سارے رنگ

رضوان طاہر مبین  اتوار 24 مارچ 2019
ہمیں یہ پتا نہ چل سکا آخر ’حزب اختلاف‘ نے جس رخ کو مبینہ طور پر قبلہ کیا، اُس سمت آخر ہے کیا۔ فوٹو: فائل

ہمیں یہ پتا نہ چل سکا آخر ’حزب اختلاف‘ نے جس رخ کو مبینہ طور پر قبلہ کیا، اُس سمت آخر ہے کیا۔ فوٹو: فائل

خانہ پُری
ر۔ ط۔ م

اور جب ہم ’’چوتھی‘‘ میں تھے ۔۔۔!

کچھ دن قبل ’سماجی ذرایع اِبلاغ‘ پر ’’جب میں چوتھی میں تھا‘‘ کی ایک ’رِیت‘ سی چل نکلی، طنز ومزاح کے انداز میں اس ’رجحان‘ کے عنوان سے بہت کچھ لکھا گیا، لیکن ہم سنجیدگی سے اپنی ’چوتھی‘ جماعت میں جا پہنچے۔۔۔

یہ عرصہ اپریل، مئی 1996ء تا مارچ 1997ء تھا۔۔ہمیں ۔ اس زمانے کے عام انتخابات (فروری 1997ء) اور بے نظیر حکومت کا خاتمہ (1996ء) خوب یاد ہے۔ اسی زمانے میں عمران خان نے ’تحریک انصاف‘ بنائی اور پہلی بار ’چراغ‘ کے انتخابی نشان ’تَلے‘ انتخابی دنگل میں اترے۔۔۔ اسی زمانے سے جڑا ہوا کراچی میں مرتضیٰ بھٹو کا قتل بھی ہے۔ ہم جماعت دھڑلے سے قتل کا الزام بھی ایک ’شخصیت‘ کے سر ڈالتے تھے۔۔۔ اخبارات میں مرتضیٰ بھٹو کی میت لے جانے والے ہیلی کاپٹر سے لٹک جانے والے جذباتی جیالے کی تصویر بھی ہماری یادداشت سے محو نہیں!

ہمارا ’نجم دہلی بوائز پرائمری اسکول‘ کہنے کو تو نجی تھا، لیکن 1988ء میں ہی سرکار سے واپس ملا تھا، اس لیے اس پر ’سرکاری پن‘ طاری تھا۔۔۔ رنگ و روغن سے لے کر پنکھے، بتی اور ڈیسکوں تک حکومتی ’’توجہ‘‘ کے ’گواہ‘ تھے۔۔۔ اسکول کے وسیع صحن میں ہمارا کمرہ نمبر 7 بالکل اسٹیج کے مقابل تھا، گویا دائیں کھڑکیوں سے دیکھیے، تو لمبان میں نگاہ سفر کرتے ہوئے بڑے سے کنکریٹ کے اسٹیج تک جائے۔۔۔ جب کہ بائیں طرف کی کھڑکیاں اسکول کی چار دیواری میں کھلتیں، جہاں سے روشنی بے حد کم آتی، اس کی دیوار کے پار کوئلے کا ٹال تھا۔

ہماری کلاس ٹیچر مس روبی تھیں، دراز قد کی ایک پُروقار اور رعب دار استاد۔۔۔ ابھی جب ہم تیسری میں تھے، تو تب وہ ہماری انگریزی کی استاد ’مس شازیہ‘ کے متبادل کے طور پر آئی تھیں۔۔۔ پتا یہ چلا تھا کہ اُن کی رشتے کی بہن ہی ہیں، مس شازیہ کی سختیوں سے تنگ بچوں نے جب مس روبی کو پایا، تو حکومت بیزار لوگوں کی طرح یہی بولے کہ ’’پہلے والی ہی ٹھیک۔۔۔‘‘ مگر جلد ہی اُن کی سخت گیری اچھے اور ہم جیسے ’متوسط‘ تعلیمی رجحان والوں کے لیے ختم ہوگئی۔۔۔

شاید یہی وہ ’چوتھی‘ تھی جب ہم نے زندگی کا پہلا روزہ رکھا۔۔۔ اتفاق سے اسی ’چوتھی‘ کی سائنس کی کاپی کے ورق بھی ہمارے سامنے آگئے، جس میں اسکول بھر کی ہر دل عزیز مس غزالہ کے دستخط ثبت ہیں۔۔۔! اسی ’چوتھی‘ میں ’ون‘ سے ’تھری‘ تک تین سال اول اور ایک بار اسکول میں ٹاپ کرنے والا عمیر اشرف کلاس کے کچھ منہ زور لڑکوں سے تنگ آکر اسکول چھوڑ گیا۔۔۔ جو بہ زور شمشیر اس سے اپنا ’ہوم ورک‘ کرانے لگے تھے۔۔۔ اسی کلاس میں پہلی بار ایک ہم جماعت ’ریحان‘ کو بلیک بورڈ پر ’آر پلس اے‘ لکھ کر ایک معنی خیز مسکراہٹ کے ساتھ دیکھا، تو پہلی بار سمجھ میں آیا کہ اس ’ریاضی‘ کا مطلب ’مبینہ طور پر‘ کیا ہوتا ہے۔

’جب ہم چوتھی میں تھے‘ تب ہی ہفتہ وار تعطیل جمعے کے بہ جائے اتوار ہوئی۔۔۔ کتنا عجیب سا لگا تھا۔۔۔ اور آج یہ عجیب لگتا ہے کہ پتا نہیں ہم تب کیسے جمعے کو کھیل کود بھی لیتے، یا کبھی گھوم پھر بھی آتے اور پھر نہا دھو کر ’جمعے‘ کا اہتمام بھی کر لیتے۔۔۔ ہمارا اسکول دوپہر کا تھا، جب اتوار کی چھٹی ہوئی، تو جمعے کو اسکول 10 تا 12 بجے لگتا، یوں جمعے کے بعد ہمیں کچھ وقت اپنے مرضی سے ’جینے‘ کی آزادی ملتی۔۔۔

پھر ہفتے کا دن، جو ہفتے کا پہلا دن ہونے کی بنا پر ایک کرخت تاثر رکھتا تھا، یکایک جمعرات کے بہ جائے ’شیریں‘ ہوتا چلا گیا۔۔۔ کیوں کہ اب جمعرات کے بہ جائے ہفتے کی شام کے بعد ہمیں یہ پُرسکون ترین احساس رہتا کہ کل کے دن ’نہیں ہے کوئی کام۔۔۔!‘

شاہانِ وقت اور فنِ خوش نویسی
مرسلہ: سعد الطاف، سعیدمنزل، کراچی

بادشاہ خوش نویسی سے گہری دل چسپی رکھتے تھے اس لیے شاہی کتب خانوں کے لیے کاتب کا اہتمام خاص طور پر کیا جاتا اور یگانۂ روزگار کاتب ملازم رکھے جاتے تھے۔ شاہ جہاں کے عہد میں کاتبوں کی قدر و منزلت اتنی بڑھی کہ انہیں مہتمم کے عہدوں پر فائز کردیا گیا۔ یہ کتب خانوں کے لیے کتابوں کے نسخے تیار کرتے تھے، ان سے بوقتِ ضرورت کتابوں کی نشر و اشاعت کا بھی کام لیا جاتا تھا۔ چناں چہ جہاں گیر کو جب تزکِ جہاں گیری کی اشاعت کی ضرورت ہوئی، تو اس نے کاتبوں کو اس کے نسخے تیار کرنے کا حکم دیا۔ یہ نسخے حکام اور ملک بھر کے امرا میں تقسیم کیے گئے۔

خوش نویسی کے فن میں ہندوستان بھی کسی اسلامی ملک سے پیچھے نہیں رہا۔ یہاں کے بادشاہوں، صوفیوں اور عالموں نے اسے عرشِ معلی پر پہنچا دیا تھا۔ ایک طرف سلطان ناصر الدین محمود اور عالم گیر تختِ شاہی پر بیٹھے ہوئے قرآن مجید کے نسخے لکھ رہے تھے۔ دوسری طرف سید عبدالجلیل بلگرامی جیسے ذی علم صوفی کے دست و قلم کتابت میں مصروف تھے۔

لیکن اس فن کی اصل ترقی عہد مغلیہ میں ہوئی۔ اس سے پہلے سلطان ابراہیم غزنوی اور سلطان ناصر الدین محمود کے نام کاتبوں کی فہرست میں ملتے ہیں، مگر اس زمانہ میں یہ فن پوری طرح ترقی نہ کر سکا۔ کتابیں عموماً خط شکست میں لکھی جاتی تھیں۔ مغلوں کے حسن ذوق نے اسے پسند نہ کیا اور خط نستعلیق میں کتابیں لکھوائیں۔ بابر سے لے کر بہادر شاہ ظفر تک سارے مغل بادشاہ، شاہ زادیاں اور شاہ زادے خوش نویسی سے بے انتہا شغف رکھتے تھے۔ شاہ جہاں نہایت اچھا خوش نویس تھا۔ عالم گیر کو بھی اس فن میں بڑی دست گاہ حاصل تھی۔ بزم تیموریہ میں ہے کہ وہ شاہ زادگی سے لے کر آخری عمر تک فرصت کے اوقات میں قرآن شریف لکھا کرتا تھا۔ اس نے مدینہ منورہ بھیجنے کے لیے دو قرآن اپنے ہاتھ سے لکھے اور ان کی تزئین وغیرہ پر سات ہزار روپے صرف کیے۔ بہادر شاہ ظفر کے ہاتھ کی کچھ وصلیاں (خوش خطی کے مشق کے کاغذ) علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے کتب خانہ میں موجود ہیں۔ ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ مغلوں کے زوال کے بعد بھی خطاطی کا شوق کمال پر تھا۔

خود مختار ریاستوں کے حکم راں بھی اس فن کے بڑے دل دادہ اور مربی تھے۔ گولکنڈہ کے سلطان قلی قطب شاہ اور بیجا پور کے سلطان ابراہیم عادل شاہ ثانی خوش نویس تھے۔ نوابین اودھ نے فنِ خوش نویسی کی جس طرح سرپرستی کی اس کا حال عبدالحلیم شرر نے ’’گزشتہ لکھنؤ‘‘ میں تفصیل سے بیان کیا ہے۔ ان شاہانہ سرپرستیوں کے اثر سے وراقیت اور نساخیت کا نظام ہندوستان بھر میں قائم ہوگیا تھا اور فنِ کتابت نے اتنی ترقی کرلی تھی کہ بقول مولانا منظر احسن گیلانی ایک ایک آدمی صرف اپنے قلم سے مستقل کتب خانہ مہیا کرلیتا تھا۔ ابوالفضل کے والد شیخ مبارک ناگوری نے اپنے ہاتھ سے پانچ سو ضخیم کتابیں لکھی تھیں۔ اس زمانے میں یہاں ایسے باکمال خوش نویس پیدا ہوئے جن کی نظیر نہیں ملتی۔

(محمد زبیر کی کتاب اسلامی کتب خانے سے انتخاب)

’’برائی کا کوئی وجود نہیں!‘‘
آفتاب احمد خان زادہ

ایک مرتبہ ایک استاد سے شاگرد نے پوچھا ’’برائی کیا ہے؟‘‘ شاگرد نے جواب دیا ’’استاد محترم، میں بتاتا ہوں، لیکن پہلے مجھے آپ سے کچھ پو چھنا ہے۔‘‘ استاد نے کہا ’’ہاں پوچھو، کیا پوچھنا چاہتے ہو؟‘‘ تو شاگرد نے پوچھا ’’کیا ٹھنڈک کا وجود ہے؟‘‘ استاد بولا ہاں بالکل ہے۔ شاگرد نے جواب دیا ’’غلط محترم استاد، ٹھنڈ جیسی کوئی چیز نہیں ہوتی، بلکہ یہ دراصل گرماہٹ کی غیرموجودگی کا نام ہے۔‘‘

شاگرد نے پھر پوچھا ’’بھلا اندھیرا ہوتا ہے کیا؟‘‘ استاد نے جواب دیا ’’ہاں بالکل ہوتا ہے!‘‘ شاگرد نے کہا ’’نہیں استاد محترم، اندھیرا خود کوئی چیز نہیں، بلکہ روشنی کی غیر موجودگی ہے، جس کو ہم اندھیرا کہتے ہیں، کیوں کہ طبعیات (فزکس)کے اصولوں کے مطابق ہم روشنی یا گرماہٹ کا مطالعہ تو کر سکتے ہیں، لیکن ٹھنڈک یا اندھیرے کا نہیں۔‘‘ کچھ لمحے ٹھیر کر شاگرد نے پھر کہا ’’برائی کا بھی کوئی وجود نہیں، بلکہ یہ دراصل اچھائی، ایمان محبت، نیکی اور خدا پہ پختہ یقین نہ ہونے کا نتیجہ ہے، جس کو ہم برائی کہتے ہیں۔‘ یہ شاگرد مشہور سائنس داں ابوریحان البیرونی تھا۔

تعلق کا فن
مرسلہ: اویس شیخ، ٹوبہ ٹیک سنگھ
٭عزت، تعلقات اور محبت نہ ہی بھیک میں ملتی ہے اور نہ خیرات میں۔
٭بھری محفل میں تنہا ہونے کا احساس بہت جان لیوا ہوتا ہے۔
٭دنیا میں خوش و خرم رہنے کے لیے آپ کو خوشامد اور چاپلوسی کا فن آنا بہت ضروری ہے۔
٭جس طرح سچی محبت ڈھونڈنا مشکل ہے، ویسے ہی خالص نفرت بھی کسی کسی کا ہی مقدر ٹھہرتی ہے۔
٭کچھ لوگوں کی قسمت میں صرف دھتکار ہی لکھی ہوتی ہے۔
٭زندگی میں کبھی کسی بھی مقام پر انسان کو محبت، عزت، وقار اور تعلقات کی خاطر غیر کے در کی قدم بوسی نہیں کرنی چاہیے، بندہ بے وقعت ہوجاتا ہے۔

صد لفظی کتھا
رائے
رضوان طاہر مبین

شہر کے مشہور ’پنج ستارہ‘ ہوٹل کے نئے باورچی کو آج دوسرا دن تھا اور مینجر کو اِس کے نئے کھانے پر رائے درکار تھی۔
’’جناب! یہ لڑکا بتا سکتا ہے؟‘‘
ثمر نے ایک پرانے کپڑے پہنے ہوئے لڑکے کو آگے کرتے ہوئے کہا۔
’’ارے، کوئی ایسا بندہ لائو، جو یہاں کھانا کھاتا رہا ہو۔۔۔؟‘‘
مینجر نے زور دیا۔
’’صاحب! نئے کھانے پہلے والے کھانوں سے بہت زیادہ لذیذ ہیں۔۔۔!‘‘
لڑکے نے قطع کلامی کی۔
’’تم کھانا یہاں کھاتے ہو؟‘‘ مینجر نے حیرت سے پوچھا۔
’’نہیں صاحب!
میں تو یہاں بس جھوٹی پلیٹیں دھوتا ہوں۔۔۔!‘‘
لڑکے نے جواب دیا۔

ہارون رشید کے بیٹے کی ’شعرگوئی‘
مرسلہ: سارہ شاداب، کراچی
ہارون رشید کے بیٹے امین کو شعر کہنے کا بہت شوق تھا، چناں چہ ملکہ زبیدہ نے شاہی دربار کے ملک الشعرا اور خلیفہ کے نہایت قریبی ساتھی ابونواس کو شاہ زادے کی شعر گوئی کی اصلاح پہ مامور کیا۔ ابونواس انتہائی درجے کے بذلہ سنج اور ستم ظریف تھے اور کسی سے مرعوب نہیں ہوتے تھے۔ نڈر اور بے باک اتنے کہ برملا خلیفہ کی غلط باتوں پہ اسے ٹوک دیتے۔ چناں چہ اس نے جب شاہ زادے امین کی شاعری دیکھی، تو اس میں ’عروض‘ کی بے شمار غلطیاں تھیں۔ انہوں نے اشعار میں ’عروض‘ کی تمام غلطیاں نکال کر شاہ زادے کے سامنے رکھ دیں۔ شاہ زادے کو طیش آگیا اور اس نے ابونواس کو قید کروادیا۔ ہارون رشید کو پتا چلا تو اس نے رہائی دلوائی اور پھر کچھ دن بعد بھرے دربار میں جب امین بھی موجود تھے، تو خلیفہ نے بیٹے سے کہا ’’تمہارے استاد بیٹھے ہیں، کچھ تازہ اشعار سنائو!‘‘ شہزادے نے ابھی دو چار شعر ہی پڑھے تھے کہ ابونواس محفل سے اٹھ کھڑے ہوئے۔ خلیفہ نے پوچھا ’’ابونواس! کدھر جارہے ہو؟‘‘
ابونواس بولے ’’قید خانے!‘‘
(رئیس فاطمہ کے ایک کالم سے لیا گیا)

سائیں چپ شاہ
مرسلہ: ظہیرتبسم انجم، کراچی
درویش ہر وقت خاموش مراقبے میں رہتا تھا، کسی سے بات کرنا ہوتو زیادہ تر اشاروں سے کام لیتا، لیکن لوگوں کو اعتقاد تھا کہ اس کی دعا بہت جلدی قبول ہوجاتی ہے، اس لیے وہ اس سے دعائیں کراتے، مگر درویش ایک بندے کے لیے صرف ایک دعا کرتا۔ ایک دن ایک سائل اس کے پاس دعا کرانے کے لیے آیا، وہ بے اولاد تھا، والد غریب اور والدہ نابینا تھیں۔ سائیں نے انگلی اٹھا کر کہا : اے رب، اس کی والدہ اس کے والد اور بچوں کو اچھے گھر میں دیکھنا چاہتی ہے۔

اندھی تقلید
مولانا ابوالکلام آزاد
مجھے ہمیشہ اس بات کا احساس رہا ہے کہ ہمارے یہ دوست اور ساتھی بیش تر سیاسی معاملات پر اپنی عقل سے کام نہیں لیتے تھے۔ وہ گاندھی جی کے پکے مقلد تھے۔ جب بھی کوئی سوال اٹھتا وہ اس انتظار میں رہتے کہ دیکھیں گاندھی جی کا ردعمل کیا ہوتا ہے۔ گاندھی جی کے احترام اور عقیدت میں میں ان میں سے کسی سے بھی پیچھے نہیں ہوں، لیکن ایک پل کے یہ نہیں مان سکتا کہ ہمیں گاندھی جی کی اندھی تقلید کرنی چاہیے۔ عجیب بات ہے کہ ان دوستوں نے 1940ء میں ورکنگ کمیٹی سے جس سوال پر استعفا دیا تھا، آج وہ ان کی نگاہ سے یک سر اوجھل ہے۔ وہ ایک لمحے کے لیے بھی بغیر ایک فوج اور وسیع دفاعی انتظامات کے ہندوستان کی حکومت کو چلانے کے بارے میں نہیں سوچ سکتے، نہ ہی انہوں نے جنگ کے امکان کو مسترد کیا ہے۔ جواہر لال اس ورکنگ کمیٹی کے تنہا رکن تھے، جو میرے خیالات میں پوری طرح شریک تھے۔ میرا یقین ہے کہ واقعات کی منطق نے ان کے اور میرے موقف کی تائید کردی ہے۔
(’’آزادیٔ ہند‘‘ مرتبہ: ہمایوں کبیر سے کچھ سطریں)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔