تعلیم… کتاب… اور کارزارِ حیات کے چیلنج

پروفیسر رشید احمد انگوی  اتوار 11 اگست 2013
فوٹو: فائل

فوٹو: فائل

انسانی تاریخ کی سب سے پہلی تعلیمی سرگرمی یہ تھی کہ ربِّ کائنات خود پہلے انسان کو تعلیم دے رہا تھا اور سبق کا نام تھا۔

’’اسماء‘‘ یعنی ناموں کا علم۔ یہ اس حقیقت کا اظہار تھا کہ معلم ، نصاب اور متعلم بنیادی ارکانِ تعلیم ہیں اور اس سے اگلا مرحلہ امتحان کا تھا جب استادِ اول اپنے شاگرد کا ٹیسٹ لے رہا تھا اور یکے بعد دیگرے آسمانی کتابوں کے نزول نے کتاب کی اہمیت واضح کر دی۔ زندگی کا سفر جاری رہا انسان اپنے مسکن زمین پر آ پہنچا اور ہزاروں سال سے یہ سفر جاری ہے۔ شرق و غرب اور شمال و جنوب کی تفریق سے بالاتر ہو کر تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ معلم کے بعد کتاب ہی علم کا ذریعہ ہے۔

جب تعلیم کے لیے عمارتیں بنیں تو کلاس روم وجود میں آیا اور ساتھ ساتھ کتابوں کا مقام کتاب خانہ بھی ظہور پذیر ہو گیا۔ بڑے انسانوں کی تاریخ بتاتی ہے کہ ان کا بہت سا وقت اِن کتابوں کے ساتھ گزرتا اور انجام کار نئی کتابیں وجود میں آتیں۔ یہ سلسلہ چلتا رہا اور لائبریری کو سکول، کالج، یونیورسٹی میں اہم مقام حاصل ہو گیا۔ ہر اچھا طالب علم کلاس روم کی طرح لائبریری کا بھی طالب علم ہوتا۔

مسلمانوں کے عروج کی صدیاں کتب خانوں کے بھی عروج کا زمانہ تھیں۔ قرطبہ، غرناطہ اور بغداد کا بیان لائبریریوں کے بغیر ممکن ہی نہیں اور علامہ اقبالؒ کی ملی درد مندی کا وہ لمحہ تو فراموش نہیں کیا جا سکتا جب وہ فکر میں ڈوبی آنسوئوں کی لڑیاں یوں بہا رہے تھے ’’مگر وہ علم کے موتی کتابیں اپنے آباء کی

جو دیکھیں ان کو یورپ میں تو دل ہوتا ہے سیپارہ‘‘

وہ دل کی کیفیت سے آگاہ بھی کر رہے اور حیاتِ نو کا پیغام بھی دے رہے تھے۔

اس تاریخی پس منظر میں آج ہر آزاد ملک کے تعلیمی اداروں میں کلاس روم، لائبریری اور کھیل کے میدان آباد رہتے ہیں، مگر وطنِ عزیز پاکستان کے تعلیمی ادارے اس لحاظ سے انتہائی پس ماندگی کا منظر پیش کرتے ہیں کہ آج ہمارے سکول و کالج کی لائبریری کی سرگرمیوں کے لحاظ سے گویا کوئی قابلِ ذکر حقیقت دکھائی ہی نہیں دیتی۔

سچی بات یہ ہے کہ لائبریری آج صرف اتنی ہی حیثیت رکھتی ہے کہ قانون کا منہ بند کرنے کے لیے کسی کمرے پر لائبریری کی تختی لگا دی جائے اور الماریوں میں کچھ کتابیں بھر دی جائیں اور بس۔ یہاں تک کہ بہت سے قدیم اداروں کی کتابوں بھری الماریوں سمیت عملاً لائبریری ایک قبرستان کا روپ اختیار کر گئی ہے جہاں الماریوں کا ہر خانہ اپنی جگہ قبر بنا ہوا ہے بلکہ بسا اوقات تو کتابیں پڑے پڑے دیمک کا مسکن بن جاتی ہیں اور یہی ہمارے قومی زوال کا ایک اہم سبب بھی ہے۔

حال یہ ہے کہ سٹوڈنٹ کو تو چھوڑیں اساتذہ میں لائبریری اور اس کی مسکن کتابیں کوئی قابل توجہ حیثیت نہیں رکھتیں۔ نصابی کتب کے خلاصوں، نصابی جملوں کی رٹہ بازی اور اکیڈمیوں سے جاری کیے جانے والے گیس پیپروں نے نصابی کتاب پڑھنے کا حوصلہ ہی چھین لیا ہے۔ تو ایسے میں غیر نصابی (جنرل بکس) کے مطالعہ کا خیال کیسے آ سکتا ہے اور یہ ہے وہ صورتِ حال جو ادھورے انسان پیدا کر رہی ہے۔ لائبریری کا تو انتہائی اہم مقصد وجود ہی یہ ہے کہ طلبہ کو نصاب کی محدود سوچوں کے علاوہ زندگی کے میدان کار راز میں کامیابی کے حصول کے لئے ہمہ نوع مطالعہ مہیا کرے۔

ناول، افسانے، شاعری سے لے کر تاریخ، جغرافیہ معاشیات و سماجیات، سائنس اور پھر مالکِ کائنات کی اپنی کتاب نیز انبیائؑ و رسلؑ سے لے کر عالمی و قومی راہ نمائوں اور اہلِ علم و دانش کی زندگیوں کے حالات وغیرہ یہ سب وہ موضوعات ہیں جو ہر طالب علم کی نگاہ سے گزر کر اس کی تعمیر و تشکیل، شخصیت میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں اور اِن سے لاتعلقی اختیار کرنا اپنے آپ کو گھاٹے میں ڈالنے کے سوا کوئی معنی نہیں رکھتا۔

جدید ٹیکنالوجی نے سوشل میڈیا کی صورت میں جو نیا جہان پیدا کیا ہے اُس کے فوائد و منافع بھی کتاب سے جڑے ہوئے ہیں کہ اس کی مدد سے دنیا کے ہر کتب خانے سے استفادہ کرنا ممکن ہو گیا ہے مگر جناب والا اس ذوقِ کتب بینی کی کوئی تخم ریزی یا نرسری ذہن و فکر میں ہو گی تو تبھی اُس کی نشوونما اور وسعت کی گنجائش ہو سکتی ہے۔ بصورت دیگر اِس سے شائد ذہنی آوارگی اور خود ناشناسی جیسی نفسیاتی بیماریاں تو پیدا ہو جائیں مگر تعمیری رجحانات کا باب بند ہی رہتا ہے۔

وقت کا تقاضا ہے کہ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا نئی نسل میں مطالعہ اور کتب بینی کا ذوق پیدا کرے اور اس کے لیے مخلص اہل علم و فضل شخصیات کی راہ نمائی میں ایک منظم مہم برپا کی جائے تاکہ ہماری نسلِ نو زندگی کے حقیقی شعور سے ہم کنار ہو سکے اور افق پر پھیلی مایوسیوں اور ناکامیوں کا مقابلہ کیا جا سکے۔ یاد رکھیے! لائبریری انسانی تاریخ کے علم، تجربات، تصورات کا نچوڑ امانت کے طور پر کتاب پڑھنے والے کے دل و دماغ کے سپرد کر دیتی اور اسے ہر قسم کے تلخ و شیریں حالات میں آگے بڑھنے کی راہیں سجھا دیتی ہے۔ ’’کتاب بہترین دوست ہے‘‘ کا محاورہ ویسے تو نہیں وجود میں آ گیا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔