یوم پاکستان اور سول ایوارڈز

علی احمد ڈھلوں  جمعـء 22 مارچ 2019
ali.dhillon@ymail.com

[email protected]

جو کام کرے، اچھا کرے،انسانی فلاح کے لیے کرے، قومی مفاد میں کرے یا خلوص نیت سے اپنے ملک کا نام روشن کرے یقینا اُسے اُس کا Reward بھی دیا جاناچاہیے۔ ہر ملک ایسا کرتا ہے اس لیے دنیا میں عظیم لوگ ایک جذبہ اور لگن کے ساتھ پر خلوص انداز میں اپنے کام میں مگن رہتے ہیں اور انھیں کسی پذیرائی کی خواہش نہیں ہوتی۔اگرسرکار کی جانب سے کچھ مل جائے تو یہ سونے پر سہاگہ ورنہ جنہوں نے کچھ کرنا ہے وہ مقصد کے حصول کے لیے اپنے آپ کو کھپائے رکھتے ہیں۔

ایسے عظیم لوگ کسی ستائش، مفاد، شہرت یا اعزاز کے حصول کی تمنا نہیں رکھتے اور ان کی شخصیت اس سے ماورا ہوتی ہے۔اس کے باوجود دنیا  بھر کی حکومتیں اپنے اہل علم کی عزت افزائی کرتی ہیں ، انھیں اعزازات سے نوازتی ہیں۔

ان کے نام پر عظیم عمارتوں اور مقامات کے نام رکھنا، ان کے نام کا سکہ اور کرنسی نوٹ جاری کرنا، ڈاک ٹکٹ اور ان کے نام پر انعامات دینا ایک عام روایت ہے۔جیسے نوبیل پرائز آلفریڈ نوبیل سے منسوب ہے یا جارج واشنگٹن برج وغیرہ۔ مغربی ممالک اپنے سائنسدانوں، اسکالرز اور شوبز انڈسٹری میں کاکردگی دکھانے والوں کے نام کو ہمیشہ زندہ رکھنے کے لیے اُن کے نام سے اسٹریٹ، بلڈنگ یا کوئی روڈ منسوب کردیتے ہیں۔ پاکستان میں بھی ایسا ہی کیا جاتا ہے جیسے ڈاکٹر رتھ فاؤ ، سرسید احمد خان اور عبدالستار ایدھی جیسی شخصیات کے اعزاز میں اسٹیٹ بینک اعزازی سکے جاری کر چکا ہے۔اسی طرح مختلف ممالک کے صدور، ملکی نامور شخصیات، سائنسدانوں اور بڑے بڑے منصوبوں کے اعزاز میں حکومت اعزازی ڈاک ٹکٹ جاری کرتی رہتی ہے۔

ہر سال حکومت پاکستان بھی مختلف شعبہ ہائے زندگی سے ممتاز شخصیات کا انتخاب کرتی ہے، جنھیں 23مارچ کو یہ ایوارڈز دیے جاتے ہیں۔14 اگست کو ان شخصیات کا اعلان ہوتا ہے، اس بار چونکہ اس وقت حکومت موجود نہیں تھی، اس لیے اعلان نہیں ہوا۔ ڈیڑھ ہفتہ پہلے ان شخصیات کے ناموں کا اعلان کیا گیا، جنھیں کل یوم پاکستان پر ایوارڈز دیے جائیں گے۔

پاکستان کے معرضِ وجود میں آنے کے گیارہ سال بعد اعزازات کا یہ سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔اس سلسلے میں حکومت پاکستان کی جانب سے ’’پاکستان سول ایوارڈ ‘‘کے عنوان سے ایک خط 1958 میں جاری ہوا جس میں چھ اقسام کے ایوارڈ دیے جانے کا فیصلہ کیا گیا۔ان میںپہلا ’’اعزازبرائے پاکستان‘‘، دوسرا ’’اعزاز برائے شجاعت‘‘ ، تیسرا ’’اعزازبرائے امتیاز‘‘،چوتھا ’’اعزاز برائے قائد اعظم‘‘،پانچواں ’’اعزاز برائے خدمت‘‘ اورچھٹا’’صدارتی ایوارڈ برائے حسن کارکردگی‘‘ شامل تھے۔

اسے ہم یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ اگر کسی کو عزت اور احترام دینا مقصود ہو تو اُس کے لیے ’’نشان‘‘ کا ایوارڈ دیا جاتا ہے۔ اس کے چار درجے ہیں، نشان پاکستان،ہلال پاکستان، ستارہ پاکستان، تمغہ پاکستان۔ اگر کسی کو بہادری کا اعزاز دینا ہو تو ’’شجاعت‘‘ کا ایوارڈ دیا جاتا ہے اور یہ ایوارڈ صرف پاکستانی شہریت رکھنے والوں کو دیا جاتا ہے۔ اس ایوارڈ کے بھی چار درجے ہیں، نشان شجاعت، ہلال شجاعت، ستارہ شجاعت، تمغہ شجاعت۔ اگر کسی کو بہترین کارکردگی کی بنیاد پر انعام سے نوازنا ہوتا تو ’’امتیاز‘‘کا ایوارڈ دیا جاتا ہے اور اس ایوارڈ کو حاصل کرنے کے لیے بھی پاکستانی ہونا شرط ہے۔

اس ایوارڈ کے چار درجے ہیں، نشان امتیاز، ہلال امتیاز، ستارہ امتیاز، تمغہ امتیاز۔اس کے علاوہ کسی غیر ملکی شخصیت کو پاکستان کے لیے کام کرنے پر نوازنا ہوتو اُس کے لیے ’’نشان ِقائداعظم‘‘ دیا جاتا ہے۔ یہ بھی چار درجات میں دیا جاتا ہے، نشان قائداعظم ، ہلال قائداعظم، ستارہ قائداعظم، تمغہ قائداعظم۔اسی طرح ’’خدمت ‘‘ کا اعزاز بھی انسانی خدمت کے شعبے میں دیا جاتا ہے اس ایوارڈ کو حاصل کرنے کے لیے بھی پاکستانی ہونا شرط نہیں ہے اور اس کے بھی چار درجے ہیں، نشان خدمت ، ہلال خدمت، ستارہ خدمت، ہلال خدمت۔

صدارتی ایوارڈ برائے حسن کارکردگی کے لیے ایوارڈ کی رقم دس لاکھ روپے ہے جب کہ شجاعت کے مختلف درجوں کے لیے اس سے بھی زیادہ رقم انعام کے طور پر دی جاتی ہے۔ ’’اعزازبرائے شجاعت‘‘ چاروں درجوں میں بہادری اور غیر معمولی حالات میں انسانی زندگیوں کو بچانے کے سلسلے میں خدمات پر دیے جاتے ہیں جب کہ دیگر درجوں میں اعزازت میڈیسن،انجنئیرنگ، ٹیکنالوجی، فلسفہ، تاریخ،تعلیم، ادب کے حوالے سے کی جانے والی تحقیق پر دیے جاتے ہیں۔

اس کے علاوہ سرکاری اداروں میں خدمات سرانجام دینے والے ملازمین اور غیر ملکیوں کو بھی ایوارڈ دیے جاتے ہیں جنہوں نے پاکستان کے حوالے سے کوئی اہم خدمات سرانجام دی ہوتی ہیں۔ 1959 میں پہلا تمغہ برائے حسن کارکردگی مغربی پاکستان میں حفیظ جالندھری اور مشرقی پاکستان میں ڈاکٹر شاہین الدولہ اور کوی جسیم الدین کو دیا گیا۔ اس کے بعد یہ اعزازصوفی تبسم 1962، شاہد احمد دہلوی، ابوالفضل 1963، مولانا صلاح الدین احمد 1964، رئیس احمد جعفری 1966، عاشق حسین بٹالوی 1967، احمد ندیم قاسمی 1968، و دیگر اہل قلم کو دیے گئے۔

میرے خیال میں یہ اعزازات دینا ایک اچھی روایت ہے۔ یہ بھی ایک اچھی روایت ہے کہ ان شخصیات کو یوم پاکستان پرہی ایوارڈز دیے جاتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ان شخصیات کا چناؤ کیسے کیا جاتا ہے؟ کیا اس میں بھی ہیرا پھیری کا عنصر پایا جاتا ہے؟  میرے ناقص علم کے مطابق زرداری ادوار میں دیے جانے والے ایوارڈز سب سے زیادہ متنازعہ رہے ۔

ویسے بھی نوبل انعام سے لے کر صدارتی ایوارڈ تک نامزد ہونے والوں پر اعتراضات کا سلسلہ چلتا رہتا ہے۔عالمی سطح پر ایوارڈ ایسے لوگوں کو بھی دیے جاتے ہیں جن کی شخصیت کا ایک ہیولہ تشکیل دے کر عالمی قوتوں نے کچھ کام لینے ہوتے ہیں۔مگر ماضی میں پاکستان کی سطح پر ایوارڈ کی نامزدگی بغیر کسی مناسب سسٹم کے ہونے کے سبب ہر بار کچھ نام ایسے آ جاتے ہیں جو حیرانی کا سبب بنتے ہیں۔ ہر سال جب ایوارڈ کی نامزدگی کا اعلان ہوتا ہے ادب، آرٹ، فلم، ڈراما، صحافت کے شعبہ جات میں ایوارڈ پانے والوں کے ناموں پر لے دے ہوتی ہے۔ جو ایوارڈ ملنے والوں کے احباب میں شامل ہوتے ہیں وہ ایوارڈ کی نامزدگی میرٹ پر قرار دیتے ہیں جو مخالف ہوتے ہیں، وہ ہر سال اس موقع پر میرٹ  کا رونا روتے ہیں۔

خیر میں یہ نہیں کہتا کہ 2019ء کے سول ایوارڈز میں جن شخصیات پر اعتراض اُٹھایا جا رہا ہے، وہ واقعی اعتراض کے قابل ہیں یا نہیں؟ ہمارے لیے تمام شخصیات ہی قابل احترام ہیں، تمام شخصیات ہی اچھا کام کر رہی ہیں، فرق صرف اتنا ہے کہ کچھ کاکام نظر آرہا ہوتا ہے اور کچھ دوست مروت ہی میں کام کیے جاتے ہیں جنھیں شاید شہرت کی ضرورت بھی نہیں ہوتی۔

اس لیے یہ فیصلہ عوام نے کرنا ہوتا ہے کہ کون انعام کا حقدار ہے اور کون نہیں؟ لیکن حکومت سے اس حوالے سے استدعا ضرور کی جاسکتی ہے کہ ایوان صدر سے جاری ہونے والے ان اعزازات کا کوئی فول پروف معیار ضرور مقرر کیا جائے۔ لہٰذایوم پاکستان پر اس ایوارڈ کا احترام کیا جانا چاہیے تاکہ مستحق افراد ہی میں یہ ایوارڈ تقسیم ہو۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔