پاکستان سوشل سینٹر شارجہ، حکومت وقت کی توجہ کا منتظر

محمد عمران چوہدری  پير 25 مارچ 2019
شارجہ کو منی پاکستان بھی کہا جاتا ہے لیکن پاکستان سوشل سینٹر شارجہ کو توجہ کی اشد ضرورت ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

شارجہ کو منی پاکستان بھی کہا جاتا ہے لیکن پاکستان سوشل سینٹر شارجہ کو توجہ کی اشد ضرورت ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

یہ ذکر ہے منی پاکستان شارجہ کا، سمندر پار وطن سے دور اگر آپ کو وطن کی خوشبو محسوس کرنی ہو تو آپ شارجہ چلے آئیے، آپ کو عربی کم اور پاکستانی زیادہ اپنے دائیں بائیں چلتے پھرتے نظر آئیں گے۔ یہاں پر آپ کو ہر وہ پاکستانی چیز ملے گی جس کی آپ کو خواہش ہے۔ حتی کہ رویے بھی پاکستانی ملیں گے۔ کہیں پر محبت تو کہیں تلخیاں، اور اگر آپ کو حقیقی پاکستانی رویوں کا مزا ہ لینا ہو تو آپ پاکستان سوشل سینٹر شارجہ چلے جائیے۔

وہ جاتی سردیوں کی ایک خوبصورت صبح تھی، موسم کا رومانس اپنے عروج پر تھا۔ کبھی ہلکی بوندا باندی تو کبھی ہلکی ٹھنڈی ہوا مزاج کو خوشگوار بنا رہی تھی۔ میں صبح دس بجے کے قریب شارجہ کے وسط میں واقع مناخ پارک کے بالمقابل پاکستان سوشل سینٹر میں داخل ہوا۔ مختصر سی انتظار گاہ سائلین سے بھری ہوئی تھی۔ میں حیران پریشان اس سوچ میں گم تھا کہ فیملی کو کہاں ٹھہراؤں۔ ’’آپ اندر جاکر بتائیں کہ آپ کے ساتھ فیملی ہے،‘‘ ایک صاحب کی آواز میرے کان سے ٹکرائی جو میری کیفیت کو بھانپ گئے تھے۔ بے اختیار میرے قدم انتظامیہ کے کمرے کی جانب بڑھ گئے۔ میں جیسے ہی اندر داخل ہوا، ایک کرخت آواز نے مجھے باہر جانے کا حکم دیا۔

’’میرے ساتھ فیملی ہے اور مجھے شناختی کارڈ بنوانا ہے،‘‘ ان کے لہجے کی پرواہ نہ کرتے ہوئے میں نے اپنے آنے کا مقصد بتایا، اور پھر اس کے بعد جس تیزی سے ضابطے کی کارروائی مکمل ہوئی، وہ قابل تعریف ہے۔ آخری کاؤنٹر سے فارغ ہونے کے بعد باہر نکلا تو دو معزز خواتین کو داخلی دروازے پر انتظار کرتے پایا، جو شاید اندر جگہ نہ ہونے کی وجہ سے باہر ہی انتظار کررہی تھیں۔

بیتے دس سال میں مجھے متحدہ عرب امارات کے عوامی خدمات سے متعلق کئی ایک دفاتر میں جانے کا موقع ملا۔ مگر اس قدر ناکافی سہولیات (صرف پاکستان سوشل سینٹر شارجہ میں) پہلی بار دیکھنے کو ملیں، میں نہایت ادب سے حکومت پاکستان کی خدمت میں چند گزارشات پیش کرنا چاہتا ہوں:

1۔ پاکستان سوشل سینٹر شارجہ میں انتظار گاہ کو مرد و خواتین کےلیے دو حصوں میں تقسیم کردیا جائے، یا پھر متحدہ عرب امارات دوبئی کے فارن آفس کی طرز پر اتنا وسیع کردیا جائے کہ مرد و خواتین بہ آسانی الگ الگ تشریف فرما ہوسکیں۔

2۔ دوبئی اور شارجہ ایئرپورٹ کی طرز پر باپردہ خواتین کو خدمات مہیا کرنے کےلیے عملے میں ایک خاتون کو شامل کیا جائے۔

3۔ اگر چائے خانے کا انتظام ممکن نہیں تو شارجہ ایئرپورٹ کی طرز پر ایک عدد مشین ہی نصب کروادی جائے جو دور دراز سے آنے والے سائلین کو چائے پانی مہیا کرسکے۔

4۔ سوشل سینٹر کے لان میں ایک عدد جھولے کا بندو بست کردیا جائے تاکہ فیملیز کےساتھ آنے والے بچے انتظارگاہ میں رش کا سبب بننے کے بجائے وہاں مشغول ہوسکیں۔

چلتے چلتے ایک آخری گزارش کہ پاکستان سوشل سینٹر شارجہ مرکزی شاہراہ سے بہت ہٹ کر، اندر کی طرف رہائشی عمارتوں میں گھرا ہوا ہے۔ بیتے ہوئے تین برسوں میں (جب سے اس علاقے میں مقیم ہوں)، میں نے اکثر لوگوں کو سوشل سینٹر کو تلاش کرتے پایا۔ اس لیے اگر موبائل راؤنڈ اباؤٹ میں سوشل سینٹر کی جانب رہنمائی کےلیے ایک تختی نصب کردی جائے تو عوام الناس کو بہت سہولت ہوگی۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

محمد عمران چوہدری

محمد عمران چوہدری

بلاگر پنجاب کالج سے کامرس گریجویٹ ہونے کے علاوہ کمپیوٹر سائنس اور ای ایچ ایس سرٹیفکیٹ ہولڈر جبکہ سیفٹی آفیسر میں ڈپلوما ہولڈر ہیں اور ایک ملٹی اسکلڈ پروفیشنل ہیں؛ آپ کوچہ صحافت کے پرانے مکین بھی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔