دوست کے حقوق

مولانا عابد بلوچ  جمعـء 22 مارچ 2019
مسلمان بُرے دوستوں سے بچتے ہوئے اللہ کے نیک اور صالح بندوں سے محبت اور دوستی کرتا ہے۔ فوٹو: سوشل میڈیا

مسلمان بُرے دوستوں سے بچتے ہوئے اللہ کے نیک اور صالح بندوں سے محبت اور دوستی کرتا ہے۔ فوٹو: سوشل میڈیا

دوست، اس لفظ کے زبان پر آتے ہی ذہن میں ایک باوفا، بے لوث اور پُرخلوص انسان کا تصور ابھرتا ہے۔ یہ پُرخلوص انسان معاشرے میں دوست کے رشتے کی مناسبت سے جانا جاتا ہے، اسے ہم راز بھی کہہ سکتے ہیں۔ اصل دوست تو وہی ہوتا ہے جو مشکل میں کام آئے اور ہمیشہ اچھائی کی تلقین کرے۔

بعض لوگ دوستی کے لبادے میں دشمنوں سے بھی بدتر کردار ادا کرتے اور اپنے دوست کو راہ راست سے بھٹکا کر اللہ تعالیٰ کا باغی بنا دیتے ہیں، یوں بُرے دوستوں کی صحبت کی وجہ سے انسان جنت کا راستہ کھو دیتا ہے۔ قیامت کے روز بُرے دوستوں کا ڈسا ہوا انسان کف افسوس ملتے ہوئے کہے گا: اے کاش! میں نے فلاں کو اپنا دوست نہ بنایا ہوتا، لیکن اس وقت یہ افسوس و پشیمانی اور ندامت کے آنسو کسی کام نہیں آئیں گے۔ اسی لیے تو آپؐ نے ایک مسلمان کو خبردار کرتے ہوئے فرمایا: دوست بنانے والا اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے، اس لیے تم دوست بناتے ہوئے یہ جانچ لو کہ تم کسے دوست بنا رہے ہو۔

مسلمان بُرے دوستوں سے بچتے ہوئے اللہ کے نیک اور صالح بندوں سے محبت اور دوستی کرتا ہے۔ وہ سب لوگ جو اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے باغی اور فاسق ہیں، وہ ان سے بغض رکھتا ہے۔ گویا اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی محبت اس سے محبت ہے اور اللہ و رسول ﷺ سے دشمنی اس سے دشمنی ہے۔ رسول اللہ ﷺ کے ارشاد عالی کا مفہوم  ہے: ’’ جو شخص اللہ کے لیے محبت و بغض رکھے اور اللہ ہی کے لیے کوئی چیز دے اور روکے، تو اس نے اپنا ایمان مکمل کرلیا۔‘‘ (سنن ابی داؤد)

اچھے لوگوں سے میل جول رکھنا اور دوستی کا ہاتھ بڑھانا ایک سچے مومن کی شان ہے۔ حضور ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ’’ مومن دوستی کرتا ہے اور اس سے دوستی کی جاتی ہے (اور) اُس شخص میں کوئی خیر نہیں ہے جو نہ تو کسی سے مانوس ہوتا ہے اور نہ ہی اُس سے کوئی مانوس ہوتا ہے۔‘‘ (مسند احمد)

اچھے دوست بنانے والوں کے متعلق رسول اللہ ﷺ نے عظیم خوش خبری سنائی ہے، مفہوم: ’’ عرش کے اردگرد نور کے منبر ہیں، ان پر نورانی لباس اور نورانی چہرے والے لوگ ہوں گے، وہ انبیاء و شہداء تو نہیں مگر انبیاء و شہداء ان پر رشک کریں گے۔ صحابہ کرام ؓ نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول ﷺ! ہمیں بھی ان کی صفات بیان کیجیے۔‘‘ آپؐ نے فرمایا: یہ لوگ اللہ کے لیے ایک دوسرے سے محبت کرنے والے، ایک دوسرے کے پاس بیٹھنے والے اور اللہ ہی کے لیے ایک دوسرے کی ملاقات کو آنے والے ہیں۔‘‘(سنن نسائی)

اچھے لوگوں سے دوستی رکھنا اللہ تعالیٰ کی محبت کا ذریعہ ہے۔ حدیث قدسی کا مفہوم ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ’’ میری محبت ان کے لیے ثابت ہوچکی ہے جو میرے لیے ایک دوسرے سے ملتے ہیں اور میری محبت ا ن لوگوں پر ثابت ہو چکی ہے جو میری خاطر ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں۔‘‘ ( مستدرک حاکم) یہی نہیں بل کہ آپؐ نے فرمایا: ’’ قیامت کے دن جب اللہ تعالیٰ کے عرش کے سائے کے علاوہ کوئی سایہ نہ ہوگا، اس وقت اللہ تعالیٰ سات بندوں کواپنے عرش کا سایہ نصیب کریں گے، جس میں سے وہ دو آدمی بھی ہوں گے جو اللہ کے لیے ایک دوسرے سے محبت رکھتے اور اللہ ہی کے لیے ایک دوسرے سے جدا ہوتے ہیں۔‘‘ (صحیح بخاری)

ایک شخص اپنے ساتھی کی ملاقات کو جا رہا تھا تو اللہ تعالیٰ نے راستے میں اس کے لیے ایک فرشتہ مقرر کیا۔ فرشتے نے اس شخص سے پوچھا: کہاں جا رہے ہو؟ وہ شخص کہنے لگا: اپنے فلاں بھائی (دوست) سے ملنے جا رہا ہوں۔ فرشتے نے کہا: اس کے پاس کسی کام سے جا رہے ہو؟ اس نے کہا: نہیں۔ فرشتہ پھر کہنے لگا: تمہاری اس سے کوئی رشتے داری ہے؟ فرشتے کو نفی میں جواب ملا تو پھر بولا: اس کا تم پر کوئی احسان ہے جو چکانے جارہے ہو؟

اس شخص نے پھر نفی کی۔ اس پر وہ فرشتہ پھر پوچھنے لگا: تو پھر تم اس کے پاس کیوں جارہے ہو؟ وہ شخص کہنے لگا: مجھے اس (دوست) سے اللہ کے لیے محبت ہے، اس لیے اسے ملنے جا رہا ہوں۔ یہ سن کر فرشتے نے اسے خوش خبری دی کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے تیرے پاس بھیجا ہے کہ تجھے اطلاع دوں کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ تجھ سے محبت کرتے ہیں کہ تُونے صرف اللہ تعالیٰ کے لیے اس شخص سے محبت کی ہے اور اللہ تعالیٰ نے تیرے لیے جنت واجب کردی ہے۔ (صحیح مسلم)

ایک اچھا دوست ضرورت کے وقت دوسرے دوست کے کام آتا ہے۔ مصیبت میں اس سے ہم دردی کرتا ہے اور اپنا مال استعمال کرنے سے اسے نہیں روکتا۔ اگر دوست بیمار ہے تو اس کی بیمارپرسی کرنا چاہیے۔ کسی کام میں مصروف ہے تو اس کا ہاتھ بٹایا جائے۔ اسے کوئی بات بھول گئی ہے تو یاد دلائی جائے۔ ملے تو خوش آمدید کہا جائے۔ ساتھ بیٹھے تو مجلس میں وسعت پیدا کرے اور جب وہ بات کرے تو اس کی بات توجہ سے سنے۔ دوست کے سامنے یا پیٹھ پیچھے اس کے عیوب کا ذکر نہ کرے۔ اس کے راز فاش نہ کرے۔ اس کے ساتھ نرم رویہ اختیار کرے۔ گفت گو میں بحث و جدل کا انداز نہ اپنائے۔ اس سے کسی بھی معاملے میں عتاب اور ناراضی کا اظہار نہ کرے۔ اپنی زبان کا استعمال دوست کے لیے اسی انداز میں کرے جس طرح وہ خود اپنے دوست سے اس کی توقع رکھتا ہے۔ دوست کو نصیحت کرتے ہوئے بات کو اتنا طویل نہ کرے کہ وہ اکتا جائے۔ اسی طرح لوگوں کے سامنے اسے ڈانٹنے اور پند و نصائح کرنے سے گریز کرے کیوں کہ وہ اس طرح شرمندہ اور متنفّر ہوگا۔

امام شافعی ؒ فرماتے ہیں: ’’ جو اپنے بھائی (دوست) کو پوشیدہ سمجھاتا ہے، وہ اس کی خیر خواہی کر رہا ہے اور اس کی زینت کا باعث ہے۔ اس کے برعکس جو لوگوں کے سامنے اپنے دوست کو نصیحت کرتا ہے، وہ اپنے دوست کو رسوا کر رہا ہے اور اسے معیوب بنا رہا ہے۔‘‘

دوست کی لغزشوں کو معاف کرے اور بے فائدہ باتوں سے صرف نظر کرے۔ اگر دوست سہواً کسی جرم یا گناہ کا مرتکب ہوجائے تو اس سے قطع تعلق نہ کرے اور نہ ہی دوستی میں کمی کرے بل کہ اسے سمجھائے۔ کیوں کہ اچھا دوست اس موتی کی طرح ہوتا ہے جو کیچڑ میں گرکر بھی قیمتی موتی ہی رہتا ہے۔

سیدنا ابودرداء ؓ فرماتے ہیں: تیرا بھائی (دوست) اگر بدل جائے اور نیکی کے حال پر نہ رہے تو اس وجہ سے اسے چھوڑ دینا درست نہیں، کیوں کہ اگر وہ خراب ہوسکتا ہے تو پھر ٹھیک بھی ہوسکتا ہے۔ دوستی میں وفا، ثابت قدمی اور دوام ضروری ہے۔ اگر دوست فوت ہوجائے تو دوست کی اولاد اور اس کے دوستوں سے اسی طرح حسن سلوک کرنا چاہیے جیسا وہ اپنے دوست سے کرتا تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے ایک بُڑھیا کا احترام کیا جو آپؐ کے پاس آئی، جب آپؐ سے اس کے متعلق پوچھا گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا: یہ خدیجہ ؓ کے پاس آیا کرتی تھیں۔ وفا کا یہ بھی تقاضا ہے کہ دوست کے دشمن سے تعلقات نہ جوڑے جائیں۔ امام شافعی ؒ فرماتے ہیں: تیرا دوست جب دشمن کا ساتھی بن جائے تو یوں سمجھ کہ وہ دونوں تیری دشمنی میں برابر ہیں۔

دوست کو تکلفات میں نہ ڈالے، اس لیے کہ یہ دوستی ختم کرنے کا سبب بن جاتے ہیں۔ ایک صالح دانا کا قول ہے کہ اگر تکلفات ساقط ہوجائیں تو الفت اور دوستی میں دوام پیدا ہوگا۔ اپنے دوست اور اس کی اولاد کے حق میں دعائے خیر کرے، اس لیے کہ آپؐ کے ارشاد مبارک کا مفہوم ہے کہ جب ایک شخص اپنے بھائی (دوست ) کے لیے غائبانہ دعا کرتا ہے تو فرشتہ کہتا ہے تجھے بھی اسی طرح (اجر) ملے۔ (صحیح مسلم)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔