مہذب رویہ!

راؤ منظر حیات  ہفتہ 23 مارچ 2019
raomanzar@hotmail.com

[email protected]

تین برس پہلے آسٹریلیاجانے کااتفاق ہوا۔ حد درجہ عمدہ ملک۔کافی حدتک شورسے دور۔امریکا جیسی گہماگہمی دور دور تک نظرنہ آئی۔بہت حدتک پُرسکون ملک۔ متعدد پاکستانیوں سے ملاقات ہوئی جو تلاش روزگارکے لیے آسٹریلیا آئے ہوئے تھے۔

ہر طبقے کے تارکین وطن۔ بڑے بڑے افسروں سے لے کرعام لوگوں تک۔ اکثر ملاقاتیں بھول چکا ہوں۔نہ نام یادہیں اورنہ چہرے۔ مگر دو تین ملاقاتیں ایسی تھیں جس سے حددرجہ حیران ہوگیا۔ کافی عرصے تک سوچتا رہاکہ ہم لوگ کس درجہ مشکل ہیں اور ہمارے رویے کتنے عجیب وغریب ہیں۔ پچاس ساٹھ پاکستانیوں سے کھانے پر نشست برپا ہوئی۔

ایک موصوف کہنے لگے کہ دس بارہ سال سے اس ملک میں آئے ہوئے ہیں۔ٹیکسی چلاتے ہیں۔ ان دس بارہ سالوں میں کبھی بھی شلوارقمیص کے علاوہ کچھ نہیں پہنا۔کبھی بھی پینٹ کوٹ پہننے کی کوشش نہیں کی۔یہ بات کم ازکم میرے لیے بہت ہی محیرالعقول تھی۔پینٹ کوٹ بھی ایک معتدل لباس ہے اورکُرتاشلواربھی۔مغرب میں کیونکہ پینٹ کوٹ عام پہنے جاتے ہیں،وہاں صرف کُرتے شلوار پہننے پر اصرارکرنے کی دلیل کم ازکم طالبعلم کی عقل سے حددرجہ بالاترتھی۔چنددن کے قیام کے دوران اَن گنت مقامی لوگوں اورپاکستانی تارک الوطن لوگوں سے ملاقات ہوئی۔ ذہن میں صرف ایک خیال اُبھرا۔آسٹریلیامیں نوے فیصد پاکستانی کسی بھی صورت میں مغربی سوسائٹی کا جزوی حصہ بھی نہیں بن پائے۔

یہ وہ نکتہ ہے جسے سمجھناقطعاًمشکل نہیں۔عرض کرتا چلوں۔ایک مغربی ملک میں جانے کااتفاق ہوا۔وہاں ایک بہت متمول پاکستانی تاجرنے بتایاکہ ہم لوگ جس بھی آبادی میں گھرکرائے پرلیتے ہیں یاخریدتے ہیں،تونزدیک رہنے والے گورے،وہاں سے اکثرمنتقل ہوجاتے ہیں۔اگر نہ بھی جائیں توگھروں کی قیمت اورکرائے کم ہونے شروع ہوجاتے ہیں۔مگرکیوں۔اس سوال کاجواب بے حدسنجیدہ ہے۔کہنے لگا،کہ بدقسمتی سے ہم لوگ،پاکستان کے جس بھی حصے سے منتقل ہوکریہاں آتے ہیں ہم اس حصے کے تمام معاملات کوبھی یہاں ہجرت کروالیتے ہیں۔کسی بھی صورت میں مغربی معاشروں کی معاشرتی حقیقتوں کوسمجھنے کی کوشش نہیں کرتے۔ہم سڈنی،لندن،نیویارک،اسٹاک ہوم اور دیگر شہروں میں انھی شرائط پررہناچاہتے ہیں،جیسے پاکستان میں اپنے گاؤں یاشہرمیں رہتے تھے۔

اکثریت مغربی معاشروں میں جھانکنے کی کوشش تک نہیں کرتی۔جن مغربی ممالک کی شہریت کے لیے انھوں نے زندگی قربان کی ہے۔ان کے سماجی رویوں سے مکمل طورپرلاتعلق رہتے ہیں۔ انکشاف میرے لیے حددرجہ نیاتھا۔اس بارے میں سوچاہی نہیں تھا۔

اس بزنس مین کی بات کافی حدتک درست تھی۔ذہن کو دھچکا سا لگا۔تارکین وطن کی پہلی نسل تومکمل طورپراپنے نئے مسکن سے لاتعلق رہتی ہے۔دوسری نسل ان سے کافی حدتک مختلف ہوجاتی ہے۔نوجوان بچے بچیاں،انھی سماجوں میں پلتے بڑھتے ہیں۔ان کے سوچنے اوررہنے کاطریقہ کافی حدتک مختلف ہوجاتا ہے۔وہ بھی ذہنی طورپرپریشان رہتے ہیں کہ وہ بذاتِ خود کیا ہیں۔گھرمیں کچھ اوردیکھتے ہیں۔جیسے ہی دروازے سے باہرنکلتے ہیں،ہرچیزبدل جاتی ہے۔یہ نوجوان اسی ذہنی انتشارمیں رہتے ہیں کہ ان کی اصل شناخت کیاہے۔ویسے ایک ضمنی بات ہے جولکھنا نہیں چاہتامگرلکھے بغیرچارہ بھی نہیں ہے۔ ہمارے جولوگ،مغرب میں منتقل ہوئے ہیں، وہ اپنی جوانی میں وہاں کے سماج سے تمام لطف حاصل کرتے ہیں۔من مانی کرتے ہیں۔ہرطریقے سے خوشی حاصل کرتے ہیں۔مگرجیسے ہی اُدھیڑعمرمیں پہنچتے ہیں یا اولادکی باری آتی ہے توتمام اعلیٰ اخلاقی اُصول یادآجاتے ہیں،جن پرانھوں نے خودکبھی عمل نہیں کیا۔

ہمارے لوگ،تلاش معاش یابہترزندگی گزارنے کی خواہش لے کردنیاکے تمام مغربی ممالک میں منتقل ہوتے ہیں۔ کم ازکم میں نے یہی دیکھاہے۔امریکا سے لے کر ساؤتھ افریقہ تک،اورچین سے لے کربرازیل تک۔ ہمارے لوگ ہر جگہ پائے جاتے ہیں۔ مگر اکثریت کسی بھی صورت میں ان معاشروں کامثبت حصہ نہیں بنتی۔تمام کی بات نہیں کر رہا۔ اَسی یانوے فیصد سے زیادہ لوگ،ان ملکوں کے مقامی لوگوں سے لاتعلق رہتے ہیں۔نتیجہ یہ کہ مغربی گورے نہ ہمیں سمجھ سکتے ہیں اور نہ ہم انکاذہن جان سکتے ہیں۔شائدآپکوایک بات مناسب نہ لگے۔ہمارے جتنے امیرپاکستانی یورپ یا دیگر مغربی دنیامیں گئے ہیں،وہ مقامی پاکستانیوں سے کوئی تعلق نہیں رکھتے۔یہی امیرطبقہ جب نیویارک یالندن جاتاہے تو وہاں کے مقامی اوسط درجہ کے تارک الوطن سے قطعاًنہیں ملتا۔

مرکزی نکتہ یہی ہے کہ ہم لوگ مغربی سوسائٹی کواجنبی کی طرح دیکھتے ہیں۔اس کے تمام فوائداُٹھاناچاہتے ہیں۔ مگر ان گوروں کے ساتھ ملناجلنابہت زیادہ مناسب نہیں سمجھتے۔ ہاں ایک اوربات۔مغرب سے ہرطریقہ سے لطف اُٹھانے کے بعدہمیں وہ مشرقی اقداریادآتی ہیں،جنکاعملی وجودختم ہو چکاہے یاوہ دم توڑچکی ہیں۔ایسے ملک،جن میں مذہب کی ذاتی رویہ سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں ہے،ہم ضدکرکے مقامی لوگوں کوبتاتے ہیں کہ ہم تم سے مختلف ہیں۔ لو جو کرنا ہے کرلو۔مقامی گورے اس رویے کوسمجھ نہیں پاتے۔ حددرجے غلط فہمیاں پیداہوتی ہیں۔جوچلتے چلتے گھمبیر مسائل پیدا کر دیتی ہیں۔ناپسندیدگی بھی بڑھتی چلی جاتی ہے۔اب یہ ناپسندیدگی، باہمی نفرت کے پیمانے کوچُھورہی ہے۔شدت پسندہرسماج میں ہوتے ہیں۔

ہمارے ملک میں بھی ہیں اورمغرب میں بھی۔مگروہاں شدت پسندی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہمارے تارک الوطن،ان سے دوردوررہتے ہیں۔اس کودین کے زاویے سے نہیں دیکھ رہا۔مگرمعاشرتی سطح پر فرق بڑھتا چلاجارہاہے۔اسی خلاسے کرائسٹ چرچ کی مساجدپرحملہ کرنے والے مغربی شدت پسندطاقت پکڑتے ہیں۔ معاف فرمائیے۔اسی ناسمجھی کے رویے سے بہاولپورمیں ایک طالبعلم،انگریزی پروفیسرکوچھریاں مارمارکرقتل کردیتا ہے کہ وہ کالج میں باغیانہ رویے پھیلارہاہے۔نیوزی لینڈ میں قتل عام کرنے والابرینٹین ہو،یابہاولپورمیں مقامی کالج کا طالب علم،معاملات ایک دوسرے کے خیالات کونہ سمجھنے کے ہیں۔اپنی سوچ دوسروں پرمسلط کرنے کاہے۔انگریزی کے اُستاد،خالدحمیدکوقتل کرنے والاطالبعلم اتناہی مطمئن تھا، جتناکہ مسلمانوں کوقتل کرنے والابرینٹن۔عدالت میں گورے قاتل کاعملی رویہ دیکھیں اوربہاولپورمیں طالبعلم قاتل کا مقامی پولیس کے سامنے رویہ دیکھیے۔یہ دونوں حددرجہ تک یکساں ہیں۔دونوں،اپنے مطابق،بالکل صحیح کام کرچکے ہیں۔

عدالت میں برینٹن نے جواشارے کیے،ان سے نسل پرستی برستی ہے۔طالبعلم نے پولیس کوجوبیان دیا۔ اس سے ذاتی رجحان کاپتہ چلتاہے۔طالبعلم کہہ رہاتھاکہ پروفیسر کو مار کر بہت اچھاکام کیا۔پروفیسرکوتومارہی دیناچاہیے تھا۔آپ جانناچاہیں گے کہ پروفیسرنے غلطی کیاکی تھی۔وہ بدقسمت انسان،کالج میں ایک مخلوط فنکشن کروارہاتھا۔کیایہ واقعی اتنابڑاجرم تھاکہ اسے ماردیاجاتا؟مگربرینٹن ہو یا طالبعلم۔ یہ دونوں رویے قابل مذمت بھی ہیں اورناقابل قبول بھی۔

سوال تویہ بھی اُٹھتاہے کہ کونسے رویے صائب ہیں اور کن کی بیخ کنی کی ضرورت ہے۔یہ حددرجہ مشکل سوال ہے۔ میرے جیسے طالبعلم کے پاس توکوئی جواب نہیں ہے۔ شائد کسی کے پاس بھی نہیں ہے۔مگرنیوزی لینڈکی وزیراعظم جیکسنڈاآرڈرن نے اس سوال کاجواب عملی طور پر دیا ہے۔ اس نے انتہائی مہذب رویے سے دنیا کو بتایا ہے کہ کسی کوبھی اپنے عقیدہ یاذہنی سوچ کے حوالے سے دوسرے فریق کو نقصان دینے کی اجازت نہیں ہے۔اس نے ثابت کیاکہ انسانیت سب سے بڑااورعظیم رویہ ہے۔ اس کے سامنے دوسرے کسی اوررجحان کی حیثیت ہی نہیں ہے۔یقین نہیں آرہاتھا،جسطرح وہ دھان پان کی عظیم عورت،مسلمانوں کے دکھ میں شریک ہورہی تھی۔نہ اسے ہماراکچھ اندازہ ہے اورنہ ہی اس نے ہم سے ووٹ لینے ہیں۔مگرجیکسنڈانے انتہائی اعلیٰ اخلاقی اقدارپرعمل کیا ہے۔ اس نے صرف باتیں اورتقرریں نہیں کیں۔ مسلمانوں کے ساتھ مشکل وقت میں کھڑی ہوئی۔

جیکسنڈا کے دیکھادیکھی پورا نیوزی لینڈ مسلمانوں کے ساتھ کھڑا ہوگیا۔گورے گوریوں نے مساجد میں جاکردورانِ نماز، مسلمانوں کی حفاظت شروع کردی۔ صرف دودنوں میں لاکھوں ڈالرکے عطیات اکٹھے ہوگئے۔ متاثرین کے گھروں اورلواحقین کوکھاناپہنچاناشروع کردیا۔ تدفین کے انتظامات شروع کردیے۔متعددگوری لڑکیوں نے مسلمانوں کے ساتھ یک جہتی کے لیے علامتی دوپٹہ لینا شروع کردیا۔سرپراسکارف باندھناشروع کردیا۔جس آسٹریلوی سینیٹرنے مسلمانوں کے خلاف بات کی تھی، اسکو مسلسل انڈے مارنے کے لیے ایک فنڈبنالیا۔پارلیمنٹ میں قرآن پاک کی تلاوت شروع کروادی۔جمعہ کی اذان کوملکی سطح پرنشرکرنے کا انتظام کردیا۔اورہاں،حفاظتی انتظامات کو بہتربنانے کے لیے اسلحہ کے قوانین تک تبدیل کردیے۔اس مہذب رویے سے نیوزی لینڈکی وزیراعظم نے وہ کمال کرڈالاہے،جسکاہم خواب بھی نہیں دیکھ سکتے۔

مغرب اورمشرق میں بڑھتی ہوئی خلیج کوکیسے کم کیا جائے۔ ایک دوسرے کے متضاد ذہنی رویوں کوکیسے سمجھا جائے۔اپنی روایات کی حفاظت کرتے ہوئے،ذہنی قربت کوکیسے فروغ دیاجائے۔کیاواقعی اس وقت مغرب اورمشرق کاباہمی ڈائیلاگ نہیں ہونا چاہیے؟ ضرورت توہے بلکہ اَشد ضرورت؟ سب سے مہذب رویہ ہی دوسرے کے ذہن کو سمجھناہے!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔