غمزدہ ’’ ڈسکو دیوانے ‘‘

سلیم خالق  اتوار 24 مارچ 2019
میرا اشارہ تقریب کے ایک گانے کی جانب تھا، اس پر وہ کہنے لگے یار تم نے کبھی کسی کی تعریف بھی کی ہے۔ فوٹو: فائل

میرا اشارہ تقریب کے ایک گانے کی جانب تھا، اس پر وہ کہنے لگے یار تم نے کبھی کسی کی تعریف بھی کی ہے۔ فوٹو: فائل

فائنل شروع ہونے میں چند منٹ باقی اور پلیئرز نیشنل اسٹیڈیم میں وارم اپ ہو رہے تھے، میں میڈیا سینٹر سے انھیں دیکھ رہا تھا کہ اچانک شیشے کی دوسری طرف پی سی بی رائل گیلری میں موجود ایک صاحب مجھے دیکھ کر ہاتھ ہلانے لگے، میں نے دیکھا تو وہ میرے کالج فیلو تھے، انھوں نے اشارے سے مجھے وہاں آنے کا کہا میں نے جواب دیا کہ نہیں آ سکتا تو انھوں نے کہا میں آ جاتا ہوں۔

یہ دلچسپ بات تھی کہ صحافی میڈیا سینٹر کے سوا کہیں نہیں جا سکتے تھے لیکن پی سی بی چیئرمین باکس یا رائل گیلری میں موجود افراد کو اوپر آنے سے کوئی نہیں روکتا تھا، میرے دوست بھی وہاں آ گئے اور میڈیا باکس کے باہر ہم باتیں کرنے لگے، انھوں نے فخر سے بتایا کہ پی سی بی کے فلاں صاحب کا بھتیجا میرا دوست ہے اس نے رائل گیلری کے ٹکٹ دیے، میں نے اسے بتایا کہ پہلے یہاں کے پاس میڈیا والوں کو بھی ملا کرتے تھے، مگر اب یہ جگہ اعلیٰ شخصیات و بورڈ حکام کے دوستوں اور رشتہ داروں کیلیے مختص ہے،اور تو اور راتوں رات اوپر کے فلور پر کرسیاں لگا دی گئیں جہاں سندھ حکومت کی اعلیٰ شخصیات براجمان ہوئیں، وہ کہنے لگا یار میڈیا سینٹر تو شاندار ہے، کھانا بھی زبردست ہوتا ہوگا۔

اب میرا جواب تھا کہ تم لوگ فائیو اسٹار ہوٹل کے کھانے سے لطف اندوز ہوتے ہو ہمارے لیے گلشن اقبال کے پکوان سینٹر سے ڈنر آتا ہے، اتنے میں میچ شروع ہونے کا وقت ہو گیا تو میں اپنے دوست سے اجازت لے کر واپس ڈیسک کی جانب چلا گیا، بعد میں ایک صحافی نے مجھ سے اختتامی تقریب کا پوچھا تو میرا جواب تھا کہ ایک ایسے وقت میں جب غیرمسلم بھی کرائسٹ چرچ واقعے کا سوگ منا رہے ہیں ایسی تقریب نہیں ہونی چاہیے تھی۔

غمزدہ ’’ڈسکودیوانے‘‘ کسی کو پسند نہیں آتے، میرا اشارہ تقریب کے ایک گانے کی جانب تھا، اس پر وہ کہنے لگے یار تم نے کبھی کسی کی تعریف بھی کی ہے تو میرا جواب دیا ہاں ایک آفیشل کے کام کو سراہا تو انھیں وہ خوشامد لگا، ایک اور کی تعریف کی تو انھوں نے ساتھی صحافی سے شکایت کردی کہ سلیم خالق سے کہیں میرے لیے اچھا نہ لکھیں بورڈ والے ان کا دوست سمجھ کر ساری بریکنگ نیوز لیک کرنے کا ذریعہ مجھے بنا دیتے ہیں، خیر فائنل سمیت تمام میچز کا عمدگی سے انعقاد ہوا، سیکیورٹی کے انتظامات شاندار رہے۔

اسٹیڈیم آنے والوں کو کوئی مشکل نہ ہو اس کا خاص خیال رکھاگیا، بلاشبہ اب پاکستان ٹیسٹ کرکٹ کی میزبانی کیلیے بھی مکمل تیار ہے، ایم ڈی پی سی بی وسیم خان پہلے ہی عندیہ دے چکے کہ رواں برس سری لنکا سے ٹیسٹ سیریز کا انعقاد کر سکتے ہیں،اگر ایسا ہوا تو اس سے اچھی اور کوئی بات نہیں ہو سکتی، ویسے وسیم خان آج کل کچھ زیادہ ہی خبروں میں ہیں، ہر روز میڈیا میں ان کے بیانات نظر آ رہے ہیں، باتیں بہت ہو گئیں انھیں اب کوئی کام بھی کرکے دکھانا ہوگا، ڈومیسٹک کرکٹ کے حوالے سے کافی باتیں ہو رہی ہیں،تبدیلیوں کے کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں یہ دیکھنا ہوگا۔

ڈپارٹمنٹل کرکٹ کو اتنی آسانی سے ختم نہیں کیا جا سکتا، یہ معاملہ بورڈ کیلیے درد سر بننے والا ہے، حیرت کی بات یہ ہے کہ بڑی شان سے کرکٹ کمیٹی تشکیل دی گئی تھی مگر محسن خان کو اب بالکل لفٹ نہیں کرائی جا رہی، پی ایس ایل کے دوران بھی وہ کہیں دکھائی نہیں دیے، البتہ چیف سلیکٹر انضمام الحق ضرور موجود ہوتے تھے، انھوں نے آسٹریلیا سے سیریز کیلیے کپتان سرفراز احمد کو ریسٹ دینے کا عجیب و غریب فیصلہ کیا، وہ اس سے قبل پابندی کے سبب آرام کر چکے تھے اب کیا ضرورت تھی یہ سمجھ نہیں آئی، کیا شعیب ملک کو کپتان بنانا اس کا مقصد تھا؟

کچھ لوگ یہ چہ مگوئیاں بھی کر رہے ہیں، البتہ بورڈ سرفراز کو ورلڈکپ کیلیے کپتان مقرر کر چکا اس لیے بظاہر کوئی خطرے والی بات نہیں ہے، اسی طرح فٹنس فٹنس کے نعرے لگانے والے چیف سلیکٹر نے عمر اکمل کو چند اننگز کی بنیاد پر دوبارہ ٹیم میں شامل کر لیا یہ بھی حیران کن تھا، اصل بات یہ ہے کہ پاکستان کرکٹ میں کوئی کسی کو پوچھنے والا نہیں، جس کی جو مرضی ہو وہی کرتا ہے، جب ٹیم ہارے تب ہی باتیں ہوتی ہیں، ویسے بھی انضمام کے عہدے کی میعاد مکمل ہونے والی ہے اور شاید ہی اس میں تجدید ہو، وہ پیسہ کمانے کا کوئی موقع بھی نہیں چھوڑتے اسی لیے پی ایس ایل کے دوران ہی امریکا چلے گئے تھے۔

بورڈ کو اگلا چیف سلیکٹر کسی ایسی شخصیت کو لانا ہوگا جو بھانجے، بھتیجوں کے چکرمیں باصلاحیت کھلاڑیوں کا کیریئر تباہ نہ کرے۔ ویمن سلیکشن کمیٹی میں تمام خواتین کی شمولیت کا فیصلہ خوش آئند ہے البتہ عروج ممتاز کو سربراہی سونپنے سے یہ واضح ہوگیا کہ کرکٹ کمیٹی کا مستقبل روشن نہیں ہے، اب پی ایس ایل ختم ہو چکی، بورڈ کے سامنے کئی اہم معاملات ہیں جنھیں فوری طور پر حل کرنا ہوگا، ڈپارٹمنٹس اور ریجنز خود نئے مجوزہ ڈومیسٹک سسٹم کی مخالفت کر چکے لہذا فیصلے کو تھوپنا نہیں چاہیے۔

احسان مانی کے آنے سے لگتا تھا کہ میرٹ کو فوقیت دی جائے گی لیکن اب بھی بعض فیصلے سمجھ سے بالاتر ہیں جیسے ایک ٹیم آفیشل کے فیملی فرینڈ ماہر نفسیات کو پیراشوٹ کے ذریعے براہ راست قومی کیمپ میں اتار دیا گیا، سب جانتے ہیں اس کی وجوہ کیا ہیں، اس حوالے سے میں خبر بھی دے چکا، اگر ایسا ہی ہوتا رہا تو نجم سیٹھی اور احسان مانی میں کیا فرق ہے، انھیں حقیقی معنوں میں شفافیت لانی چاہیے، پی ایس ایل میں کئی بڑے مسائل تھے۔

اب ایونٹ ختم ہو چکااگلے سال کا انتظار کرنے کے بجائے ابھی سے کوشش کریں کہ انھیں حل کریں تاکہ اگلی لیگ کا اور اچھے انداز میں انعقاد کرایا جا سکے،سنا ہے بعض فرنچائزز کو اب بھی کچھ رقم بورڈ کو دینی ہے ایسا نہیں چلے گا، چاہے کوئی وزیر اعظم کا قریبی شخص ہو یا کوئی اور قانون سب کے لیے برابر ہونا چاہیے۔

نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے@saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔