خود کوخداسمجھنا چھوڑ دیں…

شیریں حیدر  ہفتہ 25 اگست 2012
 Shireenhaider65@hotmail.com

[email protected]

اے سی کی خنکی سے سرد کمرے میںبھی کسی رات میں آپ پسینے پسینے ہو جائیں تو اسے نارمل نہیں کہا جا سکتا اور آپ خود بھی گھبرا جاتے ہیں کہ ہوا کیا، اس کے ساتھ ساتھ اگر آپ کی آنکھ کھلنے پر آپ کو احساس ہو کہ آپ کو سینے میںدرد اور گھٹن کا احساس بھی ہے تو پھر گھر پر رک کر کسی برے وقت کا انتظار کرنا عقل مندی ہر گز نہیں ہوتی، مجبوراً آپ کو ڈاکٹر کے پاس جانا ہی پڑتا ہے اور وہ بھی دل کا ڈاکٹر… آگہی کتنا بڑا عذاب ہے، اس کا اندازہ تب ہوتا ہے جب آپ کو اپنی علامات سے خود ہی اندازہ ہو جائے کہ کہیں دل کا دورہ نہ پڑا ہو۔

’’اللہ کا شکر ہے کہ دل کا دورہ نہیں ہے مگر یہ کیفیت جو آپ کو محسوس ہوئی ہے اس کو نظر اندازنہیں کیا جا سکتا!‘‘ ڈاکٹر نے بتایا، ’’ اضطراب یعنی anxiety کی حالت کافی حد تک اس سے مشابہ ہوتی ہے، یہ دل کی خرابی کی علامت نہیں مگر مسلسل اضطراب دل کی صحت کے لیے نقصان دہ ہو سکتا ہے!‘‘ جب ڈاکٹر صاحب کو علم ہوا کہ میری نیند بہت کم ہے کیونکہ میرے ذہن پر بہت سی سوچوں کا قبضہ رہتا ہے تو بڑی ہچکچاہٹ کے بعد انھوں نے انتہائی موزوں الفاظ میں مجھے بتایا کہ مجھے کسی ماہر نفسیات سے ضرور ملنا چاہیے۔

ماہر نفسیات سے مجھے ملنے میں کوئی تامل نہ تھا، میرا شمار ان لوگوں میں نہیں ہے جو ماہر نفسیات سے اس لیے نہیں ملتے کہ کہیں لوگ یہ جان کر انھیں پاگل نہ سمجھنے لگیں کہ وہ کسی ماہر نفسیات ( psychiatrist)کے زیر علاج ہے۔ ماہر نفسیات نے مجھے بتایا کہ مکمل اور پر سکون نیند انسانی جسم کی ایک اہم ضرورت ہے جو اسے بہت سی بیماریوں کے خلاف ڈھال فراہم کرتی ہے۔ ایسی بیماریاں جن میں نظام ہضم سے لے کر ذہنی اور اعصابی نظام تک متاثر ہو سکتا ہے… انھوں نے مجھے کچھ ذہنی ورزشیں بتائیں، کمرے کو سونے کے لیے کس طرح مناسب بنایا جا سکتا ہے، سونے سے پہلے نہانے ، پڑھنے ، موسیقی سننے یا تسبیح پڑھنے کو ایسی عادات کے طور پر اپنایا جا سکتا ہے جو آپ کو نیند سے ہمکنار کرنے میں مدد گار ثابت ہو سکتی ہیں۔

’’یہ دوا نیند کی لیے نہیں بلکہ آپ کے ذہن کو کسی حد تک پر سکون کر دے گی، اس کا استعمال قطعی مضر ہے اور نہ ہی آپ کو اس کی عادت ہو گی!‘‘ انھوں نے چھوٹی سی گلابی گولیاں میری طرف بڑھائیں۔ میں نے ان کا شکریہ ادا کیا اور اپنی نیند کی عادت کو بہتر بنانے کی عادت کے لیے لائحہ عمل مرتب کیا۔ کمرے میں کم روشنی کے بلب کا انتظام کیا، تمام غیر ضروری کاموں کو پس پشت ڈالا اور تمام کاموں سے فارغ ہو کر دوا لے کر بستر پر نیند کا انتظار کرنے لگی…آیا پروین کے بیٹے کا کل آپریشن ہے، میں نے کچھ سہیلیوں سے رقم جمع کی ہے، اس میں سے ابھی بھی سات ہزار کم ہیں…

…مالی کی ٹانگ کا پلستر اتر گیا ہو گا، جانے اگلے ہفتے سے آئے گا یا کہ نہیں؟ سارا لان جھاڑ جھنکار کا نمونہ بن گیا ہے مگر اسے نکال بھی تو نہیں سکتی، نکال دوں تو اس بے چارے کے گھر کا چولہا کیسے جلے گا…

…چچا کا ایک اور پوتا یا پوتی پیدا ہونے والا ہے، پہلے ہی گھر میں اتنے بچے ہیں، اس بچے کے آنے سے کتنے اخراجات بڑھ جائیں گے…

…ایمن کی منگنی جس لڑکے سے ہوئی ہے اس کی نہ شکل اتنی اچھی ہے نہ ملازمت، جانے ایمن کس طرح گزارا کرے گی، خاندان بھی اتنا بڑا ہے…

انھوں نے مجھ سے ساری تفصیل دریافت کی کہ میں نے اپنے معمولات میں کیا کیا تبدیلیاں لانے کی کوشش کی اور کس کس کوشش میں، میں کامیاب رہی اور پھر بھی نیند آنے میں کیوں ناکام رہی۔ ساری تفصیل میں نے ایک ایک کر کے بتائی، وہ سنتے رہے اور کچھ کچھ دیر کے بعد ڈائری میں کچھ نوٹ کرتے رہے، میں نے ساری بات مکمل کر لی تو انھوں نے ڈائری پر لکھنا بند کیا اور سر اٹھایا۔ ’’آپ کا سارا مسئلہ حل ہو سکتا ہے!‘‘ وہ رکے، میں سوالیہ نظروں سے انھیں دیکھ رہی تھی، ’’ اگر آپ خود کو خدا سمجھنا چھوڑ دیں!!! ‘‘ میں نے چونک کر انھیں دیکھا، ’’ یہ صرف آپ کا ہی نہیں، بہتوں کا مسئلہ ہے جو حساس لوگ ہیں مگر اپنی حساسیت کو اس درجے پر لے جاتے ہیں کہ اپنی حد پار کر لیتے ہیں… ان کی حساسیت ان کی نیندیں اڑا دیتی ہے اور وہ سمجھنا شروع کر دیتے ہیں کہ جن لوگوں کے بارے میں وہ متفکر ہیں، اگر وہ ان کے بارے میں نہیں سوچیں گے تو وہ لوگ بے آسرا ہو جائیں گے، وہ ان کے بارے میں پریشان نہ ہوں گے تو ان لوگوں کے مسائل حل نہ ہو سکیں گے۔

ان کی مدد کے بغیر نہ لوگوں کا علاج ہو سکتا ہے نہ ان کی شادیاں ہو سکتی ہیں نہ کسی کے گھر میں چولہا جل سکتا ہے۔ بی بی! آپ کیوں جاگتی ہیں لوگوں کی فکروں میں مبتلا ہو کر… کیا آپ نہیں جانتیں کہ جو ہم سب لوگوں کی فکر کرنے والا ہے وہ ہمہ وقت جاگتا ہے، وہ سب کا آسرا ہے، سب کا تھامنے والا ہے، جو لوگوں کے ساتھ ہو چکا ہے اور ہو رہا ہے اور ہونے والا ہے… وہ سب کی خبر رکھتا ہے، وہ سب کی پریشانیاں رفع کرنے والا اور سب کا حاجت روا ہے! ‘‘ وہ کہہ رہے تھے اور میرے ذہن میں آیت الکرسی گونج رہی تھی، جسے ہم ہر روز پڑھتے ہیں، ترجمہ بھی جانتے ہیں مگر ہمارا یقین اتنا کمزور کیوں ہے…

جن لوگوں اور ان کے جن مسائل کے لیے میں پریشان ہو کر اپنی نیندیں حرام کیے بیٹھی تھی، میرا اور ان کا خالق و مالک تو وہی ہے جس نے ہم سب کو بنایا اور ہمارے لیے وہ لمحہ لمحہ ہر جا موجود ہے، پھر کیوں میرے جیسے لوگ خود کو ان لوگوں کا نجات دہندہ اور ان کے مسائل کا حل کرنے والا سمجھ لیتے ہیں۔ لوگوں کی مدد کریں، ان کے مسائل میں ان کا ساتھ دیں، ان کی تکالیف کا ازالہ کرنے کی کوشش کریں مگر واقعی اس حد تک نہیں… کہ آپ خود کو خدا سمجھنا شروع کر دیں، اپنی صحت متاثر کر لیں جو کہ آپ کے پاس اللہ کی امانت ہے، یہ ہرگز دانائی کے زمرے میں نہیں آتا۔ یہ بھی دیکھنے میں آتا ہے کہ جتنا کوئی انسان کسی دکھوں کا مداوا کرنے میں آخری حد تک چلا جاتا ہے اتنا ہی ضرورت مند لوگ ان پر انحصار کرنا شروع کر دیتے ہیں۔

اپنے ہر مسئلے کے حل کے لیے ان ناخداؤں کی طرف دیکھنا شروع کر دیتے ہاتھ پھیلانا اور ضرورت سے زیادہ توقعات وابستہ کر لینا ان کی عادت بن جاتی ہے اور وہ کسی نہ کسی نوعیت کے بھکاری بن جاتے ہیں۔ دوسروں کی مدد کریں، ان کا خیال رکھیں، ان کے دکھ سکھ میں شریک ہوں… مگر اتنا ہی جتنا کہ کسی انسان کے اختیار میں ہوتا ہے۔ دوسروں کو اپنے پیروں پر کھڑا ہونے میں مدد دیں، ان کے مسائل کے حل کے لیے تجاویز دیں تا کہ وہ اپنے مسائل کو خود حل کریں اور آپ کی نیندیں بھی نہ اڑیں…

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔