دنیا ایک اسٹیج ہے

آفتاب احمد خانزادہ  اتوار 24 مارچ 2019
aftabkhanzada2@yahoo.com

[email protected]

دنیا ایک اسٹیج ہے اور ہم سب اداکار ہیں، ایک آدمی کو اپنی پیدائش سے لے کرآخری سانس تک لاتعداد کردار ادا کرنے پڑتے ہیں اور وہ بھی ایک ہی وقت میں اور یہ سب کے سب کردار لازمی ہوتے ہیں۔ ان میں سے کوئی بھی کردار اختیاری نہیں ہوتا یعنی جب آپ پیدا ہوتے ہیں تو اسی لمحے آپ کو تمام کے تمام کردار سو نپ دیے گئے ہوتے ہیں ۔

ان کرداروں میں سے آپ کو کسی بھی کردارکو چننے یا منع کرنے کا اختیار حاصل نہیں ہوتا ہے، یعنی ایک ہی وقت میں آپ بیٹے بھی ہوتے ہیں، باپ بھی ، بھائی بھی ، بہنوئی بھی ، سالے بھی ، داماد بھی ، پڑوسی بھی ، شہری بھی ، دوست بھی ، دشمن بھی۔ اوریہ سب کے سب کردار ایک ہی وقت میں آپ نے ادا کرنے ہوتے ہیں اور ان کے ساتھ ہی ساتھ آپ کو فقیر سے لے کر بادشاہ تک کا کوئی بھی کردار نصیب ہوسکتا ہے یعنی آدمی سے بڑا کوئی اداکار ممکن ہی نہیں ہے۔

آپ ساری زندگی صرف کردار ادا کرتے رہتے ہیں لیکن زندگی کی کہانی ہدایت کار کی مرضی کے عین مطابق آگے بڑھتی ہے ۔ یاد رہے ہم صرف اداکار ہیں جب کہ ہدایت کار اوپر بیٹھا ہوا ہے، اسی لیے ہماری کہانیوں کا انجام ہمارے ہاتھ میں نہیں ہوتا ہے بلکہ اوپر بیٹھے ہوئے ہدایت کار کے ہاتھ میں ہوتا ہے اور وہ ہمیں کردار ادا کرتے ہوئے ہروقت دیکھ رہا ہوتا ہے کہ ہم اپنے کرداروں کے ساتھ انصاف کر رہے ہیں یانا انصافی۔ اپنے کردارمثبت ادا کر رہے ہیں یا منفی ۔

کردار تو ہمیں لازمی ادا کرنے ہیں لیکن ایک اختیار چونکہ ہمارے پاس ہروقت موجود ہوتا ہے کہ ہم اپنے کرداروں کو مثبت بھی ادا کرسکتے ہیں اور منفی بھی۔ یہ اختیار ہمارے پاس ہمیشہ موجود رہتا ہے آپ اپنی زندگی کی فلم میں اپنے لیے ہیروکا کردار چن سکتے ہیں یا پھر ولن کا یا پھر ایکسٹرا کا ۔یہ اختیار اور مرضی ساری کی ساری آپ کو خود کی ہوتی ہے ۔ اسی لیے جب آپ کی زندگی کی فلم کا پردہ گر جاتا ہے تو باقی دیکھنے والے یا تو آپ کو داد دے رہے ہوتے ہیں یا پھر برا بھلا کہہ رہے ہوتے ہیں ۔

ان کرداروں کو ادا کرنے کی بہت سی صلاحیتیں آپ کو قدرتی طورپر عطا ہوتی ہیںاور بہت سی صلاحیتیں آپ اپنے گردو پیش میں بکھر ے کرداروں سے سیکھتے ہیں وہ سب کردار ہمار ے لیے چراغ ہوتے ہیں جن کی روشنی میں ہم آگے بڑھتے رہتے ہیں اور ہماری غلطیاں بھی ہمارے استاد ہوتے ہیں جن سے ہم سیکھتے رہتے ہیں، کامیابی ہمارے قدم اس وقت تک چومتی رہتی ہے جب تک ہم سیکھنے کے عمل کوجاری رکھتے ہیں لیکن جیسے ہی ہم اپنے آپ کو کامیاب ادا کار سمجھنا شروع کردیتے ہیں اور جیسے ہی ہم میں یہ سو چ پیداہوجاتی ہے کہ اب ہمیں اور سیکھنے کی کو ئی ضرورت باقی نہیں رہی ہے تو اسی وقت سے کامیابی کے روٹھنے کا عمل شروع ہوجاتا ہے۔

آپ اسے منانے کی جتنی بھی دیر کرتے جاتے ہیں پھر وہ وقت گذر نے کے ساتھ ساتھ آپ سے پھرکبھی نہیں مانتی اور آپ کاسفر واپس اندھیروں کی سمت شروع ہوجاتا ہے اب تک کھربوں اور اس سے زیادہ اداکار اپنا اپنا کردار ادا کرکے جاچکے ہیں جن کے ناموں سے آج کوئی بھی واقف نہیں ہے کیونکہ انھوں نے اپنے کردار اتنی خو بیوں اور شاندار طریقے سے ادا نہیں کیے اور ساتھ ہی انھوں نے اپنے لیے ہیرو کا کردار نہیں چنا تھا اس لیے وہ آج ہم میں زندہ نہیں ہیں ۔ لیکن ان کے ساتھ ہی بہت سے ایسے اداکار بھی گذر ے ہیں کہ جنہوں نے اپنے کردار اتنے شاندار طریقے سے ادا کیے کہ وہ سب کے سب آج بھی زندہ ہیں۔ ان میں سقراط ، سولن ، ہومر ، اسکائی لسی ، سو فیکلیز، پلو ٹارک ، یوری پیڈیز ، ورجل ، ہوریس ، شیکسپیئر ، کولرج ، بائرن ، مارکس ، لنکن ، شیلے ، وکٹر ہیو گو ، گوگول ، ٹالسٹائی،گورکی، چیخوف ،گوئٹے اور دیگر شامل ہیں۔

کردار، کردار کی وجہ سے زندہ رہتے ہیں اور کردار، کردار کی وجہ سے مر جاتے ہیں۔ کامیاب اداکار ہونے کے لیے آپ کو ایماندار ی، دیانت ، سچائی کے ساتھ ساتھ کرداروں کی بار یکیوں سے واقف ہونا بہت ضروری ہوتا ہے اور کردار کی نازیکیوں سے بھی ۔ ذرا سی بے احتیاطی ، لاتعلقی، لالچ ، مفاد کی وجہ سے آپ کی کارکردگی فوراً متاثر ہونے لگتی ہے اور اگر آپ سنبھلتے نہیں ہیں تو پھر آپ کا شمار خود بخود ناکام اور فلاپ اداکاروں کی فہرست میں ہو جاتا ہے کیونکہ اوپر بیٹھا ہدایت کار ہمیں ہروقت اپنے اپنے کردار ادا کرتے ہوئے دیکھ رہا ہوتا ہے کہ ہم اپنے اپنے کرداروں کے ساتھ انصاف کررہے ہیں یا ناانصافی کر رہے ہیں اور دونوں ہی صورتوں میں لمحے لمحے کا فیصلہ ہورہا ہوتا ہے ۔

اگر ہم اپنی ملکی تاریخ میں جھانک کر دیکھیں توہمیں بہت ہی دلچسپ تصویر نظر آتی ہے کہ ہمارے ملک کے اداکاروں کی اکثریت نے اپنے لیے ہمیشہ ولن کا کردار ہی چنا ہے، انھیں ہمیشہ ہی ظالم ، جابر، لٹیرے ، غاصب،کے کردار ہی پسند آئے ہیں اور انھوں نے یہ کردار اتنی خوبصورتی کے ساتھ ادا کیے ہیں کہ ان کے ہر ہر سین پر داد دیے بغیر رہا نہیں جاتا ہے۔

یہ بھی یاد رہے کہ انھوں نے یہ کردار ہمیشہ لا ئن توڑ کر لڑائی اور جھگڑا کرکے اورکھڑکی توڑ کر اس لیے حاصل کیے کہ کہیں ان سے پہلے یہ کردارکوئی اور حاصل نہ کرلیں نجانے کیوں ہمارے اداکاروں کو پلاٹ ، پر مٹ ، روپوں پیسوں ، ہیرے جواہرات ، محلوں ، ملوں سے کیوں اس قدر محبت رہی ہے نجانے کیوں انھیں ہیروکا کردار ادا کرنے سے چڑ سی ہوگئی ہے اور وہ سب کے سب ولن کا کردار حاصل کرنے والی لائن میں لگے نظر آتے ہیں اور ہیرو کا کردار حاصل کرنے والی لائن ہمیشہ ہی اجڑی ہوئی بیوہ کی طرح نظر آئی ہے ۔

ہمارے اداکاروں کو دیکھ کر سسرو کی کہی گئی بات بار بار یادآتی ہے اس نے کہا تھا۔کسی دوسرے کے نقصان سے فائد ہ اٹھانا موت ، مفلسی اور دکھ سے زیادہ المناک اور غیر فطری فعل ہے ہمیں ہرکلیس کی طرح دکھ درد اور مصائب و تکالیف، برداشت کرکے دوسروں کی خدمت اور حفاظت کرنی چاہیے نہ کہ ایک گوشے میں بیٹھ کر لطف و راحت کی زندگی گذارنی چاہیے ۔ اعلیٰ اور عظیم کردار کے لوگ اپنی زندگی خدمت کے لیے وقف کر دیتے ہیں اور ذاتی مفاد اور آرام کو بالکل ترک کردیتے ہیں یہ ہی لوگ فطرت کے ساتھ مکمل طور پر ہم آہنگ ہوتے ہیں وہ کبھی کسی کے ساتھ بدی نہیں کرسکتے، دوسروں کو نقصان پہنچا کر ذاتی فائدہ اٹھانا، ظلم وطغیان کے مترادف ہے اور یہ ایک غیر فطری چیز ہے۔

ایسا آدمی اس بات کو فراموش کردیتا ہے کہ جان اور مال کو لاحق تمام خطرات کے مقابلے میں اخلاقی غلطی سب سے زیادہ خطرناک ہے اخلاقی کوتاہی روحانی طور پر موت ، مفلسی ، دکھ درد اور عزیزوں ، دوستوں اور بچوں سے محرومی سے زیادہ خطرناک ہے جو شخص ذاتی فائد ے کی تلاش میں اسے حق سے جدا کردیتا ہے وہ غلط کار ہی نہیں بلکہ ایک اخلا قی مجرم ہے کیونکہ اسی سر چشمہ سے تمام دوسرے جرائم یعنی قتل وزہرخوانی ، جعل وفریب ، سرقہ وغبن استحصال و انتقاع ظہورمیں آتے ہیں۔

اس بات کا امکان ہے کہ ایسا مجرم قانونی سزا سے بچ جائے لیکن اخلاقی سزا سے وہ کبھی نہیں بچ سکتا کیونکہ اخلاقی سزا عبارت ہے ذہنی ذلالت اور روحانی انحطاط جوہر اخلاقی مجرم کو فطرت کی طرف سے خود بخود پہنچ جاتی ہے اور جس سے اس کے ذہن اور روح میں ایسا ناسور پیدا ہوجاتا ہے جو ہمیشہ رستا رہتا ہے اور اس کی زندگی میں زہرگھولتا رہتا ہے۔‘‘

ہمارے اداکاروں کو اگرکبھی ذرا سی بھی فرصت مل جائے تو ان سے گذارش ہے کہ وہ اپنے جسموں کو اچھی طرح سے دیکھ لیں اور وہ جب ایسا کریں گے تو انھیں اپنے ناسور فوراً نظر آجائیں گے جو ہر وقت رس رہے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔