سانحہ کرائسٹ چرچ؛ مظلوم مسلمانوں کا خون رائیگاں نہیں گیا

عبداللطیف ابو شامل  اتوار 24 مارچ 2019

تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کیلئے سبسکرائب کریں

تحریر و تقریر کی آزادی آزاد انسانوں ہی کا نہیں غلاموں کا بھی خواب ہوتا ہے کہ وہ اپنے دل کی بات بلاخوف و خطر لکھ اور بیان کرسکیں۔

ریاست اور سماج کا بھی یہ فرض ہے کہ ان کی بات کو دردمندی سے سنے اور ان کی شکایات کا ازالہ کرے اور یہ کوئی رعایت اور بھیک نہیں، بنیادی انسانی حق ہے۔ اسی لیے اسے دنیا بھر کے انسانوں کا حق تسلیم کیا گیا ہے۔ تحریر و تقریر کی آزادی بھی ایک ضابطے، قاعدے اور نظم و نسق کی پابند قرار دی گئی ہے۔ اسی لیے دل آزار اور نفرت پھیلانے پر مبنی تحریر و تقریر پر نہ صرف پابندی ہے بل کہ اسے قابل سزا جرم تسلیم کیا گیا ہے۔

اب ایک سوال اور بھی جواب طلب ہے کہ ہم تحریر و تقریر میں خبریت، حقائق اور بلاتعصب تجزیے کے پابند رہتے ہیں یا اسے کسی کے خلاف منصوبہ بند کریہہ پروپیگنڈے کے لیے بہ طور ہتھیار استعمال کرتے ہیں اور اگر کوئی ایسا کرتا ہے تو اسے بھی انسانیت کے خلاف جرم تسلیم کیا گیا ہے۔ لیکن یہ حقیقت سب پر عیاں ہے کہ دورجدید میں تحریروتقریر کی آزادی کے نام پر اسے بہ طور ہتھیار استعمال کیا جارہا ہے۔ یہ کہنا زیادہ درست ہوگا کہ یہ ہتھیار مہلک ترین بموں سے بھی زیادہ وحشت ناک ہوچلا ہے۔

نائن الیون کے بعد دنیا پھر کے مسلمانوں کے خلاف اس ہتھیار کا استعمال جس بے دردی اور سفاکی سے کیا گیا ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ اس میں انتہائی تیزی آگئی ہے، کی ہزاروں مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں۔ اب اصل حقائق تک پہنچنے کی رِیت نہ صرف ختم ہوگئی ہے بل کہ مغربی ذرایع ابلاغ (سوائے چند استثناء کے) اس کے مہلک اثرات کی جانب توجہ دینے میں بھی کوتاہی یا بہ طور حکمت عملی کے مرتکب ہیں۔ کیا یہ بتانے میں کوئی عار ہے کہ اب دنیا میں کسی بھی جگہ کوئی دہشت گردی کا واقعہ ہو، اسے فوری طور پر مسلم دہشت گردی کہنا سکۂ رائج الوقت ہے۔ حیران کردینے والی بات یہ ہے کہ دنیا بھر کے باصفا اہل دانش اس بات پر بی یک زبان متفق ہیں کہ دہشت گردوں کا کوئی مذہب نہیں ہوتا لیکن اب اسے منافقت سے کم کیا کہیں کہ مسلم دہشت گرد کی اصطلاح انہی کی ایجاد کردہ ہے۔

ناطقہ سر بہ گریباں ہے اسے کیا کہیے!

مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلانے والوں میں سیاست داں اور میڈیا بھی ذمے دار ہیں؟ ترکی کے وزیرخارجہ مولوت چاؤ شولو کا کہنا ہے کہ اس وحشت ناک حملے کے لیے ان سیاست دانوں اور میڈیا کے اداروں کو بھی ذمے دار ٹھہرایا جانا چاہیے جو اسلام اور مسلمانوں کے خلاف جنون کو ہوا دیتے ہیں۔ ترک وزیراعظم رجب طیب اردغان نے بھی ٹوئٹ میں لکھا کہ یہ حملہ نسل پرستی اور اسلام مخالف جذبات کی تازہ مثال ہے۔

کیا طیّب ارغان اور مولوت چاؤ شولو اپنے اس دعوے میں حق بہ جانب ہیں۔۔۔۔۔ ؟

آئیے اس کا جائزہ لیتے ہیں۔ نیوزی لینڈ میں دو مساجد پر دہشت گرد حملے میں اب تک اکیاون مسلمان جاں بہ حق اور درجنوں موت و زیست کی کش مکش میں ہیں۔ کیا ہم اسے مسلمانوں کا منظم قتل عام کہہ سکتے ہیں؟ جیسے بوسنیا میں کیا گیا تھا۔ جس دہشت گرد نے حملے کیے اس کا تعلق آسٹریلیا سے ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ آسٹریلیا کے اخبارات نے تحریر و تقریر کی آزادی کے نام پر مسلمانوں کے خلاف کیا پروپیگنڈا کیا اور اب تک کر رہے ہیں۔

One Path Network کی ایک تحقیق کے مطابق: ’’آج کل اسلام کو فروخت کیا جا رہا ہے اور یہ کوئی حیران کن بات نہیں ہے کہ اخبارات اسے (Cash) کر رہے ہیں اور ہوسکتا ہے کہ آپ یہ سن کر حیران ہوں کہ اس میں وہ کتنے زیادہ آگے نکل گئے ہیں۔ One Path Network کے ایک سال کے مطالعے میں آسٹریلیا کے پانچ سب سے زیادہ شایع اور فروخت ہونے والے اخبارات میں ہمیں تقریباً تین ہزار ایسے مضامین ملتے ہیں جن میں مسلمانوں اور اسلام کو تشدد، انتہاپسندی اور دہشت گردی سے منسوب کیا گیا ہے اور یہ صرف 2017 کی بات ہے۔

تقریباً ہر ایک دن میں آٹھ مضامین ایسے ہیں جو اسلام اور مسلمانوں کی منفی شکل پیش کرتے ہیں۔ پانچ ہزار مضامین میں سے 152 ایسے ہیں جو پہلے صفحے پر شایع کیے گئے اور یہ حقیقت ہے کہ تقریباً ہر سیکنڈ آسٹریلیا کے لوگوں کو اسلام کی منفی کوریج سے تباہ کیا جارہا ہے۔ بے شک ہمیں تشدد اور دہشت گردی کے بارے میں بات کرنا چاہیے مگر ہمیں یہ بھی تو سوال کرنا چاہیے کہ کیا یہ واقعی صداقت پر مبنی مضامین اور کہانیاں ہیں جو آپ شایع کر رہے ہیں؟ ہمیں یہ سوال بھی اٹھانا چاہیے کہ کیا یہ واقعی خبر ہے یا پروپیگنڈا؟ دو صفحات کا ایک کثیرالاشاعت اخبار ’’اسلام ایک خطرہ‘‘ کے عنوان سے اپنے مضامین روزانہ شایع کرتا ہے اور یہی کچھ دیگر اخبارات بھی کر رہے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں کے خلاف کریہہ اور منظم پروپیگنڈے کی وجہ سے 49 فی صد آسٹریلین شہریوں نے مسلمانوں کی ایمیگریشن کے خلاف پول کیا تھا۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں ہیں کہ منظّم منصوبہ بندی کے ساتھ مسلمانوں کے خلاف بے سروپا میڈیا ٹرائل کیا جا رہا ہے، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ 70 فی صد آسٹریلوی باشندے خود یہ تسلیم بھی کرتے ہیں کہ وہ مسلمانوں اور اسلام کے بارے میں برہ راست بالکل بھی نہیں جانتے۔ یہ ہے ہمارا میڈیا۔۔۔۔ یہ لوگ مسلمانوں کو جانتے تک نہیں لیکن ان سے نفرت کا درس دیتے ہیں۔‘‘

اس تحقیق کی روشنی میں کیا ہم اب یہ تسلیم کرنے میں حق بہ جانب نہیں ہیں کہ مغربی ذرائع ابلاغ مسلمانوں کے خلاف نفرت کا پرچار ایک منظم منصوبے کے تحت کررہے ہیں۔ اس پر اب کسی تبصرے کی گنجائش ہے؟ مسلم دہشت گردی کو کسی سائنسی تسلیم شدہ تھیوری کی صداقت کی طرح سمجھ لیا گیا ہے لیکن یہ بات سب ہی جانتے ہیں کہ یہ مسلمانوں کے خلاف محض ایک منصوبہ بند پروپیگنڈے کے سوا کچھ نہیں۔

آسٹریلیا کے وزیراعظم اسکاٹ موریسن نے نیوزی لینڈ کی مسجد پر حملہ کرنے والے شخص برینٹن ٹیرینٹ کو دائیں بازو کا ایک دہشت گرد قرار دیا ہے۔ اٹھائیس سالہ برینٹن ٹیرنٹ کے آباؤاجداد کا تعلق یورپ سے تھا جو کئی سال قبل ہجرت کرکے آسٹریلیا پہنچے تھے۔ برینٹن ٹیرنٹ کے والدین آسٹریلوی ریاست نیو ساؤتھ ویلز کے شہر گرافٹن میں مقیم تھے۔

برینٹن ٹیرنٹ کے نظریات پر بحث نے اس وقت زور پکڑا جب انہیں نیوزی لینڈ پولیس نے 16 مارچ کو عدالت میں پیش کیا۔ برینٹن ٹیرنٹ کو جب عدالت میں پیش کیا گیا تو وہ ہاتھ سے خاص طرح کا ’’اوکے‘‘ کی علامت بناتا رہا۔ حالیہ چند سالوں میں اس نشان کو سفید فام لوگوں کی بالادستی کی علامت کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ اسی علامت اور سفید فام برتری پر ہالی وڈ کی چھے فلمیں بھی ریلیز ہوچکی ہیں، جن میں ’دی برتھ آف نیشن، امریکن ہسٹری ایکس، ویلکم ٹو لیتھ، امپیریم اور بلیک لانس مین‘ شامل ہیں۔ اس نشان کو ہلیری کلنٹن بھی استعمال کرتی رہی ہیں۔

یورپی ممالک میں اس علامت کو فحاشی کے طور پر بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ اس علامت کو سفید فام لوگوں کی بالادستی کے لیے ابتدائی طور پر 2016 میں استعمال کیا جانے لگا۔ اگست 2017 میں امریکی ریاست میساچوٹس سے شروع ہونے والے سفید فام لوگوں کے مظاہروں کو سفید فام لوگوں کے علاوہ دیگر افراد نے ’نیو نازی، نیو فاشسٹ، وائٹ سپرمیسسٹ، اینٹی سمائٹس، ہولوکاسٹ ڈنائرز، نیو کانفیڈریٹس اور کانسپائریسی تھیورسٹس کے مظاہروں کا نام دیا۔ سفید فام برتری کے لیے گذشتہ چند سال سے تواتر سے مہم جاری ہے۔ یہی علامت بناکر نیوزی لینڈ کی مساجد پر حملہ کرنے والا دہشت گرد بھی عدالت میں پیش ہوا۔

برینٹن ٹیرنٹ کی جانب سے مساجد پر حملہ کیے جانے سے کچھ دیر قبل جاری کیے گئے اپنے منشور میں اس نے خود کو یورپین اور سفید فام قرار دیا۔ اس نے اپنے منشور میں لکھا تھا کہ سفیدفام کا علاقہ، ان کی زبان، ان کا مذہب، ان کی ثقافت، ان کے سیاسی نظریات، ان کی فلاسفی، ان کی شناخت اور سب سے بڑھ کر ان کا خون‘ سب یورپی ہیں۔ اس نے اپنے مینی فیسٹو میں پناہ گزین مخالف نظریات کا ذکر بھی کیا۔ برینٹن ٹیرنٹ نے یہ منشور حملے سے صرف 9 منٹ قبل نیوزی لینڈ کی وزیراعظم جیسنڈا ایرڈرن سمیت دیگر اعلیٰ حکومتی ارکان کو ای میل کیا تھا۔

اس منشور میں کہا گیا تھا کہ وہ ایک حملہ کرے گا تاکہ یورپی سرزمین پر غیرملکیوں کے باعث ہونے والی لاکھوں اموات کا انتقام لے سکے۔ 74 صفحات پر مشتمل دستاویز میں اس نے لکھا تھا کہ جب تک ایک بھی سفید فام زندہ ہے یہ لوگ ہماری زمین کو فتح نہیں کرسکیں گے اور ہمارے لوگوں کی جگہ نہیں لے سکیں گے۔ برینٹن ٹیرنٹ کی جانب سے عدالت میں پیشی کے وقت وائٹ سپرمیسی کی علامت نشان ’’اوکے‘‘ کے بنائے جانے کے بعد یہ کہا جا رہا ہے کہ اس نے نیوزی لینڈ کی مساجد پر حملہ بھی سفید فام لوگوں کی بالادستی قائم کرنے کے لیے کیا۔ نیوزی لینڈ کے شہر کرائسٹ چرچ میں واقع اسلحے کی دکان کے مالک نے انکشاف کیا ہے کہ اس نے دو مساجد پر حملہ کرنے والے دہشت گرد برینٹن ٹیرنٹ کو 4 بندوقیں فروخت کی تھیں۔ کرائسٹ چرچ میں واقع اسلحے کی دکان گن سٹی کے مالک ڈیوڈ ٹیپل نے ایک نیوز کانفرنس میں بتایا کہ ان کے اسٹور نے برینٹن ٹیرنٹ کو پولیس سے تصدیق شدہ آن لائن میل آرڈر کے ذریعے برینٹن کو 4 بندوقیں فروخت کی تھیں۔

نیوزی لینڈ کی وزیراعظم کا کہنا ہے کہ یہ واضح طور پر ایک دہشت گرد حملہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ کرائسٹ چرچ کی مساجد میں جو بھی ہوا ہے وہ ایک ناقابلِ قبول عمل ہے اور ایسے واقعات کی نیوزی لینڈ میں کوئی جگہ نہیں ہے۔ وزیر اعظم آرڈرن نے نیوزی لینڈ کے دارالحکومت ویلینگٹن کی کِلبِرنی مسجد میں نمازیوں سے تعزیت کی۔ اس موقع پر انہوں نے سیاہ رنگ کا اسکارف اور لباس زیب تن کیا تھا اور وہ لواحقین کے ہجوم میں کھڑے ہر شخص کے گلے لگ کر ان سے ذاتی طور پر افسوس کر رہی تھیں۔

نیوزی لینڈ جیسے ترقی یافتہ ملک میں دو مساجد پر نماز جمعہ کی ادائی کے دوران کئی معصوم، مظلوم اور نہتے مسلمانوں کو شہید اور زخمی کر دیا گیا، ان میں سے نو اعلٰی تعلیم یافتہ پاکستانی شہریوں سمیت دیگر ممالک کی مسلم خواتین، مرد، بچے اور جوان سب ہی شامل ہیں۔ مسلمان نیوزی لینڈ میں ایک صدی سے زیادہ عرصے سے رہ رہے ہیں۔ یہ مسلمان نیوزی لینڈ کی کل آبادی کا صرف ایک فی صد یعنی چالیس ہزار ہیں۔ یہ سب امن پسند اور قانون پسند شہری اور وہاں کی ترقی میں اپنا کردار بہ حسن و خوبی ادا کر رہے ہیں۔ ویسے بھی صرف ایک فی صد آبادی کی حیثیت ہی کیا ہوگی۔ یہ اندوہ ناک سانحہ اس دلیل کی کھلی نفی کرنے کے لیے کافی ہے، جس کا ترقی یافتہ مغربی ممالک کے ذرایع ابلاغ پروپیگنڈا کرتے ہیں کہ مسلمان دہشت گرد ہیں۔ یہ واقعہ اس بات کی سچائی کا کھلا ثبوت ہے کہ دہشت گروں کا مذہب ان کی پہچان کبھی نہیں ہوتا، ان کی پہچان صرف دہشت گرد ہی ہوتی ہے۔ یہ اندوہ ناک سانحہ مسلمانوں کے خلاف کریہہ پروپیگنڈا کرنے والوں کے منہ پر انسانیت کی طرف سے ایک زوردار طمانچہ ہے۔

پوری دنیا کے انسانوں کی بنیادی ضرورت امن و بھائی چارہ ہے۔ اس لیے کہ اس کے بغیر کوئی قوم و ملک ترقی نہیں کرسکتا اور نہ ہی متحد رہ سکتا ہے۔ امن، عالم کی ضرورت ہے کہ اگر یہ نہ ہو تو انسانیت دم توڑ دیتی ہے۔ امن ساری انسانیت کا مشترکہ خواب ہے اور کیوں نہ ہو کہ اس سے انسانیت کی بقا وابستہ ہے۔ امن عالم کو قائم رکھنے ہی کے لیے ملکی اور بین الاقوامی قوانین بنائے گئے ہیں اور یہ قوانین بلاکسی رعایت ملک و ملت، قبیلہ و زبان اور مسلک و مذہب کے تمام پر لوگو ہوتے ہیں اور ان کی پاس داری کرنا ہی امن عالم کے ثبات کے لیے ضروری ہیں۔

ہماری دنیا جو اب گلوبل ولیج کہلاتی ہے کہ جدید سائنسی پیش رفت نے اسے بنایا ہے اور اب دنیا میں کہیں بھی ہونے والا واقعہ صرف اس ملک کو متاثر نہیں کرتا بلکہ اس سے پوری دنیا متاثر ہوتی ہے۔ اس دنیا میں سب ہی اچھے اور پارسا نہیں بن سکتے اسی لیے قوانین کا اطلاق بھی کیا جاتا ہے کہ امن و امان کی فضا مسموم نہ ہونے پائے۔ کچھ شرپسند اور انسانیت کے دشمن اسے نابود کرنا چاہتے ہیں، ان لوگوں کا نظریہ صرف اور صرف دہشت گردی کا فروغ ہے۔ ان کا صرف ایک ہی نام ہے دہشت گرد انسانیت کے دشمن۔ نیوزی لینڈ میں ہونے والا اندوہ ناک سانحہ اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ دہشت گردوں کی کوئی مذہبی پہچان نہیں ہوتی وہ صرف امن عالم اور انسانیت کے دشمن ہوتے ہیں۔

اس واقعے کا افسوس ناک اور قابل غور پہلو یہ ہے کہ جہاں فوراً پولیس پہنچ جاتی ہے وہاں 18 منٹ تک یہ ہوتا رہا اور فیس بک پر لائیو اس وحشیانہ پن کو بہ راہ راست دکھایا جاتا رہا۔ اور یہ سوال پوچھنا کیا دہشت گردی ہوگا کہ اس وقت ساری انتظامیہ کہاں تھی ؟ اس وحشت کا مظاہرہ کوئی مسلمان کرتا تو ان کی اینٹ سے اینٹ بجا دی جاتی۔ کیا یہ واقعہ اس بات کا متقاضی نہیں ہے کہ مغربی ذرائع ابلاغ مسلمانوں کے خلاف اپنا مکروہ وظیفہ جپنا بند کرے اور اپنے متعصبانہ رویے پر نظرثانی کرے۔ کچھ ایسی خبریں بھی گردش میں ہیں کہ ان انسانیت کے مجرموں کو نفسیاتی بیمار قرار دے کر اس واقعے پر پردہ ڈال دیا جائے گا، اور اگر ایسا ہوا تو یہ انتہائی افسوس ناک ہوگا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس کے ہر پہلو کی شفاف تحقیقات کی جائیں اور مجرموں کو عبرت ناک سزا دی جائے۔

اس اندوہ ناک سانحے نے جہاں مسلم دہشت گردی کی تھیوری کو عوامی سطح پر مسترد کردیا، وہیں سفید فام برتری کے نعرے کو بھی کھوکھلا ثابت کردیا ہے۔ اس کا مظاہرہ اس وقت دیکھنے میں آیا جب پورپی ممالک کے امن و انصاف کے خواہاں ہزاروں شہریوں نے مسلمانوں کے ساتھ یک جہتی کے لیے شان دار مظاہرے کیے جو اب بھی جاری ہیں۔ ایسے مظاہرے نہ صرف نیوزی لینڈ میں ہوئے بل کہ آسٹریلیا اور کینیڈا میں بھی ہورہے ہیں۔

 

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔