پاکستان میں امپائرنگ کا معیار ایشیا میں سب سے بہتر ہے

عباس رضا  اتوار 24 مارچ 2019
امپائر احسن رضا کا ’’کرکٹ پاکستان‘‘ کے سلیم خالق کو خصوصی انٹرویو۔ فوٹو: ایکسپریس

امپائر احسن رضا کا ’’کرکٹ پاکستان‘‘ کے سلیم خالق کو خصوصی انٹرویو۔ فوٹو: ایکسپریس

لاہور میں سری لنکن ٹیم پر دہشت گردوں کا حملہ ہوا تو امپائر احسن رضا بھی شدید زخمی ہوئے، موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا رہنے کے بعد صحتیاب ہوکر میدانوں میں واپس آئے اور اس کے بعد ابھی تک آئی سی سی کے میگا ایونٹس سمیت کئی انٹرنیشنل میچز میں فرائض سرانجام دے چکے ہیں، پی ایس ایل 4 کے لیے کراچی آمد پر پاکستان میں کرکٹ کی سب سے بڑی ویب سائیٹ www.cricketpakistan.com.pk کے سلیم خالق کو خصوصی انٹرویو میں انہوں نے ماضی کی یادیں دہرانے کے ساتھ اپنے شعبے سے متعلق دلچسپ معلومات سے بھی آگاہ کیا۔

احسن رضا نے کہا کہ سری لنکن ٹیم پر حملہ سے پاکستان کو بہت نقصان پہنچا، ذہنی طور پر مضبوط ہونے کی وجہ سے میدانوں میں واپس آیا اور انٹرنیشنل میچز بھی کروا رہا ہوں، سری لنکن ٹیم پر حملہ ہوا تو سلیمان تاثیر نے اعلانات کیے، شہبازشریف نے ڈرائیور خلیل کو بلا کر کچھ دیا بھی لیکن مجھے کچھ نہیں ملا، اس طرح کا حادثہ ہو تو انسان ذہنی طور پر بھی بہت پیچھے چلا جاتا ہے، میرا کم بیک ہوا، علیم ڈار اور پیٹر مینوئیل ذہنی طور پر مضبوط ہونے کی وجہ سے میری بڑی قدر کرتے ہیں، کوئی ایوارڈ تو نہیں ملا لیکن پی سی بی نے بھی میرا ساتھ نہیں چھوڑا، ڈومیسٹک کرکٹ میں 52 فائنل میچ بطور آن فیلڈ امپائر کیے ہیں،ملک کی خدمت میرے لیے سب سے بڑا ایوارڈ ہے، اس حادثے کے بعد کبھی پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا اللہ تعالی نے مجھے عزت اور مقام دیا۔

سکیورٹی حالات کافی بہتر ہوگئے، کراچی میں کرکٹ کی رونقیں بڑی خوش آئند ہیں، پاکستان میں غیرملکی ٹیموں کی آمد کا سلسلہ بھی جلد شروع ہوجائے گا، انہوں نے کہا کہ کراچی میں شائقین نے بے پناہ جوش و خروش کا مظاہرہ کیا، پی نیشنل سٹیڈیم میں میچز کے دوران تماشائیوں کے شور نے امپائرز کا کام بھی مشکل بنا دیا تھا، سٹیڈیم میں اتنی زیادہ تعداد میں تماشائی اور ان کا شور ہوتا تھا کہ بیٹ کے کنارے کو چھو جانے والی گیندوں کی آواز سنائی نہیں دیتی تھی، اپنے تجربے کو استعمال کرتے ہوئے درست فیصلے کرنے کی کوشش کرتے رہے،  ’’ایکسپریس‘‘ میں شائع ہونے والی آپ کی پی ایس ایل ڈائری میں بھی پڑھا ہے کہ اس کا فلیور انٹرنیشنل کرکٹ سے بھی زیادہ ہے، یہ صرف اس ایونٹ کی بات نہیں آئندہ کوئی بھی انٹرنیشنل ٹیم یہاں آئے گی تو یہی ماحول ہو گا۔

انہوں نے کہا کہ ویسٹ انڈیز ٹیم نے کراچی کا دورہ کیا تو آئی سی سی امپائرز اور ریفریز سینئر جنرل منیجر ایڈم گرفتھ خاص طور پر آئے تھے، ان کا کہنا تھا کہ 3دن کے لیے تو ٹھیک ہے 15روز تک کسی سیریز میں کیا اس طرح کے انتظامات ممکن ہوں گے، میرا یہی کہنا تھا کہ آپ کو علم نہیں پاکستانی قوم کرکٹ کی کتنی دیوانی ہے، پہلے میچ اس کے بعد دوسرے اور تیسرے میں بھی سٹیڈیم بھرا ہوا تھا، وہ بھی مان گئے کہ پاکستانیوں میں کرکٹ کا جنون ہے، یہی جذبہ پی ایس ایل میں ایک بار پھر عروج پر نظر آیا۔

احسن رضا نے کہا کہ قوانین میں تبدیلیوں سے لاعلم ٹیمیں لڑائی پر اتر آتی ہیں، آئی سی سی جب بھی قوانین میں کوئی نئی چیز متعارف کراتی ہے تو میچ آفیشلز کو مسائل پیش آتے ہیں، امپائرز کا تو کام ہی قوانین کے مطابق کھیل کروانا ہے، اگر تبدیلیاں ہوں تو ان کو سمجھتے اور نافذ کرنے کی کوشش کرتے ہیں، مسائل کھلاڑیوں اور آفیشلز کی وجہ سے پیش آتے ہیں، انہوں نے نئے قوانین پڑھے یا دیکھے نہیں ہوتے جب کوئی فیصلہ دیا جاتا ہے تو اس پر ناراضی کا اظہار کرتے ہیں، ٹیمیں لڑائی پر اتراتی ہیں، کھلاڑی، کپتان اور منیجرز تک لڑ پڑتے ہیں، مثال کے طور پر ایک نیا قانون ہے کہ بولر کا ایکشن پورا ہونے کے بعد گیند پچ سے باہر گرے تو نو بال ہوگی اور فری ہٹ دی جائے گی، گیند پھینکنے سے قبل پھسل جائے تو ڈیڈبال قرار دی جائے گی، اگر کسی کو علم نہیں تو وہ نو بال پر اعتراض کر دے گا۔

ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ پاکستان میں امپائرنگ کا معیار ایشیا میں سب سے بہتر ہے، ٹی ٹوئنٹی سیریز میں چاروں امپائرز میزبان ملک کے ہونے کی وجہ سے ٹیموں کی جانب سے کافی شکایات سامنے آتی ہیں، پاکستان کے 2 امپائرز نے آسٹریلیا کے خلاف سیریز میں ڈیبیو کیا، ان کے خلاف کوئی شکایت نہیں ملی، آئی سی سی کے ریفریز اور امپائرز کو چز نے کہا کہ پاکستانی امپائرز کی اچھی گرومنگ ہوئی اور وہ انٹرنیشنل کرکٹ کے لیے تیار ہیں، پاکستان میں امپائرز کی فلاح و بہبود کا سلسلہ مزید آگے بڑھانے کی ضرورت ہے، اگرچہ پی سی بی نے میچ آفیشلز کے لیے بہت اچھے کام کیے ہیں، بھارت میں بھی سینٹرل کنٹریکٹ نہیں لیکن ہمیں مل چکے ہیں، میرے خیال میں فل ٹائم کام کرنے والے امپائرز کی تعداد بڑھانے کی ضرورت ہے، ایم ڈی وسیم خان زیادہ تر انگلینڈ میں رہے ہیں، وہ معاملات کو سمجھ کر ان میں بہتری لا سکتے ہیں، سٹرکچر مضبوط ہونے کی وجہ سے ابھی انٹرنیشنل کرکٹ میں انگلینڈ اور آسٹریلیا کے امپائرز بہت زیادہ ہیں، کوشش کی جائے تو پاکستان سے بھی سامنے آسکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔