اہل دانش کی ذمے داری

ظہیر اختر بیدری  پير 25 مارچ 2019
zaheer_akhter_beedri@yahoo.com

[email protected]

دنیا کے حکمران طبقات دنیا کی تقدیرکا فیصلہ کرتے ہیں اور فیصلے کرنے میں ان کا محرک قومی مفاد ہوتا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام میں قومی مفاد ایک ایسا محرک ہے جو جنگوں، خون خرابوں کو جنم دیتا ہے۔ ابھی پچھلے دنوں قومی مفاد کی ایک جھلک دکھائی دی ۔ بھارت کا دعویٰ ہے کہ اس نے اپنے قومی مفادات کو محفوظ بنانے کے لیے پاکستان کو سبق سکھا دیا۔ پاکستان نے بھارت کے دو طیارے گرا کر اور ایک پائلٹ کوگرفتار کرکے قومی مفادات کا تحفظ کیا۔

قومی مفاد سرمایہ دارانہ نظام کی ایک ظالم اصطلاح ہے جو ایک ملک کو دوسرے ملک کے خلاف جنگ کرنے پر اکساتی ہے، قومی مفاد کا نام نہاد نعرہ حکمران طبقات کو اکساتا ہے کہ وہ اپنے مخالف کے خلاف جنگ جیسے ہولناک اقدام سے گریز نہ کریں۔ نتیجہ دونوں طرف کی فوجی اور سویلین کے بھاری نقصان کی شکل میں دنیا کے سامنے آتا ہے چونکہ جنگ فوجیں لڑتی ہیں لہٰذا انھیں جان دینے اور جان لینے پر آمادہ کرنے کے لیے انھیں بھرپور طریقے سے قومی مفاد کی گھٹی پلائی جاتی ہے تاکہ وہ دشمن کی جان لینے اور اپنی جان دینے کے لیے تیار ہوجائیں۔

قومی مفاد بہ ظاہر ایک جاندار اصطلاح ہے اور یہ اصطلاح انسان کو جان دینے اور جان لینے پر آمادہ کر دیتی ہے۔ جنگوں کا فیصلہ اگرچہ طاقت کی برتری کے حوالے سے ہوتا ہے لیکن قومی مفاد ایک ایسا نشہ ہے جو کمزوروں کو طاقت وروں سے ٹکر لینے پر آمادہ کر دیتا ہے۔ ماضی میں قومی مفاد اور ایمان کی طاقتوں نے کمزور ملکوں کو طاقتور ملکوں کے خلاف ٹکرانے کی تحریک پیدا کی اور کمزور ملک قومی مفاد اور ایمان کی طاقت نے اپنے سے چار گنا زیادہ طاقتور ملکوں کو شکست سے دوچار کر دیا۔

حالیہ منی جنگ میں بھارت نے جس قومی مفاد کا سہارا لیا وہ سرا سر نا انصافی اور ہٹ دھرمی پر مشتمل تھی۔ بھارت کا موقف یہ ہے کہ پاکستان بھارت کے خلاف دہشت گردوں کو استعمال کرتا ہے۔ یہ الزام درست ہو نہ ہو اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ محبت اور جنگ میں ہر حربہ جائز ہو جاتا ہے۔ 1947ء میں متحدہ برصغیر کی تقسیم کا سب سے بڑا محرک بھی دو قومی نظریہ ہی تھا۔ رائج الوقت اخلاقیات میں ملکوں کو یہ چھوٹ حاصل ہے کہ وہ  نظریے کے تحت جتنا چاہیں خون خرابہ کریں۔

انسانوں کو خون ناحق سے بچانے کی ذمے داری اہل فکر، اہل دانش، ادیبوں اور شاعروں پر عائد ہوتی ہے کیونکہ وہ رنگ، نسل، دین، دھرم کے بھید بھاؤ سے آزاد ہوتا ہے اور انسان کو انسان کی حیثیت سے دیکھتا ہے لیکن بدقسمتی سے اہل علم، اہل دانش اس قدر کمزور اور منتشر ہیں کہ وہ انسان کی اجتماعی بھلائی میں کوئی کردار ادا نہیں کرسکتے۔ بھارت ایک بڑا ملک ہے اس کی فوجی طاقت پاکستان سے 5 گنا زیادہ ہے اسی فوجی طاقت نے اسے ہٹ دھرم بنادیا، اقوام متحدہ اور اخلاقی ضابطوں کے حوالے سے اسے یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ کشمیری عوام پر طاقت کے بل پر حکومت کرے لیکن وہ 70 سال سے کشمیری عوام پر طاقت کے بل پر حکومت کر رہا ہے۔

دوسری عالمی جنگ کے بعد دنیا کے بڑے حکمرانوں کو یہ احساس ہوا کہ دنیا سے ناانصافی اور جنگوں کو روکنے کے لیے ایک بین الاقوامی ادارہ بنایا جائے۔ سو بڑے ملکوں نے اقوام متحدہ کے نام سے ایک ادارہ بنایا جس کا بنیادی کام امن کی بحالی اور جنگوں کو روکنا طے ہوا۔ لیکن چونکہ دنیا کے رائج الوقت اخلاقیات میں طاقت کا نام انصاف ہے سو دنیا میں جنگیں بھی ہوتی رہیں اور لاکھوں انسان مارے بھی جاتے رہے۔ کوریا، ویت نام، عراق اور افغانستان کے علاوہ کشمیر اور فلسطین میں طاقت ہی کا قانون چلتا رہا ہے اور اس قانون کے تحت لاکھوں بے گناہ انسان قتل ہوتے رہے۔

جنگوں اور ناانصافیوں کو روکنے والے دانشور، مفکر، ادیب، شاعر بے حسی کی چادر اوڑھے سوتے رہے۔ کشمیر اور فلسطین کے بعد عراق اور افغانستان کے علاوہ یمن میں بھی بے گناہ انسانوں کا قتل عام جاری ہے اور دنیا کے بے حس دانشور، مفکر، ادیب یہ خوفناک کھیل دیکھ رہے ہیں لیکن اس کے خلاف آواز اٹھانے کی زحمت نہیں کر رہے ہیں۔ کیونکہ ان میں اتحاد نہیں اور وہ بھی سرمایہ دارانہ قومی مفاد سے متاثر ہیں۔ آفاقی وژن رکھنے والے دانشور، مفکر، فلسفی، ادیب اور شاعر اپنی ذمے داریوں کو بھلا کر قومی مفاد کی بھینٹ چڑھ رہے ہیں۔

سرمایہ دارانہ نظام کے خالق اور حامی ہرگز یہ نہیں چاہتے کہ دنیا میں دانشور، مفکر، ادیب، شاعر متحد ہوں اور ظلم اور ناانصافی کے خلاف ایک دیوار بن جائیں۔  سیاستدانوں کو دنیا کے فیصلے کرنے کا اختیار دے دیا گیا ہے اور سرمایہ دارانہ نظام کی ضرورتوں کے مطابق ڈھائی سو سال سے یہ طبقہ فیصلے کر رہا ہے اور دنیا کو جہنم بنائے ہوئے ہے۔ اس کلچر نے دنیا کے اربوں انسانوں کے استحصال کو مضبوط اور مستحکم بنا دیا ہے اور اس طبقے نے انسانوں کی زندگی جہنم بنا دی ہے۔

پہلی بار دنیا کے ادیبوں، شاعروں، دانشوروں نے پیرس میں جمع ہوکر ہٹلر کے بڑھتے ہوئے مظالم کے خلاف آواز اٹھائی تھی اس کے بعد یہ محترمین بے حسی کی چادر اوڑھے اصحاب کہف کی نیند میں کھو گئے ہیں۔

اس بدنما حقیقت سے دنیا کے عوام کو آگاہ کرنے کی ضرورت ہے کہ جب تک دنیا پر سیاستدانوں کی حکومت ہے دنیا میں بے گناہ انسانوں کا خون بہتا رہے گا، ’’انسان‘‘ بھوک، افلاس کا شکار بنے رہیں گے۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام کے کارندوں  سے دنیا کے عوام کو واقف کرایا جائے اور آفاقی وژن رکھنے والے اہل دانش کو دیوار بناکر اہل سیاست کی ظالمانہ کارگزاریوں سے واقف کرایا جائے تاکہ دنیا کے عوام تقسیم ہونے سے بچ سکیں اور رنگ، نسل، دین، دھرم کی ظالمانہ روش کی روک تھام انسان بن کرکر سکیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔