مابعد الطبیعات اور جدلیات

عمران شاہد بھنڈر  ہفتہ 23 مارچ 2019

مابعد کانٹین فلسفے میں عمانوئیل کانٹ کے فلسفے کے بارے میں جو عمومی اور اہم اعتراضات کیے گئے ہیں ان میں سب سے اہم وہ ہیں جن میں کانٹ کے فلسفے میں عقل (ریزن) کو ان تناقضات کے اندر ہی الجھا ہوا دکھایا گیا ہے ، جن کے حق میں ایک طرف تو عقل ایک تھیسس پیش کرتی ہے، جب کہ بعد ازاں خود ہی اپنے تھیسس کی نفی اپنے ہی اندراینٹی تھیسس کا اثبات کر کے کرتی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔ عقل اپنے ہی فعلیت کو نہ سمجھتے ہوئے اپنے ہی تناقضات ناگزیر تصور کرتی ہے، اور خود ہی یہ فیصلہ کر لیتی ہے کہ تھیسس کا اینٹی تھیسس عقل جن کی تحلیل نہیں کر پاتی، وہ ناگزیر ہے۔

چونکہ کانٹ کا خیال تھا کہ جب عقل خالی ہو گی، یعنی مکمل تجریدی تو وہ سوچنے یا فکر کرنے کی صلاحیت سے عاری ہو گی، اس کمی کو پورا کرنے کے لیے کانٹ نے فہمِ محض میں مقولات (کیٹیگریز) کا ایک خاکہ تشکیل دے دیا، جس کا اطلاق حسی معروض پر کیا جانا تھا۔ کانٹ کے فلسفے کا بنیادی نقص یہ تھا کہ اس نے فہمِ محض کے تصورات یا مقولات کو تجربی نہیں، بلکہ ماورائے تجربی تصور کر لیا تھا، یہی وجہ تھی کہ کانٹ اپنی تمام تر سعی کے باوجود عقلِ محض کے ان تضادات سے نجات نہ پا سکا جن کو خود اس نے تناقضات (اینٹی نومیز) کی صورت میں دریافت کیا تھا۔

ہیگل یہ ثابت کرتا ہے کہ کانٹ اگرچہ عقلِ محض سے ان تضادات تک پہنچ چکا تھا،جو قدیم مابعد الطبیعات کو رد کرنے کے لیے کافی تھے کیونکہ ان کے اندر ہی ان کے الٹ تصور کی صورت گری ہو چکی تھی۔ یعنی تضاد عقل کا نقص نہیں، بلکہ عقل کی خاصیت ہے۔ عقل ایک متعین وجود کے اندر ہی اس کی نفی اور اس کے اثبات کو دیکھتی ہے، اس کا متضاد، اس کا تخالف موجود ہوتا ہے، جو اس صورت میں عقل کی خصوصیت کے طور پر سامنے نہیں آتا، جب تک عقل اپنے ہی تشکیل کردہ جامد مقولاتی نقشے میں الجھی رہے اور اپنے ہی فعل اور معروض کو ان کی حرکت میں نہ دیکھے۔ تاہم’’سائنس آف لاجک‘‘ میں اس نے کانٹین تناقضات کے قضیے کو اس سطح پر پہنچا دیاہے کہ جہاں ان کو ان کی حرکت اور تضاد میں دیکھنے کی’’مسلم‘‘ حیثیت کو قبول کیے بغیر کوئی چارہ نہیں ہے۔

انسائکلوپیڈیا کی پہلی کتاب بعنوان لاجک کے سیکشن اڑتالیس میں ہیگل لکھتا ہے کہ ’’تناقضات کاسمولوجی سے مستعار صرف چار معروضات تک محدود نہیں ہیں۔ ان سے ان کی اس خصوصیت کے باعث باخبر ہونا فلسفیانہ تھیوری کے اہم حصے کی تشکیل کرنا ہے۔‘‘ انھی منطقی قضایا کے پیشِ نظر ’’پرانی مابعد الطبیعات‘‘ کے بارے میں یو ں رقمطراز ہے کہ اس میں یہ تصور کر لیا جاتا تھا کہ عقل کا تضادات میں الجھنا حادثاتی ہے، جو محض’’دلائل اور نتائج سے تشکیل پائی ہوئی صرف ایک موضوعی تشکیل ہے۔‘‘

جب کہ کانٹ کے خیال میں عقل جونہی لامتناہیت تک رسائی حاصل کرنے کی کوشش کرتی ہے وہ ایک فطری رجحان کے طور پر تضادات اور تناقضات میں الجھ جاتی ہے‘‘ حقیقت تو یہ ہے کہ تضاد، حرکت اور تخالف وغیرہ فہمِ محض کی اذعانی مابعد الطبیعات سے نجات پانے اور فکر میں جدلیاتی حرکت کی دریافت کے لیے ضروری ہے۔ بقول ہیگل ’’تناقضات کا حقیقی اور مثبت مفہوم یہ ہے : ہر شے میں اس کے تخالف کا وجود شامل ہوتا ہے۔‘‘ یعنی تضاد معروض، شے یا حقیقت سے باہر نہیں، بلکہ اس کے اندر موجود ہوتا ہے۔ کسی بھی شے میں سے اس کی ضد کو نکال کر اس پر فہمِ محض کے پہلے سے تصور شدہ تجریدی مقولات کا اطلاق کرنے میں ہی کانٹین فلسفے کی حدود متعین ہو جاتی ہیں، اوریہی وہ مراحل ہیں کہ جہاں اس مابعد الطبیعات کی بھی حدود متعین ہو جاتی ہیں جس کو کانٹ اپنی تمام تر کوشش کے باوجود ختم نہ کر پایا۔

ہیگل کے وہ اعتراضات جن کی ہم آگے چل کر مثالوں سے وضاحت کریں گے، وہ کلی طور پر اس تمام فکر پر صادق آتے ہیں جو کہیں نہ کہیں، اور کسی نہ کسی حوالے سے کانٹین فلسفے کی متعین کردہ حدود سے آگے بڑھنے میں ناکام رہی ہے۔ کانٹ کی ہی تقلید میں محمد اقبال یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ’’علم وہ حسیاتی ادراک ہے، جس کی تکمیل فہم (انڈراسٹینڈنگ) کرتی ہے‘‘ (نئی تشکیل، ص، ۳۰) ۔ اپنی ہی بات کو مزید توثیق ان الفاظ میں کرتے ہیں کہ حسی ادراک پر تصورات کا اطلاق ہی کیا جاتا ہے۔ فکری اعتبار سے اقبال یہاں تین اغلاط کے مرتکب ہوئے ہیں: ایک یہ کہ انھوں نے یہ دعویٰ کر دیا کہ حسیاتی ادراک سے جو مواد حاصل ہوتا ہے، اس کو فہم مکمل کر دیتی ہے، یعنی انھوں نے فہمِ محض کے مقولات کے حسی ادراک پر اطلاق کو ہی علم کے حصول کے معاملے میں’’تکمیل‘‘ تصور کر لیا ہے۔

دوسری غلطی یہ کہ انھوں نے تصور اور حقیقت کو ان کے ’’بننے‘‘ کے عمل میں نہیں دیکھا، جب کہ تیسری غلطی یہ کہ وہ عقل کے اس تفاعل کی تفہیم میں ناکام رہے ہیںجو فہمِ محض کے حسی ادراک پر اطلاق سے نتائج اخذ کرتی ہے۔اگر یہ تسلیم کر لیا جائے کہ فہم حسی ادراک پر اپنا کام مکمل کر دیتی ہے تو پھر سوال اٹھتا ہے کہ حسی معروضات پر فہم کے تصورات کے اطلاق کے بعد عقل کا تفاعل کیا ہے؟ اگر عقل کا حسی معروضات پر کوئی تفاعل موجود ہی نہیں ہے تو عقل اور حس کے درمیان قائم ہوئی ثنویت کی تحلیل کیسے ممکن ہو سکتی ہے؟ یہ ایسا سوال ہے جس کا کوئی بھی جواب اقبال کے پاس نہیں ہے۔ اس طرح فکرِ اقبال میں جس ثنویت کا استرداد کرنے کی کوشش کی گئی تھی، وہ ایک ناقابلِ تحلیل تضاد کے طور پر اقبالی فکر میں موجود رہتا ہے۔

ذہن نشین رکھنے والا قضیہ یہ ہے کہ اقبال نے پہلے ہی لیکچر میں یہ دعویٰ کیا ہے کہ قرآن کی روح ’’ ردِ کلاسیک‘‘ ہے۔ اپنے دعوے کے اثبات میں افلاطون کے حسی ادراک سے موصول علم کے ’’حقیقی‘‘ نہ ہونے کے قضیے پر اعتراض کرتے ہیں۔ سوال بہرحال یہ پیدا ہوتا ہے کہ خود اقبال حسی ادراک سے مستند علم حاصل ہونے کے اپنے دعوے پر کس حد تک قائم رہتے ہیں؟اس کا جواب ہمیں ’’نئی تشکیل‘‘ کے مختلف صفحات پر پیش کیے گئے بے ربط اور غیر منطقی اور خود ان کے اپنے دعوے کی نفی کرنے والے افکار کی صورت میں مل جاتا ہے۔ اقبال سوال اٹھاتے ہیں کہ ’’کیا روح اور اس کا نامیہ ڈیکارٹ کے معنوں میں دو چیزیں ، ایک دوسرے سے الگ تھلگ، اگرچہ پُراسرار طور پر ایک دوسرے سے وابستہ؟ مجھے تو اب یوں لگنے لگا ہے کہ یہ مفروضہ کہ مادہ آزادانہ وجود رکھتا ہے مکمل طور پر بے بنیاد ہے۔ اس کا ایک ہی جواز ممکن ہے کہ اس کی بنیاد ہماری حسیات ہیں۔‘‘ اس طرح اقبال اپنے ہی اس نتیجے کا ابطال کر دیتے ہیں جو بقول ان کے حسی ادراک کی اولیت کی وجہ سے ’’ردِ کلاسیک‘‘ ہے۔

یہ بات’’ حتمی طور پر‘‘ طے ہے کہ اگر مادہ شعور ، خیال سے الگ وجود ہی نہیں رکھتا تو حسی ادراک کی اولیت کا مفروضہ بیکار ہو جاتا ہے، اور حسی ادراک کے اس تمام دعوے کی ہی نفی ہو جاتی ہے جس پر کائنات میں پھیلی ہوئی نشانیوں پر زور دینے کی بنیاد رکھی گئی تھی۔نتیجہ اس سے یہی نکلتا ہے کہ فہمِ محض کے وہ تمام مقولات جن کا مابعد الطبیعاتی انداز میں حسی ادراکات پر اطلاق کرنا مقصود تھا،وہ اپنی اہمیت کھو بیٹھتے ہیں اور خود شعور اور مادے کے درمیان جدلیاتی تعلق کے قضیے کی تشکیل ہونا شروع ہو جاتی ہے۔شعور اور مادے کے درمیان جدلیاتی تعلق کا تقاضا یہی ہے کہ تصور اور حقیقت کو ایک دوسرے سے الگ نہیں بلکہ ایک دوسرے کے ساتھ ربط میں دیکھیں، اس انداز سے کہ جہاں کوئی بھی شے مستقل نہیں ہے، بلکہ ہر شے مسلسل حرکت میں ہے، ارتقا کے مراحل میں ہے جو اپنی ہی گزشتہ حیثیت اور اس پر تشکیل پائے ہوئے کسی بھی تصور کی نفی کرنے سے گریزاں نہیں ہے۔جدلیاتی فکر کا یہی وہ پہلو ہے جس کے تحت ’’تقدیس‘‘ سے کہیں زیادہ تحرک اور تضاد اہم ہوتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔