یاد ماضی عذاب ہے یا رب

ظہیر اختر بیدری  ہفتہ 23 مارچ 2019
zaheer_akhter_beedri@yahoo.com

[email protected]

ستر سال کی لگاتار اشرافیائی حکومتوں کے بعد پہلی بار کسی نہ کسی طرح ایک مڈل کلاس حکومت اقتدار میں آئی ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ اشرافیائی حلقوں میں صف ماتم بچھ گئی ہے۔کیونکہ اس سے پہلے جو بھی سیاسی پارٹی بنائی جاتی  تھی تو سارا خاندان پارٹی پر قابض ہوجاتا تھا ۔ پارٹی کے جمہوری ہونے کا دھوکا دینے کے لیے مڈل کلاس کے روبوٹوں کو وزیر بناکر رکھا جاتا رہا اور ان وزیروں کا اصل کام حزب اختلاف کے خلاف بیان بازی اور ان کے خلاف بھرپور پروپیگنڈا تھا۔ عوامی مسائل کی حیثیت ضمنی ہوچلی تھی ۔

ان حقائق پر آپ اپنی جمہوریت کا جائزہ لیں تو آپ کو اصلی اور نقلی جمہوریت کا پتا چل جائے گا، لیکن مہربانوں نے ان حربوں کو ناکام بنانے کے لیے ایسے ایسے انوکی لاک لگائے ہیں کہ اشرافیہ غصے سے تلملا تو رہی ہے لیکن ان انوکی لاکوں کو توڑ نہیں پا رہی ہے۔ اس حوالے سے عوام کو مس گائیڈ کرنے کے لیے دانشوروں، مفکروں، صحافیوں، ادیبوں کی خدمات حاصل کی گئی ہیں لیکن چونکہ عوام اس فراڈ کو سمجھ گئے ہیں لہٰذا وہ ان کے جھانسے میں نہیں آ پا رہے ہیں، اشرافیہ میں مایوسی پھیل چکی ہے اور وہ کسی نہ کسی طرح ان اربوں روپوں کے کیسوں سے جان بچانے کی کوششوں میں مصروف ہیں جو اپنے دور حکمرانی میں انجام دیے گئے تھے۔ لیکن لگ یہ رہا ہے کہ معاملات قابو سے باہر ہوگئے ہیں۔

جمہوری ملکوںمیں سیاسی جماعتوں کا سرمایہ عوام ہوتے ہیں ۔ ہمارے یہاں اشرافیائی جمہوریت کا سرمایہ چند خاندان ہوتے ہیں جب کہ دنیا کے دیگر ممالک میں رائج جمہوریت میں عوام سرمایہ ہوتے ہیں وہ جمہوریتیں سرمایہ داروں  کی گرفت اور چوہدراہٹ سے آزاد ہوتی ہیں جو جمہوریتیں اشرافیہ کی گرفت سے آزاد ہوتی ہیں ان جمہوریتوں میں عوامی مسائل کو ترجیح حاصل رہتی ہے جن جمہوریتوں میں اشرافیہ کی بالادستی ہوتی ہے ان ملکوں میں عوامی مسائل کا حل حکمرانوں کی اولین ترجیح ہوتے ہیں یہ کوئی فارمولا نہیں بلکہ جمہوریت کی پہچان ہے۔

بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارے ملک میں جمہوریت کے نام پر اشرافیہ سیاست اور حکومت کی مالک بنی ہوئی ہے جن ملکوں میں اشرافیہ جمہوریت کی مالک ہوتی ہے ان ملکوں میں شہزادے، شہزادیاں جنم لیتی ہیں اس ناقابل تردید حقیقت کی روشنی میں اگر ہم اپنے ملک کا جائزہ لیں تو پتا چلتا ہے کہ ہم ایک شاہی حکومت میں زندہ ہیں جہاں قیادت کا انتخاب جمہوری طریقوں سے نہیں بلکہ جمہوری ڈراموں سے ہوتا ہے۔ اس فراڈ کو اگر آپ چیک کرنا چاہیں تو قیادت پر ایک نظر ڈال لیں آپ کو عوامی جمہوریت اور اشرافیائی جمہوریت میں فرق صاف نظر آئے گا ماضی میں بلکہ پاکستان کی پوری تاریخ میں پاکستان پر اشرافیہ کا راج رہا ہے اور یہ راج انڈے بچے دیتا رہا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عام آدمی اشرافیائی حکومتوں اور عوامی حکومتوں میں فرق کیسے کرے؟

اسے ہم عوام کی بدقسمتی کہیں یا عوامی پارٹیوں کی کہ وہ ہرچند کہ ہیں، نہیں ہیں کی تصویر بنے ہوئے ہیں۔ کہا جاتا ہے انقلابی دانشوروں کا قول ہے کہ ایک انقلابی عوام کے سمندر میں مچھلی کی طرح رہتا ہے لیکن پاکستانی عوام کی یہ بدقسمتی ہے کہ ہمارے انقلابی عوام کے سمندر میں مچھلی کی طرح رہنے کے بجائے عوامی سمندر کے ساحل پر کیکڑوں کی طرح پڑے دھوپ سینک رہے ہیں یا ایک دوسرے کو کامریڈ کہہ کر اپنی تسلی کر رہے ہیں۔ اگرچہ سامراجی دلالوں اور سرمایہ دارانہ نظام کے رکھوالوں نے انقلاب کے دعویداروں کو ٹوٹی ہوئی تسبیح کے دانوں کی طرح بکھیرکر رکھ دیا ہے لیکن اصلی نظریاتی کارکن اور رہنما ہر حال میں اپنے لیے آگے بڑھنے کا کوئی نہ کوئی راستہ نکال لیتے ہیں لیکن ہمارے عوام کی اسے بدقسمتی کہیں یا ترقی پسندی کے دعویداروں کی بدقسمتی کہ وہ مشکل حالات میں اپنے لیے کسی نہ کسی طرح راستہ نکالنے کے بجائے مایوسی کا شکار ہیں اور ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہرا کر اپنی منزل کو اور کھوٹی کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ اس ملک میں ایک بنیادی تبدیلی کے لیے حالات اس قدر سازگار ہیں کہ 71 سال کے دوران حالات اس قدر سازگار نہیں تھے لیکن ہائے رے انقلابی ان سازگار ترین حالات سے فائدہ اٹھانے کے بجائے ایک دوسرے کا منہ کالا کرنے کے انقلابی کام میں 24 گھنٹے مصروف ہیں مخلص کارکن یا تو ہاتھ مل رہے ہیں یا آنسو بہا رہے ہیں یہ پاکستان کی 71 سالہ تاریخ میں سب سے زیادہ اذیت ناک درد ہے۔

ہمارے ’’پرانے‘‘ دوست ہمیشہ یہ عذر پیش کرتے ہیں کہ ہم نے ینگ کیڈر نہیں نکالا۔ یہ ایک عذر لنگ کے علاوہ کچھ نہیں۔ینگ کیڈر آسمان سے نہیں ٹپکتا ہمارے آپ کے ارد گرد ہی رہتا ہے جب ہم ینگ کیڈر کے پاس جائیں گے ہی نہیں تو ینگ کیڈرکیا چھومنتر کے ساتھ آپ کے پاس آئے گا؟ اس میں کوئی شک نہیں کہ ماضی میں ترقی پسند حلقے ایک فرنٹ پر نہیں کئی فرنٹ پر کام کرتے تھے طلبا و مزدور، کسان بہترین منظم اور متحرک فرنٹ تھے یہی وجہ تھی کہ کوئی پروگرام فلاپ نہیں ہوتا تھا۔ بدقسمتی یہ ہے کہ ایک مختصر عرصے کے بعد خصوصاً روس چین اختلافات کے بعد بایاں بازو ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگیا۔ چونکہ تحریک کو سنبھالنے والا ایلیمنٹ نہیں تھا لہٰذا تحریک یا کام ختم ہوگیا اس میں کوئی شک نہیں کہ ایوب اور یحییٰ کے دور میں تحریک میں بڑی جان تھی خاص طور پر مزدور اور طلبا محاذ بہت متحرک تھا۔

یحییٰ خان کے زمانے میں حکومت اس خوف میں مبتلا تھی کہ طلبا اور مزدور حکومت کے لیے مشکلات پیدا کریں گے اسی خوف کی وجہ سے یحییٰ حکومت نے سیکڑوں کی تعداد میں طلبا اور مزدوروں کو پکڑ کر جیلوں میں بند کردیا۔ اس کے باوجود بایاں بازو فعال رہا۔ کراچی سینٹرل جیل میں طلبا اور مزدوروں کے تربیتی سیشن ہوتے تھے اب یہ رونا بے کار اور بعداز وقت ہے اب اصل مسئلہ یہ ہے کہ کیا عوام میں کسی حوالے سے تعلیمی کام ہوسکتا ہے؟ ماضی میں تواتر سے اسٹڈی سرکل چلائے جاتے تھے کیا اب یہ کام ممکن نہیں سب سے اہم بات یہ ہے کہ بائیں بازو کے بکھرے ہوئے کارکن ایک مرکز پر آسکتے ہیں؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔