منافقت بالآخر ظاہر ہوکر رہتی ہے

ڈاکٹر یونس حسنی  جمعـء 22 مارچ 2019

نیوزی لینڈ کے شہر کرائسٹ چرچ میں گزشتہ جمعہ کو ایک گورے نسل پرست نے باقاعدہ منصوبہ بندی کرکے عین نماز جمعہ کے وقت دو مساجد پر دہشت گردانہ حملے کرکے تقریباً50 افراد کو شہید اور سوکو زخمی کردیا۔نیوزی لینڈ کی حکومت اس دہشت گردی پر ہل کر رہ گئی۔ نیوزی لینڈ کا معاشرہ انگشت بدنداں ہے اور وہاں کی حکومت سرگرداں ہے دہشت گردی اب ان کے گھروں تک آن پہنچی ہے۔

یہ پہلی بار ہوا کہ ایک دہشت گرد کے دہشت گردانہ عمل کو یورپی معاشرے نے دہشت گردی قرار دیا۔ نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم جیسنڈا آرڈرن نے اس حملے کو دہشت گردی قرار دیا اور اس پر اپنے شدید رنج و غم کا اظہار کیا۔ اس سے قبل ہمیشہ گوروں کی طرف سے کی جانے والی دہشت گردانہ کارروائیوں کو یورپ کے مختلف ممالک کے حکمران شوٹنگ قرار دیتے تھے اور حملہ آور کو عام طور پر ذہنی مریض قرار دے کر ایسی کارروائیوں کو ’’داخل دفتر‘‘ کیے جانے کے دروازے کھول دیے جاتے تھے، مگر اس بار نیوزی لینڈ کی خاتون وزیر اعظم نے اسے کھلی دہشت گردی قرار دے کر اقوام یورپ کے لبوں پر مہر لگا دی ہے۔

’’دہشت گرد کا کوئی مذہب نہیں ہوتا‘‘ یہ جملہ اتنی بار دہرایا جاچکا ہے کہ اب اس میں خود کوئی وزن نہیں رہا۔ اب اگر ہم کہیں کہ دہشت گرد کا کوئی رنگ نہیں ہوتا تو پورا یورپ بلبلا اٹھے گا۔ کیونکہ پہلی بار سفید فام دہشت گردی کو دہشت گردی قرار دیا گیا ہے، ورنہ سفید فاموں کی طرف سے ایسی شوقیہ فائرنگ کو محض شوٹنگ قرار دے کر نظر انداز کردیا جاتا رہا ہے۔ البتہ کسی کالے یا رنگ دارکی ذرا سی غلط کاری بہت بڑی دہشت گردی قرار دے دی جاتی ہے، اس کے تانے بانے ناپسندیدہ ممالک سے منسلک قرار دیے جاتے ہیں اور پھر متعلقہ ممالک کے خلاف انتہائی متعصبانہ اقدامات کیے جاتے رہے ہیں۔

مگر اس بار بھلا ہو نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم کا کہ انھوں نے پوری جرأت مندی سے اس دہشت گردی کو دہشت گردی قرار دیا۔ مسلمانوں کی جانوں کے زیاں پر رنج وغم کا اظہار کیا اور رنگ دار اقوام کو انسانوں کی صف میں لاکھڑا کیا۔ اس حادثے میں مختلف افراد، مختلف اقوام اور مختلف گروہوں کے رویے خاصے مختلف رہے ہیں اور ان پر توجہ دینا ضروری ہے۔یہ حادثہ نیوزی لینڈ میں واقع ہوا۔ دہشت گرد نے جمعہ کا دن پسند کیا۔

جمعہ کی نماز کے اجتماع کا وقت دہشت گردی کے لیے منتخب کیا اور فائرنگ سے چند منٹ قبل سوشل میڈیا پر اپنی کارروائی کوکرنے سے پہلے ظاہر بھی کردیا۔ اس نے اپنے ٹوپ میں جو سر کی حفاظت کے لیے تھا ایک کیمرہ بھی لگا رکھا تھا جس کے ذریعے اس خوں آشام حادثے کی تفصیلات باقاعدہ سوشل میڈیا پر نشر ہوتی رہیں ، پھر بھی پولیس کوئی نصف گھنٹے بعد جائے وقوعہ پر پہنچی۔ محض یہی ایک چیز ہم میں اور اس یورپی ملک میں یکساں دکھائی دی ورنہ وہاں کے نظام میں اس قدر تاخیرکا جواز نہیں دیا جاسکتا۔

دوسرے روز جب مجرم کو عدالت میں پیش کیا گیا تو وہ قطعاً پشیمان نہیں تھا بلکہ فتح کا نشان بناکر اپنی کارگزاری کی عظمت کو ظاہر کر رہا تھا ، لیکن نیوزی لینڈ کی خاتون وزیر اعظم نے نہ صرف اس کارروائی کو دہشت گردی قرار دیا بلکہ وہ مسلمانوں کے غم میں برابرکی شریک رہیں۔ انھوں نے سیاہ لباس زیب تن کرکے اور دوپٹہ اوڑھ کر خالص مسلم ثقافت کے انداز میں شہدا کے متعلقین کے پاس جاکر ان سے تعزیت کی، ان سے ہمدردی کا اظہارکیا اور ان کے غم میں شریک وسوگوار رہیں اور یوں انسانیت کا پرچم بلند رکھا۔

دوسری طرف امریکا کے متعصب سفید فام صدر مسٹر ٹرمپ نے اس واقعے پر جس میں پچاس مسلمان شہید اور سو کے قریب زخمی ہوئے اور جنھیں اس طرح قتل کیا گیا جس طرح مچھر مارنے والی گن سے مچھر مارے جاتے ہیں فرمایا اور بڑی بے شرمی سے فرمایا کہ سفید فام قوم پرستی سے دنیا کوکوئی خطرہ نہیں جب ان کی توجہ 49 مسلمانوں کے قتل عام کو خطرناک رجحان قرار دینے کی طرف مبذول کرائی گئی تو فرمایا ’’ میں ایسا نہیں سمجھتا ‘‘ افغانستان کی پہاڑیوں میں بیٹھا اسامہ بن لادن تو دنیا بھر کے لیے خطرہ تھا اور اس کی خاطر سالوں سے افغانستان پر فوج کشی کی جاتی رہی مگر یہ رنگ دار مسلمانوں کی جانوں کا ضیاع پر مسٹر ٹرمپ کے لیے کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔ امریکی نشریاتی ادارے سی این این نے مسٹر ٹرمپ کے اس رویے کو منافقانہ قرار دیا ہے۔ آخر خون بھی تو بولتا ہے۔

مسٹر ٹرمپ کی ہرزہ سرائی پر ہمیں زیادہ حیرت نہیں وہ پہلے بھی ایسے ہی احمقانہ اور ظالمانہ ارشادات فرماتے رہے ہیں اور ان کے ملک میں ہزاروں لوگ ان کو ذہنی طور پر غیر متوازن قرار دیتے رہے ہیں ۔ یہ الگ بات ہے کہ اس حد تک ذہنی مریض کو امریکی صدر مقرر کیا جاسکتا ہے یا وہ اپنے عہدے پر قائم رہ سکتا ہے۔ یہ امریکی معاشرے کے لیے غور کرنے کی بات ہے ۔ کرائسٹ چرچ میں شہادت پانے والوں میں 9 پاکستانی بھی شامل ہیں۔ تین افراد ہنوز لاپتہ ہیں۔ ملک کے مختلف شہروں میں مرنے والوں کے لواحقین کے یہاں صف ماتم بچھی ہوئی ہے۔ مگر ہمکھیل میں اس قدر مگن رہے کہ ایک منٹ کی خاموشی کو اظہار غم کے لیے مناسب خیال کیا گیا ۔

سرکاری سطح پر قومی پرچم سرنگوں کیا گیا مگر خوشیوں اور خرمستیوں میں کسی قسم کی رکاوٹ کوگوارا نہیں کیا گیا۔

اب کچھ دن نیوزی لینڈ کے شہدا سے ہم آہنگی کی خاطر چند اور غیر اسلامی اقدامات کیے جائیں گے مثلاً کسی مخصوص جگہ پر موم بتیاں روشن کی جائیں گی، ان کی یاد میں کسی مخصوص جگہ پر پھول رکھے جائیں گے جو اظہار غم کے محض رسمی طریقے ہیں اور ان طریقوں کا ہماری ثقافتی زندگی سے دور دور کا واسطہ نہیں مگر کیا کیا جائے کہ اس ’’منافقانہ‘‘ عمل کی سربراہی ہمارے سیاستدان فرما رہے ہوں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔