہی کوئی اعلان کر سکتے ہیں؟۔ قوم حیران ہے کہ خان صاحب کا ہیرو ( طیب اردوان) آئی ایم ایف کو طلاق دینے کی باتیں کررہا ہے اور خان صاحب کے وزیر خزانہ اُسی عالمی مالیاتی ادارے کی طرف اُمید بھری نظروں سے دیکھ رہے ہیں۔ ’’دل پھر کُوئے ملامت کوجائے ہے/ پندار کا صنم کدہ ویراں کیے ہُوئے۔‘‘ ہمیں معلوم ہے کہ جبریہ حالات نے خان صاحب کو اپنے سابقہ اعلانات کے برعکس یہ قدم اُٹھانے پر مائل کیا ہے۔ ہماری معیشت ملائیشیا اور ترکی کی طرح مضبوط ہوتی تو شائد ہمارے وزیر اعظم صاحب بھی آئی ایم ایف کے سامنے یونہی سینہ تان سکتے۔

کہنا پڑے گا کہ ہمارے محبوب وزیر اعظم نے آئی ایم ایف کے پاس جا نے کا عندیہ دے کر دراصل اپنے ہیرو طیب اردوان کی جرأتوں کے برعکس فیصلہ کیا ہے۔واقعہ بھی یہ ہے کہ طیب اردوان کا دل میں احترام اور اکرام رکھنے کے باوجود خانصاحب کئی معاملات میں پوری طرح اُن کے نقوشِ قدم پر نہیں چل سکتے ۔چلنا بھی نہیں چاہیے کہ ہمارے مسائل اور معاملات اُن سے مختلف ہیں۔ مثلاً: طیب اردوان جس ملک اور قوم کے سربراہ ہیں، اُس ملک اور قوم کے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات ہیں۔ جب کہ عمران خان صاحب جس ملک کے چیف ایگزیکٹو ہیں، وہ ملک اور اُس کے عوام اسرائیل کو ایک ناجائز، غاصب اور خائن ریاست سمجھتے ہیں۔

پاکستان کے پاسپورٹ پر واضح طور پر لکھا ہے کہ اس ملک کا کوئی شہری اسرائیل نہیں جا سکتا۔ترکی میں مبینہ طور پر اِس وقت  (بعض) اخبار نویسوں اور حکمرانوں کے درمیان تعلقات خوشگوار نہیں ہیں۔ جب کہ وزیر اعظم عمران خان کے ملک میں، الحمدللہ، خانصاحب اور پاکستان کی صحافتی برادری کے مابین کوئی کشیدگی ہے نہ تناؤ ۔ اس فرق کے باوجود ہم سب پاکستانی عوام ترکی اور طیب اردوان کا بے حد احترام کرتے ہیں۔ابھی زیادہ عرصہ نہیں گزرا کہ پیرس کی ’’فنانشل ایکشن ٹاسک فورس‘‘ نے پاکستان کودھمکایا تو اس آزمائشی موقع پر یہ صرف ترکی تھا جو پاکستان کے ساتھ کھڑا ہُوا تھا۔ہمارے دو مشہور دوست ممالک نے تو پاکستان کا ساتھ دینے سے انکار کر دیا تھا۔پاکستان کے خلاف تازہ بھارتی جارحیت کے موقع پر ترکی ڈٹ کر پاکستان کے ساتھ کھڑا رہا ہے۔ عمران خان کا دَورئہ ترکی بھی ایک بار پھر ثابت کر گیا تھا کہ پاک، ترک تعلقات مثالی ہیں ۔

ملائیشیا کے وزیر اعظم جناب مہاتیر محمد کو بھی ہمارے وزیر اعظم عمران خان دل سے چاہتے ہیں۔ مہاتیر محمد میں واقعی معنوں میں کئی ایسے خواص ہیں جو انھیںلائقِ احترام بناتے ہیں۔انھوں نے محنت اور کمٹمنٹ سے اپنے ملک کو دُنیا کے محترم ممالک میں لا کھڑا کیا ہے۔ صنعت اور تعلیم کو جدید عالمی تقاضوں سے ہم آہنگ بنا کر اپنے عوام کی غربت میں کمی اور خوشحالی میں اضافہ کیا ہے۔ ملائیشیا کو پہلے کی نسبت کئی گنا زیادہ صاف ، شفاف اور سرسبز بنایا ہے۔

کہا جا سکتا ہے کہ ہمارے وزیر اعظم نے ’’ کلین اینڈگرین پاکستان‘‘ کی طرف جو پہلا عملی قدم اُٹھایا ہے، دراصل اپنے ہیرو مہاتیر محمد کی پیروی ہے اور یہ پیروی مستحسن بھی ہے۔مہاتیر محمد اپنے ملک کے سابق حکمرانوں اور اُن کے اہلِ خانہ کی اربوں ڈالر کی مبینہ کرپشن سامنے لا کر سخت احتساب کررہے ہیں۔ سابق ملائشین وزیر اعظم ، نجیب رزاق، اور اُن کی اہلیہ، پتری زائنہ سکندر، دارو گیر کے کئی مراحل سے گزررہے ہیں۔ نجیب رزاق پر 32اور اُن کی اہلیہ پر17منی لانڈرنگ کے مقدمات چل رہے ہیں۔

عمران خان بھی بدعنوانوں کو اِسی اسلوب میں نشانہ عبرت بناکر پاکستان کو کرپشن فری ملک بنانا چاہتے ہیں۔ خان صاحب کے ان اقدامات کی بازگشت ملائیشیا تک بھی یقینا پہنچی ہوگی۔ اِسی لیے تو ڈاکٹر مہاتیر محمد صاحب ہمارے وزیر اعظم کو کئی بار تحسینی فون بھی کر چکے ہیں۔ دونوں نے ایک دوسرے کو انتخابات میں کامیابیاں سمیٹنے کی مبارکبادیں بھی دی تھیں۔ عمران خان ملائیشیا کا دَورہ کر چکے ہیں اور اب مہاتیر محمد پاکستان تشریف لائے ہیں۔ پاکستان اور ملائیشیا میں اچھے اور برادرانہ تعلقات ہیں۔

ہمارے ایک ممتاز عالمِ دین پر جب بوجوہ پاکستان کی زمین تنگ ہو نے لگی تو انھیں بھی امان ملائیشیا ہی میں ملی ۔جناب عمران خان اور جناب ڈاکٹر مہاتیر محمد کی باہمی محبت ایک واقعہ ہے مگر سوال یہ ہے کہ مہاتیر محمدنے جس دانشمندی کے ساتھ اپنے ملک میں چینی سرمایہ کاری کے لیے چین کے سامنے جو انتہائی جائز اور دل کو لگنے والی شرائط رکھی ہیں، کیاعمران خان ایسی ہی دانشمندی کی چمک دکھا سکتے ہیں؟ چینی صحافیوں کی وساطت سے پاکستان کے بہترین دوست، چین، تک ایسی ہی خواہشات پہنچا سکتے ہیں؟ مہاتیر محمد نے جس شائستگی اور تہذیب سے چینیوں کے سامنے یہ شرائط رکھی ہیں، ہمارے سب حکام کو مہاتیر محمد کا چینی صحافیوںکو دیا گیا انٹرویو پڑھنا اور سننا چاہیے۔ عمران خان سمیت ہماری جملہ ہیتِ مقتدرہ اِس انٹرویو کے مندرجات سے کئی سبق سیکھ سکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔